۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
زین العابدین

حوزہ/ صحیفۂ سجادیہ جو امام سجاد علیہ السلام کی گرانقدر یادگار اور آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے اور امام خمینی قدس سرہ کے بقول: ہم شیعوں کے افتخارات اور قابل فخر و مباہات چیزوں میں سے ایک ہے۔

تحریر: آیۃ اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ
ترجمہ: مولانا فیروز علی بنارسی

حوزہ نیوز ایجنسی | دعاء و مناجات باطن کی آواز ہے اور دل کی جلاء کا باعث ہے جو بندہ کے معبود سے ، قطرہ کے سمندر سے، تاریکی کے نور سے، کمزور ی کی انتہاکے نہایت قوت و طاقت سے اور نقص کی آخری حد کے لا متناہی کمال سے رابطہ کی غرض سے انجام پاتی ہے۔ ہمارے مذہب تشیع کی دعائیں لطائف و ظرائف، معارف و اسرار کا ایک مجموعہ ہیں جس کے اندر سے معنویت اور روحانیت کے انوار مشتاق دعاگو کی روح کو منور کرتی ہیں اور اس کے دل کو دھوکا دھڑی کے زنگ کو مٹا کر تیزی اور چمک عطا کرتی ہیں۔ چونکہ بندہ اپنے پروردگار سے راز و نیاز، دعا و مناجات کرتا ہے لہٰذا عرفان کا ایک دریا اس کی دعاؤں میں موجیں مارتا ہے اس لئے کہ اس حالت میں عبد و مولا کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا لہٰذا دعا عرفان و عبادت کا ایک بہترین مظہر ہے۔
باوجودیکہ خدائے سبحان نے اپنے آپ کو ہم سے سب سے قریب اور نزدیک بتایا ہے کہ ’’نَحنُ اَقرَبُ اِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِید ‘‘ہم انسان کے شہ رگِ حیات سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہیں۔ (ق؍۱۶)
اس سے پہلے کہ ہم اپنی حاجتوں کو اس کے سامنے ظاہر کریں اور کچھ بیان کریں، وہ جانتا ہے کہ ہماری حاجت و نیاز کیا ہے: نَعلمُ مَا تُوَسوِسُ بِہ نَفسہ۔ ہم جانتے ہیں کہ کون سی چیز اس کے نفس میں وسوسہ پیدا کرتی ہے۔
(ق؍۱۶)
یہاں تک کہ اس سے پہلے کہ ہم سمجھیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں، خدا جانتا ہے: یَعلَمُ السِّرَّ وَ اَخفیٰ۔ خدا راز اور اس سے بھی زیادہ پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔
(سورۂ طہٰ؍۷)
ان سب کے باوجودخدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم دعا کریں اور اپنی حاجتوں کو اس کی بارگاہ میں بیان کریں۔ یہ ساری تاکید یں اس لئے ہیں کہ دعا عبد و مولا کے درمیان رابطہ کی مضبوطی و استحکام کا سبب بنتی ہیں اور چونکہ اس رابطہ میںکوئی بھی واسطہ نہیں بنتا ہے، لہٰذابندہ کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی بارگاہ میں بیان کر دیتا ہے۔
صاحبِ معرفت کی ایک اچھی عادت بخشش و سخاوت ہوتی ہے لہٰذا وہ اپنی دعا میں کہتا ہے: خدایا! اپنے علاوہ دوسروں کو مجھ سے لے لے۔
جبکہ جس کا ہاتھ دولت معرفت سے خالی ہوتا ہے وہ ہاتھ پھیلا دیتا ہے اور کہتا ہے:
خدایا! مجھے عطا کر۔
دعا کرنے کے یہ دو طریقہ آپس میں ایک دوسرے سے بہت فرق رکھتے ہیں۔
صحیفۂ سجادیہ جو امام سجاد علیہ السلام کی گرانقدر یادگار اور آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے اور امام خمینی قدس سرہ کے بقول: ہم شیعوں کے افتخارات اور قابل فخر و مباہات چیزوں میں سے ایک ہے۔
امام خمینیؒ فرماتے ہیں: ہمیں فخر ہے کہ حیات بخش دعائیں جنہیں قرآن صاعد (اوپر جانے والا قرآن) کہتے ہیں، ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے ہیں۔ ہم فخر کرتے ہیں کہ مناجات شعبانیہ، امام حسین علیہ السلام کی دعائے عرفات، صحیفۂ سجادیہ ، زبور آل محمدﷺ اور صحیفۂ فاطمیہ جو خدا کی جانب سے حضرت زہراﷺ و مرضیہ پر الہام ہوا ہے، ہم شیعوں کا ہے۔
