۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
حوزہ علمیہ جامعۃ النجف سکردو

حوزہ / حوزہ علمیہ جامعۃ النجف سکردو کے زیر اہتمام علامہ اقبال آڈیٹوریم انچن کیمپس بلتستان یونیورسٹی میں "عصر حاضر کے طلباء کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل " کے عنوان سے ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ جامعۃ النجف سکردو کے زیر اہتمام علامہ اقبال آڈیٹوریم انچن کیمپس بلتستان یونیورسٹی میں "عصر حاضر کے طلباء کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل " کے عنوان سے ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس سے پاکستان کے مشہور و معروف عالم دین اور موٹیویٹر مولانا سید نصرت عباس بخاری نے خطاب کیا۔

کانفرنس میں جامعہ بلتستان کے طلباء و طالبات کے علاوہ مختلف کالجز اور مدارس کے اسٹوڈنٹس کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔

پروگرام کی نظامت کی ذمہ داری جامعۃ النجف سکردو کے فارغ التحصیل طالب علم مولانا زہیر کربلائی نے نبھائی۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام الٰہی سے ہوا۔ جس کی سعادت جامعۃالنجف کے طالب علم مولانا محمد جعفر نے حاصل کی۔ تلاوت قرآن مجید کے بعد معروف سکالرجناب آغا سید نصرت عباس بخاری نے حمد و ثنا سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور پروگرام کی انتظامیہ اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

مولانا نصرت بخاری نے اپنے مخصوص انداز میں معین موضوع پر گفتگو شروع کی اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث کو سرنامہ کلام قرار دیا: "علم روشنی ہے۔ اللہ تعالی جس کے دل پر چاہے اسے اتار دیتا ہے۔"

آج دنیا جس چیز کو نالج (علم) کہہ رہی ہے وہ نالج نہیں ہے۔ کیونکہ وہ نالج تو ہم سے زیادہ مختلف مشینز اور روبوٹ وغیرہ کے پاس ہے۔ مگر مشین کے پاس ایک چیز نہیں ہے اور وہ ہے اخلاق۔

انہوں نے کہا: آج جتنی بھی ایپس ہیں وہ سب غیروں کی بنی ہوئی ہیں۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ فیسبک اور اینسٹاگرام نے شہید سلیمانی کی کئی ملین تصاویر حذف کر دیں، کئی اکاؤنٹس بلاک کر دئے کیونکہ ان کے لئے زندہ سلیمانی اتنا خطرناک نہیں تھا جتنا شہید سلیمانی ان کے لیے خطرناک بن گیا ہے لیکن ہمیں اس چیز کا احساس نہیں ہے۔ لہذا ہم خود سے ایسے ایپس بنالیں کہ جسے دنیا والے ڈاؤن لوڈ کریں۔ آج دنیا ہماری شناخت چھین رہی ہے۔ ثقافت کے نام پر بے پردگی اور فحاشی کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، آج ڈرامہ وغیرہ کس حد تک بے حیائی پھیلا رہا ہے۔

آغا سید نصرت عباس بخاری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ایک سیریز میں دسیوں گناہان کبیرہ کو پروموٹ کیا جاتا ہے۔ آج کیا ہم اپنے موبائل کو اپنے امام کے ہاتھ میں دے سکتے ہیں؟ اگر موبائل نہیں دے سکتے تو کل اپنے وجود کو امام کے سامنے کیسے پیش کر سکیں گے؟

انہوں نے مزید کہا: ہم کہتے ہیں کہ ہم امام کے منتظر ہیں لیکن حقیقت میں امام ہمارے منتظر ہیں۔ کیا ہم امام کے لیے کبھی تڑپتے ہیں؟ کربلا یہی سکھاتی ہے کہ جو تیار تھا وہ امام تک پہنچ گیا۔ باقی پیچھے رہ گئے۔ ہمیں بھی پہلے سے تیار رہنا ہوگا۔ لہذا سب سے پہلے اپنے نفس کو پاک کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہوگا کہ خدا ہمارا خریدار بنے۔

کربلا ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جو آمادہ تھا وہ امام (ع) تک پہنچ گیا، مولانا نصرت بخاری

تبصرہ ارسال

You are replying to: .