حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعہ النجف سکردو کے طالب علم مولانا منظور حسین سحر نے "واقعہ کربلا میں خواتین کا کردار" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
مقدمہ
قرآن مجید کلام الہٰی ہے اور اس پاک اور منزہ کتاب میں ہر انسان کے مقامات اور مرتبت کا قانون کلیہ موجود ہے۔اسی لیے قرآن نے خواتین کو بھی بہت بلند مقام سے نوازا ہے، اس نے حوا کی بیٹی کو وہ عزت بخشی ہے جو اس سے پہلے کبھی ا سے حاصل نہ تھی۔ اس نے معاشرے میں اس کا سر بلند کیا ہے، ۔ کتاب الہی میں انسانی ضروریات کے تحت جو تحفظ انہیں عطا کیا ہوا ہے نزول قرآن سے قبل کبھی اسے حاصل نہ ہوا۔ قرآن پاک مجید میں ارشاد پروردگار ہوتا ہے:
وَلَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلنَاهم فِی البَرِّ وَالبَحرِ وَرَزَقنَاهم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلنَاهم عَلَی کَثِیرٍ مِّمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً۔
ترجمہ :ہم نے اولاد آدم کو عزت دی۔ خشکی و سمندر کو ان کی جولان گاہ بنایا، پاکیزہ نعمتیں ان کے لیے مہیا کیں اور بہت ساری مخلوقات پر انہیں نمایاں فضیلت عطا کی۔
انسان کو جو مقام اور مرتبہ عطا ہو اہے اس میں جتنا حصہ مردوں کا ہے، اتنا ہی حصہ عورتوں کا بھی ہے۔ کیونکہ بنی آدم کا لفظ مرد وعورت دونوں پر صادق آتا ہے۔ اس میں مرد عورت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔کیونکہ مرد اور عورت دونوں معاشرے کی تشکیل میں برابر کے شریک ہیں اور ایک دوسرے کے محتاج بھی ہیں۔ فرق صرف روش میں ہے ۔عورت کی گود سے انقلاب جنم لیتا ہے۔ اسکی تربیت سے معاشرہ خوشحال اور بے خطر ہوتا ہے۔ اگر خواتین کو ان کے تمام حقوق دیئے جائیں تو وہ معاشرے کو جنت بنا سکتی ہیں۔ عورت انسان ساز ہے اور ان کا اہم فریضہ انسان سازی، معاشرہ سازی ہی ہے۔اسلامی تاریخ کی دقیق مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی مومنہ اور فداکار خواتین گزری ہیں جنہوں نے سیاسی اور اجتماعی امور میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ اولاد کی صحیح تربیت دینے کے علاوہ خود بھی مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر دین اورمعاشرے کی اصلاح کی ہے۔ خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔
ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے اسم مبارک جہاں کہیں بھی لیا جائے تو وہاں حضرت ہو اعلیہا السلام کا نام لازم وملزوم ہے۔خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے فرزند گرامی ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تاریخ جناب ہاجرہ علیہا السلام کے بغیر نامکمل ہے۔ جناب عیسی علیہ پکا نام جناب مریم علیہا السلام کے بغیر نہیں آتا۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺکے اس انقلاب کو کامیاب بنانے اور نور اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلانے میں جناب خدیجہ علیہا السلام کی قربانی نظر آئے گی، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی ہر مشکل میں ہر جگہ اپنے بابا بزرگوارختم الانبیا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اپنے شوہر نامدار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ساتھ نظرآتی ہیں۔اس کے علاوہ دوران تبلیغ اسلام بھی کہیں کوئی ایسی فتح دکھائی نہیں دیتی جس میں خواتین کے مضبوط ارادوں کے بغیر مردوں کو کچھ حاصل ہوا ہو۔اسلام کے آغاز کی سختیوں میں ام عمار کی دلیرانہ شجاعت نظر آتی ہے، ہجرت حبشہ میں جناب ام حبیبہ کا کردار قابل تعریف ہیں۔
واقعہ کربلا میں خواتین کا کردار
واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخ رو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیات نو بخشی ہے۔اس عظیم اور بے مثال جنگ میں جہاں پر مولا امام حسین علیہ السلام کے با وفا ،بہادرفرزندان اور اصحاب کے بے نظیر کردار موجود ہیں وہاں پر خواتین کی بے مثل قربانیوں سے انکار نا ممکن ہے، جس کو انسانیت کی تاریخ نے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا ہے۔ ان مثالی خواتین نے باطل کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، لیکن دین اسلام کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ مقصد واقعہ کربلا کو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے میں خواتین کربلا کے کئی بے نظیر ولاثانی کردار ہیں۔یہاں پر یہ جملہ لکھا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ حادثہ کربلا میں اگر یہ عظیم خواتین نہ ہوتیں تو حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقصد قربانی ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سید الشہدا علیہ السلام نے بہت سے اصحاب کباررضی اللہ عنہم کے مشورے کے برخلاف اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کے لیے نمونہ خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔کربلا کی ان بہادرخواتین نے اپنی عمل سے ثابت کردکھایا کہ نواسہ رسول علیہ السلام کربلا میں خواتین کو بے مقصد نہیں لائے تھے۔
کربلا کا واقعہ صرف عراق کی سر زمین کربلا میں ہونیوالا ایک واقعہ نہیں ہے ،بلکہ کربلا ایک تحریک، ایک حقیقت ،ایک مشن اور ایک مقصد کانام ہے کیونکہ خامس آل عبا علیہ السلام کی اس عظیم تحریک کاآغاز 28رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک محرم الحرام کو عصر عاشورا کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ ام المصائب ،ثانی زہرا جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور بیمار کربلا ،سید السجاد،زین العابدین حضرت امام علی ابن الحسین علیہما السلام کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق،جابر اور ظالم حکمرانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس انقلاب کی صدا پورے شرق و غرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی ۔لہذا ہم اس مقالے کو دو حصوںمیں تقسیم کرتے ہیں پہلے حصے میں ان با وفا خواتین کا مختصر تعارف اور ان کے کردار اور دوسرے حصے میں ان باکردار خواتین کو بھی خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کریں گے جنہوں نے کربلا میں موجود نہ ہونے کے باوجود خواہ وہ عاشورا کے بعد ہو یا پہلے اپنے کردار او ر افعال سے اس عظیم تحریک کی حمایت کر کے اپنے ناموں کو قیامت تک کے لئے حسینی کاروان کے ساتھ جوڑ لیا۔