(وصیت نامہ امام خمینیؒ)
صحیفۂ سجادیہ سے گرانقدر اور با ارزش کتاب جو عرفان کی مثل اعلیٰ ہے ، امام سجاد علیہ السلام کے پدر بزرگوار امام حسین علیہ السلام کی دعائے عرفات کے مانند حماسہ ساز عرفاء کو شعور انگیز حماسہ کی تعلیم دیتی ہے۔
اس گرانقدر کتاب کی دعاؤں میں سے ایک دعا نظام اسلامی کی سرحدوں کے پاسبانوں اور محافظوں کے حق میں ہے۔ پہلے عرفان کے بارے میں دعا ہے اس کے بعد حماسہ کے سلسلہ میں۔ اس لئے کہ اس دعا کا ایک اہم حصہ تہذیب نفس، تذکیہ اخلاق، تربیت نفوس اور تطہیر دل کی طرف پلٹتا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام اس دعاکے عرفانی حصہ میں بارگاہ خدا میں عرض کرتے ہیں:
خدایا! جو لوگ اسلامی سرحد کی حفاظت کے لئے مورچہ پر سعی و کوشش اور مجاہدت کر رہے ہیں ان کے دلوں کو اپنی یاد سے گرم کر دے۔ دنیا کی محبت کو ان کے دلوں سے نکال دے، ان کے دلوں سے گھر اور معاشرہ کی محبت کو کم کر دے۔
وَاجعَل فِکرَہ وَ ذِکرَہ وَ ظَعنَہ و اِقَامَتَہ فِیکَ وَ لَکَ
خدایا! ان کے ذکر و فکر اور کوچ و سکونت کو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔
اس لئے کہ اگر انسان غیر خدا کو بھلا دیں گے تو ان کا دل صرف خدا کی تجلی گاہ بن جاتا ہے۔ یہ ایک با معرفت انسان کی دعا ہے مجاہد کے حق میں جو عرفان و معرفت کا پہلو رکھتی ہے۔
امام علیہ السلام ایک دوسری دعا میں عرض کرتے ہیں:ـ
اَلوَیلُ لِی ثُمَّ الوَیلُ لِی اِن کَانَ اِلیٰ جَہَنَّمَ مَحشَرِی، اِلٰہِی اَلوَیلُ لِی اِن کَانَ فِی النَّارِ مَجلِسِی۔
مجھ پر وائے ہو وائے اگر دوزخ میرا ٹھکانا ہو ! خدایا وائے تو مجھ پر اگر جہنم میری نشست گاہ ہو!
(بحار،ج۹۱،ص۱۲۲، ح۱۹)
نیز امام زین العابدین علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں:
میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ اگر روئے زمین پر بسنے اولے سارے انسان مر جائیں (چاہے طبیعی موت سے مریں یا اعتقادی موت سے) اور قرآن میرے پاس ہو تو میں کبھی بھی وحشت و تنہائی کا احساس نہیں کروں گا۔
لَو مَاتَ مَن بَینَ المَشرِقِ وَالمَغرِبِ لَمَا استَوحَشتُ بَعدَ اَن یَّکُونَ القُرآنُ مَعِی
(پروردگار قرآن کریم کے بارے میں فرماتا ہے: لِيُنْذِرَ مَنْ كانَ حَيًّا وَ يَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكافِرِين(یس؍۷۰) ہم نے قرآن نازل کیا ہے تاکہ زندوں کو ڈرائے اور کافروں پر حجت تمام ہو جائے)
اس آیت میں زندہ کے کافر سے تقابل کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کفر اور اعتقادی موت میں گرفتار ہو جائے تو قرآن کریم کی نظر میں وہ مردہ شمار ہوتا ہے۔چنانچہ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام جب مالک یوم الدین کی تلاوت فرماتے تھے تو اس قدر اس آیت کی تکرار کرتے کہ ایسا معلوم ہوتا کہ روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے گی۔
یہ امام زین العابدین علیہ السلام کی حیات طیبہ کے عرفانی، معنوی اور روحانی پہلو تھے جن سے اکثر افراد واقف ہیں ، لیکن آپ کی حیات طیبہ کا وہ پہلو جو بسا اوقات تشریح و تفسیر طلب ہے، مزید وضاحت کا محتاج ہے اور ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے لئے واضح نہ ہو وہ آپ کی حیات طیبہ کا حماسی پہلو اورآپ کے شجاعانہ اقدامات ہیں ۔
