تحریر: حجۃ الاسلام مولانا سید نثار حسین (حیدر آقا)
حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت زینب کبریٰؑ کی ولادت کی تاریخ جو بہت مشہور ہے وہ پانچ جمادی الاول چھ ہجری ہے ، جب آپؑ کی ولادت ہوئی تو آپ کا نام بھی خدا کی طرف سے رکھا گیا ۔ جب آپؑ کی ولادت ہوئی تو جناب فاطمہؑ نے امام علیؑ سے کہا کہ ’’ سمّ هذه المولودة فقال ما کنت لاسبق رسول الله ( و کان فی سفر) ولما جاء النبی صلىاللهعليهوآلهوسلم ساله علی عليهالسلام فقال ماکنت لاسبق ربّی الله تعالی فهبط جبرئیل یقرء علی النبی السلام من الله الجلیل وقال له سمّ هذه المولودة زینب ثمّ اخبره بما یجری علیها من المصائب فبکی النبی وقال من بکی علی مصائب هذه البنت کان کمن بکی علی اخویها الحسن والحسین ‘‘ یعنی فاطمہ (س) نے علیؑ سے کہا : اس نومولود کا نام انتخاب کریں ۔ علی عليهالسلام نے کہا: میں نے کسی بھی کام میں رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم پر سبقت نہیں کی ہے (اور ابھی آپؐ سفر پر ہیں )جب آپ تشریف لائے تو علی عليهالسلام نے سوال کیا ۔ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : میں نے بھی کسی کام کو خدا کے حکم کے بغیر انجام نہیں دیا۔ پس اسی وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اور رسول اللہ(ص)کو خداے جلیل کی طرف سلام پہنچانے کے بعد عرض کیا کہ اللہ فرماتا ہے : اے رسولؐ ! اس بچی کا نام زینب رکھئے ۔پھررسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم کو اس نومولود پر امت کی جانب سے کئے جانے والے سارے مصائب کو سنایا تو رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم گریہ کرنے لگے ۔ اور فرمایا : جوبھی اس بچی کی مصیبتوں پر آنسو بہائے گا اُسے ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا کہ ان کے بھائی حسن اور حسین عليہما السلام پر آنسو بہانے والے کو ملے گا۔ ( عباس جیانی دشتی ؛نائبۃ الزہرا، ص۱۷)۔
آپؑ کی کنیت ’’ ام المصائب‘‘ ہے اور آپؑ کے مشہور القاب ’’ شریکۃ الحسین ،عالمۃ غیر معلمہ ہیں جیسا کہ امام سجادعليهالسلام نے فرمایا : انت بحمد اللہ عالمۃ غیر معلمۃ ، اور عقیلہ قریش ، عقیلۃ الوحی ، نائبۃ الزہراء‘‘ بھی مشہور القاب ہیں آپؑ کا حسب و نسب بیان کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مانند ہے لیکن ہم یہاں تبرُّکا بیان کرتے ہیں ۔ چنانچہ ینابیع المودۃ میں روایت ہے کہ ’’ قَالَ عُمَرُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلىاللهعليهوآلهوسلم يَقُولُ كُلُّ حَسَبٍ وَ نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا خَلَا حَسَبِي وَ نَسَبِي وَ كُلُّ بَنِي أُنْثَى عَصَبَتُهُمْ لِأَبِيهِمْ مَا خَلَا بَنِي فَاطِمَةَ فَإِنِّي أَنَا أَبُوهُمْ وَ أَنَا عَصَبَتُهُمْ ‘‘
یعنی رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا : قیامت کے دن ساری رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گی سوائے میرے اور میری اولاد کی رشتہ داری کے ۔اور ہر بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف نہیں بلکہ اس کے باپ کی طرف دی جائے گی لیکن میری بیٹی فاطمہ الزہرا (س)کی اولاد کی نسبت میری طرف دی جائے گی۔ (۔ العمدة ،ص ۲۸۷، فصل ۳۵) ۔
لہٰذا آپؑ کی عظمت و منزلت کے لئے یہی کافی ہے کہ آپؑ کے نانا کو دیکھیں تو سید المرسلین ، با با کو دیکھیں تو سید الوصیین، بھائیوں کو دیکھیں تو اہل جنت کے جوانوں کے سردار ’’ سیدا شباب اہل الجنۃ ‘‘ہیں اور ماں سیدۃ نساء العالمین ہیں ۔