(اور قابل افسوس بات ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں امام علیہ السلام کی نادرست تصویر پائی جاتی ہے کہ معاذ اللہ آپ ایک کمزور، نحیف، بیمار و ناتواں اور زمین گیر انسان تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی اپنے زمانہ کی ستمگر حکومت کے خلاف کوئی جوش و خروش کا مظاہرہ یا اقدام نہیں کیا لہٰذا آپ کے اسم مبارک کے ساتھ ساتھ ’بیمار‘ لگا دیتے ہیں جب کہ مصلحت پروردگار یہ تھی کہ آپ صرف واقعۂ عاشورا میں بیمار رہیں تاکہ جنگ میں شرکت نہ کریں اور شہید نہ ہوں اور زمین حجت خدا سے خالی نہ ہو جائے۔ اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام کی مدد کرنا اور آپ کا دفاع کرنا چونکہ آپ اپنے زمانے میں حجت خدا تھے، ہر اس شخص پر واجب تھا جو آپ کی صدائے استغاثہ سن رہا تھا ۔ دوسری طرف جو بھی اس نابرابر کی جنگ میں شرکت کرتا وہ شہید ہو جاتا لہٰذا مشیت و مصلحت پروردگار یہ تھی کہ امام زین العابدین ان چند دنوں میں بیماری کی حالت میں رہیں تاکہ امامت کا سایہ دار شجر طیبہ امت کے سر پر سایہ افگن رہے لیکن یہ کہ آپ نے اپنے زمانے کے ستمگر حاکموں کے خلاف آواز بلند نہیں کی اس کا ذکر جلد ہی آئے گا کہ آپ نے کون کون سے عظیم کارمانے انجام دیئے ہیں)
امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ایک دعا جس میں آپ نے عرفان اور دعا کو ایک ساتھ ملا دیا ہے، یہ ہے کہ:
خدایا! مجھے ایسی توفیق دے کہ تیری ایسی حمد کروں کہ سعادت تک پہنچ جاؤں اور تیری اولیاء میں سے سعادت مندوں میں شامل ہو جاؤں، خدایا! ایسی توفیق عطا فرما کہ تیرے دشمنوں سے جنگ کرکے شہیدوں کی فہرست میں شامل ہو جاؤں۔ حَمْداً نَسْعَدُ بِهِ فِي السُّعَدَاءِ مِنْ أَوْلِيَائِهِ، وَ نَصِيرُ بِهِ فِي نَظْمِ الشُّهَدَاءِ بِسُيُوفِ أَعْدَائِهِ، إِنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيد ۔(پہلی دعا کا آخری حصہ)
اگر صرف شہادت کی بات ہوتی تو ممکن تھا کہ کوئی یہ توجیہ کرتا اور کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص اہل بیت علیہم السلام کے حق کا عارف ہو تو اگر چہ وہ بستر پر مر جائے شہید مرتاہے۔ البتہ یہ بات اپنی حد تک حق اور قابل قبول ہے لیکن امام علیہ السلام کا کلام اور دعا ان باتوں سے کہیں بلند و بالا ہے اس لئے کہ آپ فرماتے ہیں:
خدایا! ہمیں ایسی توفیق عطا فرما کہ ہم تیرے دشمنوں کی تلوار سے شہداء کی صف میں شامل ہو جائیں۔ عارفانہ حماسہ و ولولہ اور جوش و جذبہ اس دعا میں مکمل طور پر قابل مشاہدہ ہے۔
البتہ امام سجاد علیہ السلام روز عاشورا براہ راست میدان جنگ میں شریک نہ تھے چونکہ قضا و قدر الٰہی یہ تھی کہ آپ شہید نہ ہوں اور اپنے بعد کے اماموں کے والد ہوں تاکہ امت کی امامت اور سماج کی ہدایت کا سلسلہ جاری و ساری رہے لیکن آپ کی حماسی روح کبھی پرسکون نہ رہی لہٰذا جہاں کہیں بھی مصلحت تقاضا کرتی اور مناسب موقع پیش آتا آپ اموی حکمرانوں اور درباریوں کے راز فاش کرتے اور ان سے ان کے مظالم پر جواب طلب کرتے تھے۔
کوفہ میں امام سجاد علیہ السلام کا حماسہ
باوجودیکہ امام سجاد علیہ السلام نے کربلا سے شام تک کے فاصلہ کو خاموشی کے ساتھ طے کیا اور صرف یاد حق میں رہتے اور اہل حرم کے علاوہ کسی سے کوئی بات نہ کرتے باوجودیکہ آپ کو کوفہ میں قیدخانہ میں ڈال دیا گیا، آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پیروں میں سخت و گراں بیڑی ڈالی گئی اور آپ کو بے کجاوہ اونٹ پر سوار کیا گیا۔ آپ کے بدن سے خون جاری تھا لیکن جب آپ نے بولنا شروع کیا تو فرمایا:
اے امت نابکار! تمہاری زمین اور مکان پر پانی نہ برسے۔ اے وہ امت جس نے ہمارے جد کی حرمت کا ہمارے بارے میں کوئی پاس و لحاظ نہ رکھا، اگر قیامت کے دن ہمارے جد کے سامنے آؤگے تو کیا کہوگے؟ ہم کو بے کجاوہ اونٹوں پر شہر بہ شہر پھراتے ہو۔ گویا ہم نہ تھے جنہوں نے تمہارے درمیان دین کی بنیادوں کو محکم و مضبوط نہیں کیا۔
اس کے بعد آپ نے مجمع کی طرف اشارہ کیا کہ خاموش ہو جاؤ۔ جب سب خاموش ہو گئے تو آپ نے حمد و ثنائے الٰہی اور رسول خداﷺ پر درود و سلام کے بعد اپنا تعارف کرایا اور کربلا میں بنی امیہ کے ظالموں نے جو مظالم ڈھائے تھے ان سے پردہ ہٹاتے ہوئے فرمایا:
اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں پہچانتا ہے وہ پہچان لے کہ میں علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس کی حرمت پامال کی گئی، مال و اسباب کو لوٹ لیا گیا، اہل حرم کو اسیر بنایا گیا، میں اس کا فرزند ہوں جس کو بے جرم و خطا فرات کے کنارے ذبح کر دیا گیا۔ میں اس کابیٹا ہوں جس کو تڑپا تڑپا کر قتل کیا گیا اور یہی میرے فخر کے لئے کافی ہے۔ (مقتل مقرم،۳۱۶)
اس خطبہ اور پردہ برداری کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے گریہ کی آوازیں بلند ہو گئیں اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: ہم تو ہلاک ہو گئے۔ تمہیں پتہ بھی نہیں ہے کہ کیا کر بیٹھے ہو اور تمہارے سر پر کون سی مصیبت آن پڑی ہے۔
(مقتل مقرم،۴۱۶)
اسی طرح امام سجاد علیہ السلام نے کوفہ کے حالات کو بدل دیا اور لوگوں کے لئے قیام و انقلاب کے موقع فراہم کر دئے۔
ابن زیاد ملعون نے اسیروں کو اپنے محل (دار الامارہ) میں داخل کرنے سے پہلے ایک عمومی اعلان کر دیا تھا کہ جو بھی دار الامارہ میں آنا چاہتا ہے آ جائے۔ درحقیقت اس ملعون نے ایک عمومی جشن برپا کر رکھا تھا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ آل اللہ کو نہایت دردناک انداز میں دار الامارہ میں داخل کیا جائے۔ جب امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو اس ملعون کے سامنے رکھا گیا تو وہ خبیث نہایت بے شرمانہ انداز میں چھڑی سے سر مبارک کے ساتھ گستاخی کرنے لگا پھر امام سجاد علیہ السلام کی طرف رخ کیا اور کہا:
تمہارا نام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں علی ابن الحسین ہوں۔کیا خدا نے علی ابن الحسین کو قتل نہیں کیا؟میرے ایک بڑے بھائی تھے ان کا نام بھی علی تھا۔ تیرے لوگوں نے انہیں قتل کر دیا۔لوگوں نے نہیں بلکہ خدا نے انہیں قتل کیا ہے۔
البتہ خدا موت کے وقت ہر روح کو قبض کرتا ہے اور کوئی بھی خدا کے اذن تکوینی کے بغیر نہیں مرتا ہے۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها ۔۔۔۔ وَ ما كانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّه۔
یہ حاضر جوابی اور بحث و گفتگو ابن زیاد پر بہت گراں اور ناقابل برداشت تھی لہٰذا اس نے حکم دیا کہآپ کی بھی گردن اڑا دی جائے۔
یہ سن کر جناب زینبﷺ عقیلۂ بنی ہاشم نے اپنے آپ کو امام علیہ السلام کی سپر بنا لیا اور ابن زیاد کو اس بے شرمانہ فیصلہ سے منع کر رہی تھیں۔ امام علیہ السلام نے شجاعت کا مظاہرہ کیا اور فرمایا: أَبِالقَتلِ تُہَدِّدُنِی؟ اَمَا عَلِمتَ اَنَّ القَتلَ لَنَا عَادَۃٌ وَ کَرَامَتَنَا الشَّہَادَۃ۔ کیا تو مجھے قتل کی دھمکی دیتا ہے ؟ کیا تو ابھی تک نہیں سمجھا ہے کہ قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شہادت ہمارا فخر ہے۔
(بحار الانوار،ج۴۵،ص۱۱۷)