مشکلات اور سختیوں کے مقابلے میں صبر واستقامت اور خونخوار دشمنوں کےمقابلے میں شجاعت اور دلیری کا مظاہرہ کرنا آپ کی عظیم کرامتوں میں سے ہے ۔ اخلاق اور کردار کے اعتبار سے عطوفت اور مہربانی کا پیکر ،عصمت اور پاکدامنی کے اعتبار سے فخرِ مریم ، حیا و عفت کی مالکہ ہونا آپ کی شرافت اور عظمت کیلئے کافی ہے۔ آپؑ کی عظمتوں میں سے سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ آپؑ اپنے زمانے کے امام کو پوری طرح پہچانتی تھیں اسی لئے اپنے امامؑ کے اقدام و مقصد کو پہچانتے ہوئے انہیں تنہا نہیں چھوڑا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ میں اپنے امامؑ کو تنہا نہیں جانے دوں گی حالانکہ آپؑ اس سفر کے تمام حالات سے باخبر تھیں ۔ ان بحرانی حالات میں جن میں بڑے سے بڑا سمجھدار انسان بھی اپنا راستہ معین نہیں کرپاتا ، اُن حالات میں آپؑ نے فیصلہ کیا اور اپنے امامؑ کی پشت پناہی کی اور ان کے عظیم مقصدِ شہادت میں شریک ہوئیں ۔ اور امامؑ کی شہادت کے بعد مقصدِ حسینؑ کو کوفہ و شام کے راستوں اور درباروں میں بیان کیا۔ جس کی وجہ سے آج نامِ حسینؑ اور کربلا کے ضمن میں پورا اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہونچ گیا ۔ اور انشاء اللہ جنابِ زینبؑ کے خطبوں اور بیانات کی جھنکار سے امامؑ کی عظمت و حقانیت کو دنیا پہچان لے گی اور یہ کہنےپر مجبور ہوگی کہ ’’ ہمارے ہیں حسین‘‘
حقیقت تو یہ ہے کہ زینبؑ کے بغیر کربلا کربلا نہ ہوتی ! اگر آپؑ نہ ہوتی تو کربلا کا یہ واقعہ وہیں پر ختم ہوگیا ہوتا ! عاشور کے دن سارے مرد شہید ہوگئے اور عصر کے وقت خیموں میں امام سجادؑ کے علاوہ کوئی مرد باقی نہیں بچا تھا اور آپؑ خدا کی مصلحت کی بناء پر بیمار تھے اور حسینؑ کے چھوٹے چھوٹے بچے اور خواتین تھیں جو لاکھوں دشمنوں کے نرغے میں تین دن کے بھوکے پیاسے کربلا کی جلتی خاک پر اپنے عزیزوں کے لاشوں کو زمین پر پڑے ہوئے دیکھ رہے تھے ، ان سخت حالات میں کوئی تو ہو جو حسینؑ اور عباسؑ بن کر ان کی دیکھ بال کرے ! تو تمام تاریخ لکھنے والوں نے بالاتفاق لکھا کہ ایسے سخت حالات میں ان سب کی ذمہ داری کو جو اپنے کاندھوں پر لئے ہوئے تھیں وہ شریکۃ الحسین حضرت زینبؑ کی ذات تھی !
بیشک روزِ عاشور تمام مصیبتوں کو برداشت کرنے میں حضرت زینبؑ اپنے بھائی کے ساتھ شریک تھیں ۔ یہاں تک کہ اپنے بھائی کے گلے پر چلتا ہوا خنجر بھی دیکھا ۔ ان تمام مصیبتوں کو برداشت کرنےمیں اللہ کی طرف سے آپؑ پر ایک بہت عظیم ذمہ داری تھی ۔ وہ یہ کہ مقصد شہادت امامؑ کو پوری طرح اجاگر کریں ۔اور یہ بتائیں کہ امامؑ نے مجبور اور بیکسی کے عالم میں جان نہیں دی بلکہ اللہ کی مصلحت کی بنیاد پر سارے ظلم برداشت کئے ہیں ۔ اب تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جب میں ایک عورت ہوکے تمہارے دربار میں بے خوف ہوکے حسینؑ کی حقانیت پیش کررہی ہوں تو وہ امامؑ وقت ہوکر تم سے کہاں ڈرتے ! لہٰذا عاشور کے دن امامؑ کے لئے جو جملہ کہا گیا وہ بہت مشہور ہے ’’ فواللہ ما رائتُ مکسورا قطُّ قد قُتِلَ ولدہ و اھل بیتہٖ اربط جاشاً و لا اقویٰ جناناً من الحسینؑ‘‘ یعنی ہم نےحسینؑ سے زیادہ مضبوط دل اور پکے ارادے والا انسان نہ کبھی دیکھا نہ سنا جب کہ انکے سامنے انکے بچے اور اہل بیت کے لاشے خون میں ڈوبے ہوئے سامنے ہی ہوں ۔