یہ وہی امام حسین علیہ السلام کا آزادانہ کلام ہے جسے آپ نے میدان کربلا میں اور راستہ میں ارشاد فرمایا تھا۔ اسی کو امام سجاد علیہ السلام نے کوفہ کے دار الامارہ میں اسیری اور ہتھکڑی بیڑی کے بارگراں کے درمیان خون آشام اموی کارندوں اور درندوںکے درمیان فرمایا۔
ایسا لگتا ہے کہ ہتھکڑی، بیڑی میں جکڑا یہ انسان دہاڑنے والا شیر ہے جسے قید کر رکھا ہے۔ کبھی بھی ایک عقلمند انسان کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ کوے کو پنجرے میں بند کرے، یہ طوطا، بلبل اور قمری ہے جس کو پالنے کے لئے پنجرا بنانا ، ان پر خرچ کرنا اور زحمت اٹھانا معنی رکھتا ہے۔اس شجاعانہ اقدام سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسیر ہونا، ہتھکڑی بیڑی میں جکڑ جانا یہ صرف جسم کے لئے محدودیت ایجاد کرتا ہے لیکن صاحب ِمعرفت کی روح، روح حماسہ ہوتی ہے لہٰذا ہمیشہ زندہ اور آزاد رہتی ہے۔
منحوس اموی شام میں
شام کے حالات کوفہ کے حالات کے مقابلہ میں زیادہ آشفتہ و پریشان کن تھے اس لئے کہ کوفہ ایک زمانہ میں امیر المومنین علیہ السلام کا دار الحکومت رہ چکا تھا۔ آپ کے بہت سے شیعہ اور دوستدار وہاں موجود تھے۔ انہوں نے علی علیہ السلام کی عدالت کو دیکھ رکھا تھا اور اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و مناقب سے آگاہ تھے لیکن شام میں تقریباً چالیس برسوں سے معاویہ کی دشمنانہ تبلیغات اور اموی کارندوں کے غلط پروپیگنڈوں کے زیر اثر تھی۔ اس نے نہ حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تھا اور نہ ہی حکومت علوی کو اور نہ ہی رسول اکرمﷺ کو دیکھا تھا اور نہ رسول خداﷺ کے انصار آزاد طریقے سے وہاں اسلام کی تبلیغ کر پاتے تھے۔ اسی لئے اہل شام کی اسلام اور حکومت اسلامی سے جو درک و فہم تھی وہ ایک سلطنت اور بادشاہی نظام والی تھی جس کا نمونہ انہوں نے روم اور ایران میں دیکھا یا سنا تھا اور معاویہ نے ویسی ہی حکومت، شام میں برپا کر رکھی تھی۔ اسی لئے منحوس اموی شام میں اہل حرم پر سب سے زیادہ سخت گذرا اور وہاں پر ایسے ایسے واقعات پیش آئے جو کہیں اور بہت کم پیش آئے۔ مثلاً جب اہل حرم شام میںد اخل ہوئے تو ایک غافل اور فریب خوردہ بوڑھا امام سجاد علیہ السلام کے قریب آیا اور آنحضرت سے کہنے لگا:
خدا کا شکر کہ اس نے تم لوگوں کو ہلاک کیا اور امیر کو تم پر مسلط کیا۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے عطوفت و مہربانی کی بنا پر اس کی نادانی اور غفلت پر اشک حسرت و اندوہ بہایا اور اس کی ہدایت و رہنمائی کی، اپنا تعارف کرایا، جب بوڑھے نے اپنی غلطی کو سمجھ لیا تو امام کے پیروں پر گر پڑا اور آپ کے قدموں کے بوسہ لے کر اظہار ندامت و توبہ کیا اور آپ کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کیا۔ البتہ اس کا یہ اظہار تولیٰ و تبریٰ یزید کے حکم سے اس سے شہید ہونے کا سبب بن گیا۔
(مقتل مقرم، ص۳۴۹)
ایسے برے حالات کے باوجود امام سجاد علیہ السلام نے اس وحشتناک شام میں یعنی بھیڑیوں کے منھ میں اور ان کے خونریز پنجوں میں خطبہ دینا شروع کیا اور ایسا خطبہ دیا جیسا رسول اکرمﷺ مدینہ میں یا حضرت علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے دار الحکومت (کوفہ) میں دیتے تھے یا امام حسین ابن علی علیہ السلام نے مدینہ میں مروان کو ڈانٹا تھاکہ کوئی چیز بھی آپ کو مرعوب اور خوفزدہ نہیں کر سکی۔
بزم طاغوت میں
اسرائے اہل حرم کا بزم یزید ملعون میں داخلہ اس طرح تھا کہ گویا شام کا طاغی و سرکش حاکم اہل حرم کو مزیدذلیل کرنا چاہتا تھا اور اپنے جاہ و جلال کے سامنے مغلوب و مقہور کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے کہ وہ ظاہری کامیابی پر مست و مغرور تخت پر براجمان تھا اور اشراف و خدام اس کے ارد گرد موجود تھے اوراس کے درباری بھی کافی سختی اور خوف و لرزے کے ساتھ ہمت کرتے تھے کہ یزید کو امیر المومنین کہہ کر خطاب کریں۔ ایسی حالت میں اہل حرم کو ایک رسی میں باندھا گیا جس کا ایک سرا امام سجاد علیہ السلام کی گردن میں تھا اور دوسرا سرا جناب زینب کبریٰﷺ کی گردن میں اور بقیہ اہل حرم اوربچے درمیان میں تھے جو پیچھے رہ جاتا اسے تازیانے مارتے اس طرح اہل حرم کو یزید کے سامنے لایا گیا۔
جیسے ہی امام سجاد علیہ السلام کی نظر یزید پر پڑی آپ نے فرمایا: اگر رسول خداﷺ نے ہمیں اس حالت میں دیکھ لیا تو تو کیا کرے گا؟ یہ سن کر حاضرین رونے لگے لہٰذا یزید نے حکم دیا کہ رسی کھول دی جائے۔
اس کے بعد یزید نے امام سجاد علیہ السلام کی طرف رخ کیا اور کہا: اپنے والد کے ساتھ خدا کے کام کو کیسا دیکھا؟
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: جو کچھ واقع ہوا وہ قضائے الٰہی تھی جو آسمان و زمین کی خلقت سے پہلے مقدر ہو چکی تھی۔
اس کے بعد یزید نے اپنے اطرافیون سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا کروں؟ اطرافیوں نے بڑی آسانی سے کہہ دیا کہ انہیں ابھی قتل کر دے۔امام محمد باقر علیہ السلام جن کی عمر مبارک اس وقت صرف چار سال تھی ، آگے بڑھے اور یزید کو مخاطب کر کے فرمایا: تیرے اطرافیوں نے فرعون کے اطرافیوں کے بر خلاف مشورہ دیا ہے۔اس لئے کہ جب فرعون نے اپنے اطرافیوں سے مشورہ کیا تھا کہ موسیٰ اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا کروں تو ان لوگوں نے کہا تھا کہ انہیں مہلت دی جائے، جبکہ تیرے اطرافیوں نے ہمارے قتل کا حکم دیا ہے اور اس کا بھی ایک سبب ہے۔
یزید نے پوچھا کہ اس کا کیا سبب ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ فرعون کے اطرافی تیرے اطرافیوں کے برخلاف عقلمند اور حلال زادہ تھے۔ وہ انبیاء اور اولیائے انبیاء کو نہیں مارتے تھے مگر اس بچہ کو جو حرام زادہ ہو اور ناجائز طریقہ سے پیدا ہوا ہو۔
یزید یہ سن کر فکر میں پڑ گیا اور آخرکار قتل کا حکم واپس لینے پر مجبور ہو گیا۔
اس کے بعد امام سجاد علیہ السلام اور یزید ملعون کے درمیان کچھ اورباتیں رد و بدل ہوئیں ۔ امام علیہ السلام نے نہایت شدت و قدرت کے ساتھ اس کی ساری باتوں کا منھ توڑ جواب دیا اور ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے۔
جب جناب زینب کبریٰﷺ کی باری آئی تو آپ نے بھی حماسہ و عرفان سے سرشار خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ ساری باتیں اس واقعیت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ صاحب معرفت خواتین بھی بامعرفت مردوں کی طرح اہل حماسہ ہوتی ہیں۔
ایک عمومی جشن جو دمشق کی جامع مسجد میں برپا ہوا تھا، اس میںیزید ملعون نے درباری خطیب کو حکم دے رکھا تھا کہ منبر پر جا کر امیر المومنین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام پر سب و شتم کرے اور ان حضرات کو برا بھلا کہے۔ اس اموی ،درباری اور یزید کے لقموں پر پلنے والے خطیب نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد یزید و معاویہ کی بہت مدح و ثنا کی۔ اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی، امام سجاد علیہ السلام کی حماسہ پرور اور بے قرار روح خاموش نہ رہی، لہٰذا آپ غرائے اوردرباری خطیب کو ڈانٹ کر فرمایا: اے خطیب! تجھ پر وائے ہو کہ تونے مخلوق کی خوشنودی کو خالق کی خوشنودی پر ترجیح دی ہے اور جہنم میں اپنے لئے بہت بڑا ٹھکانہ بنایا ہے۔