‘‘ یہ جو کہا جاتا ہے کہ عاشور کے دن کربلا میں تلوار پر خون نے فتح پائی ہے بالکل صحیح ہے اور اس فتح و کامیابی کی روحِ رواں جنابِ زینبؑ کی ذات تھی ورنہ خون تو کربلا میں بہہ چکا تھا ۔! عاشور کے روز فوجی معرکہ میں امامؑ کے سارے اصحاب و انصار شہید ہوچکے تھے لیکن جناب زینبؑ نے ان تمام مصیبتوں پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اور ہر قربانی کے مقابل خدا کی بارگاہ میں اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرکے یہی دعا کرتی تھیں کہ ’’ اللہم تقبل منی ھٰذا القربانَ‘‘ یعنی خدایا ! مجھ سے میری ان قربانیوں کو قبول فرما ۔ آپؑ نے اپنے ان عظیم کلمات کے ذریعے دلیری کا مظاہرہ فرمایا اور اس ظاہری شکست کو قیامت تک کے لئے حقیقی کامیابی اور کامرانی میں بدل کر باطل کے چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ، اور ابن زیاد کے دربار میں جب کسی دشمن نے آپؑ سے پوچھا کہ ’’ جو کچھ خدا نے آپکے بھائی کے ساتھ کربلا میں کیا اُسے آپؑ کیسا دیکھ رہی ہیں ؟ تو آپؑ نے بڑی دلیری اور پر رعب انداز میں فرمایا کہ ’’ ما رائتُ الَّا جمیلاً‘‘ یعنی میں نے کربلا میں سوائے اچھائی کے کچھ نہیں دیکھا ۔ دشمن کے اس سوال کا مقصد آپ کے حوصلے کو کمزور کرنا اور شہیدانِ کربلا کی قربانیوں کو غلط انداز سے پیش کرنا تھا لیکن جناب زینبؑ نے اپنے ان جملات اور شام و کوفہ و بازار و دربار میں اپنے فصیح و بلیغ خطبوں کے ذریعے ان کی اس شیطانی سوچ کو ذلت و رسوائی کا طوق پہنادیا ۔ اور قیامت تک کے لئے دشمنوں کو نمرود و فرعون کی فہرست میں کھڑا کردیا ۔ اپنے بھائی کی جانشین بن کر ہر جگہ امامؑ کے مقصد کو پہونچایا اور آپؑ نے ہر جگہ صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بابا کے لہجہ میں خطبہ ارشاد فرماکر تمام دنیا والوں کو پیغام اور مقصد حسینؑ سے آگاہ فرمایا ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ خود ظالم و جابر کے دربار سے انقلاب برپا ہونا شروع ہوا اور بہت ہی کم مدت میں پوری دنیا میں اپنے بھائی اور امامؑ کے پیغام یعنی حقیقی اسلام کو دنیا کے کونے کونے میں پہونچانے کا راستہ عزاداری کی صورت میں فراہم کیا ۔اسی لئے آج ہر جگہ فتحِ حسینؑ کا اعلان ’’یاحسینؑ ، یا حسینؑ ‘‘ کی صدا میں سنائی دے رہا ہے ۔ اور یزید اور یزیدت کا کوئی ہمنوا اور نام لیوا نہیں ہے ۔ گویا ہمیشہ کے لئے حسینؑ اور حسینیت کامیابی کا نام بن گیا اور یزید و یزیدیت ناکامی کا نام ہوگیا ۔
اگر ہم ثانی زہراؑ کے انداز اور کردار پر نظر رکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ؛
۱ ۔ بڑے سے بڑے ظالم اور بے رحم لوگوں کے سامنے بھی حق بات بغیر خوف کے کہیں ۔
۲ ۔ اللہ و رسولؑ پر بھروسہ کرتے ہوئے اعلانِ حق ، تبلیغ حق کرکے ہر ظالم و دشمنِ اسلام کو دندان شکن جواب دیں ۔
۳ ۔جس طرح جناب زینبؑ نے امامؑ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا ہم بھی امامؑ کے لئے ہر چیز دینے کا جذبہ رکھیں ۔
۴ ۔ جناب زینبؑ نے بغیر چادر کے بھی اپنے پردے کو پوری طرح بچایا اسی طرح قوم کی ماں بہنیں اپنے پردے کی حفاظت کرکے اپنے دینی فریضے کو انجام دیں ۔
۵ ۔ جناب زینبؑ نے اپنے بابا کے لہجے میں خطبہ دے کر آواز کا پردہ کیا اسی طرح ہماری ماں بہنیں بھی حکم شرعی کا لحاظ رکھیں ، تاکہ شہزادیؑ ہم سے خوش ہوں۔
لہٰذا اے زینبؑ کے پرسہ دارو ! ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ثانی زہراؑ نے مقصدِ حسینؑ کو بہت ہی تدبیر کے ساتھ افکار شیطانی سے بچاکر ہم تک پہنچایا ہے ۔ ہمیں اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے اور اس عزاداری کو ثانی زہراؑ کی امانت جان کر نسل در نسل بیان کرتے ہوئے نسلوں کوحقیقی عزادارِ حسینؑ بنانے کی کوشش کرنا چاہئے ۔