ایسے حالات میں امام سجاد علیہ السلام کا اس خطیب کو ڈاٹنا جب کہ آپ مصائب و مشکلات میں گھرے ہوئے تھے چاہے وہ عزیزوں کے فراق کا غم ہو یا پیاس، اسیری، ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑنا ہو یا شہر بہ شہر پھرایا جانا اور تماشائیوں کے ہجوم سے گذرنا ہو۔ آپ ان سارے مصائب کو برداشت کر چکے تھے اور ایسے خطرناک انجام جس کا احتمال و امکان پایا جاتا تھا وہ بھی یزید کو ڈانٹنا جو ظاہری قدرت و طاقت کو اکٹھا کئے بیٹھا تھا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
پُرجوش خطبہ
امام سجاد علیہ السلام نے اموی، درباری خطیب کو ڈانٹ کر خاموش کرانے کے بعد فرمایا:
مجھے لکڑیوں کے اس ڈھیر پر جانے دیا جائے تاکہ میں ایسی باتیں بیان کروں جس میں خدا کی رضا و خوشنودی اور سامعین کے لئے اجر و ثواب ہو۔
(آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے منبر پر جانے دیا جائے بلکہ آپ نے فرمایا کہ مجھے لکڑیوں کے اس ڈھیر پر جانے دیا جائے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جو چیز راہ توحید و ولایت میں کام نہ آئے وہ کوئی وقعت نہیں رکھتی اگر چہ اسے منبر کا نام ہی کیوں نہ دیا جائے اور اسے رسول خداﷺ سے منسوب کر دیا جائے جیسا کہ کعبہ بھی ایسا ہی ہے۔ عبد اللہ ابن زبیر نے امام حسین علیہ السلام اور امام سجاد علیہ السلام کی مدد نہیں کی اور کعبہ کے اندر پناہ لی۔ مروانیوں نے کوہ ابوقبیس پر منجنیق نصب کی اور پتھر اور آگ کے گولے برسا کر کعبہ کو ویران کیا اور ابن زبیر کو موت کے گھاٹ اتارا۔ وہی خدا جس نے ابابیل کا لشکر بھیج کر کعبہ کو ویران کرنے لئے ارادہ سے آنے والے ابرہہ کے ہاتھیوں کے لشکر کو نیست و نابود کر دیا، لیکن اسی خد انے عبد اللہ ابن زبیر والے واقعہ میں کوئی عذاب نہیں بھیجا اور خانۂ کعبہ کو ویرانی سے نہیں بچایا۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت علیہ السلام کی ولایت کے بغیر کعبہ بھی مٹھی بھرخاک ہے)
پہلے تو یزید نے اجازت نہیں دی لیکن چونکہ رائے عامہ حرکت میں آ گئی تھی لہٰذا یزید نے مجبور ہو کر امام علیہ السلام کو منبر پر جانے دیا۔ آپ نے وہاں پہونچ کر حمد و ثنائے الٰہی کے بعد ایک حماسی اور ولولہ خیز خطبہ ارشاد فرمایا۔پہلے آپ نے اجمالی طور پر اپنا تعارف کرایا اور فرمایا:
ہمیں علم، حلم، سخاوت، فصاحت، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا کی گئی ہے اور ہماری فضیلت یہ ہے کہ نبی مختار ہم میں سے ہیں۔ صدیق اکبر (حضرت علی علیہ السلام ) ہم میں سے ہیں۔ طیار ہم میں سے ہیں، شیر خدا اور شیر رسول خداﷺ(جناب حمزہ علیہ السلام ) ہم میں سے ہیں۔ اس امت کے رسولﷺ کے دو گلدستہ ہم میں سے ہیں۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا: اس مختصر تعارف کے ذریعہ جس نے مجھے پہچان لیا، پہچان لیا اور اگر کسی نے نہیں پہچانا اور ہمارے فضائل و کمالات سے واقف نہیں ہوا تو میں تفصیل سے اپنا تعارف کراتا ہوں۔
اس کے بعد آپ نے اپنے اور خاندان عصمت و طہارت کے فضائل و کمالات کو بیان فرمایا کہ: اَنَا ابنُ مَکَّۃَ وَ مِنیٰ وَ اَنَا ابنُ زَمزَم وَ الصَّفَا۔ میں فرزند مکہ و منیٰ ہوں، میں فرزند زمزم و صفا ہوں۔
اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ اس سال ہم منیٰ نہیں گئے ، وہاں پر رات نہیں گذاری اور قربانی پیش نہیں کی لیکن یاد رکھو کہ منیٰ ہمارا ہے۔ اس لئے کہ منیٰ مکہ و مدینہ کی طرح یہاں تک کہ خود کعبہ کی طرح مردہ تھا ہم نے کربلا جا کر ان سرزمینوں کو زندہ کر دیا اور جو بھی مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے وہ اس کی ہو جاتی ہے۔ کوئی گوسفند اور اونٹ کی قربانی پیش کرکے منیٰ کا مالک نہیں بن جاتا ہے اس لئے کہ منیٰ ان چیزوں سے زندہ نہیں ہوتا ہے۔ منیٰ باپ،بھائی، چچا، اصحاب و انصار کو قربان کرنے اور راہ خدا میں اسیر و جانبازی پیش کرنے سے زندہ ہوتا ہے اس لئے کہ ایسا ہی انسان ہوتاہے جو دوسروں کو درس شہادت دے سکتا ہے اس لئے کہ ہم منیٰ کے مالک و وارث ہیں۔ اسی طرح ہم صفا و مروہ اور زمزم و کعبہ کے بھی وارث ہیں اس لئے کہ ہم نے اپنے قیام کے ذریعہ کعبہ کو زندہ کیا ہے ، حج کو عزت دی ہے اور حج کی آبرو بچائی ہے ورنہ گوسفند ذبح کرنا، خانۂ کعبہ کے گرد طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا، بہت آسان کام ہے جو ہر کوئی انجام دے سکتا ہے جیسا کہ اسلام سے پہلے تاریخ جاہلیت میں بھی بہت پہلے سے کیا جا رہا تھا۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا: میں اس کا فرزند ہوں جسے براق پر سوار کیا گیا اور معراج پر لے جایا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جسے راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جسے جبرئیل سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں جو اس قدر نزدیک ہوا کہ گویا مقام قرب الٰہی سے دو کمان یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جس نے ملائکہ آسمان کو نماز پڑھائی، میں اس کا فرزند ہوں کہ خدائے جلیل جو کچھ چاہتا تھا اس پر وحی کرتا تھا۔
ان میں سے زیادہ ترجملات قرآن کریم سے ماخوذ ہیں۔ شام کے لوگ اگر چہ معاویہ، اس کے خاندان اور اموی طرفداروں کے پروپیگنڈوں کے تحت اثر تھے لیکن قرآن کوئی ایسی شے نہیں تھی کہ وہ اس سے بے خبر ہوتے بلکہ ان کی زبان نے عربی ہونے کے لحاظ سے وہ قرآن کی آیات و کلمات سے مانوس تھے لہٰذاوہ ان فضائل و کمالات کو سن کر تعجب میں پڑ گئے جسے امام علیہ السلام اپنی طرف نسبت دے رہے تھے۔ وہ آپس میں پوچھتے تھے کہ یہ قیدی جسے زنجیروں میں جکڑا گیا ہے، کون ہے؟ جو اتنے بڑے بڑے دعوے کر رہا ہے؟ لہٰذا امام سجاد علیہ السلام نے اپنا تعارف کرایا اور فرمایا: اَنَا ابنُ مُحمدٍ المُصطفیٰ اَنَا ابنُ عَلِیٍّ المُرتَضیٰ۔ میں محمد مصطفےﷺ کا فرزند ہوں۔ میں علی مرتضیٰ علیہ السلام کا بیٹا ہوں۔
اس کے بعد آپ نے امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب کو بیان فرمایا اور چونکہ منحوس اموی شام کی فضا جو حکومت کے حاسدانہ اور کینہ پرور پروپیگنڈوں کی بنا پر تاریک ہو گئی تھی وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلاف تھی لہٰذا امام سجاد علیہ السلام نے امیر المومنین علیہ السلام کے جو فضائل و مناقب بیان فرمائے وہ تعداد کے اعتبار سے رسول خداﷺ کے فضائل و کمالات سے چار گنا زیادہ ہیں۔(البتہ یہ حساب وکتاب فضائل کے عدد و تعداد کے اعتبار سے ہے کیفیت اور مرتبہ کے لحاظ سے نہیں۔ لہٰذا اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے کمالات، رسول خداﷺ سے زیادہ ہیں چونکہ ان میں بہت سے کمالات آنحضرت کی رسول خداﷺ سے ہمراہی و مصاحبت کی بنا پر ہیں)
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
اَنَا ابنُ فَاطِمَۃَ الزَّہرَاء، اَنَا ابنُ سَیِّدَۃِ النِّسَاء ۔ میں فاطمہ زہراﷺ کا بیٹا ہوں۔ عورتوں کی سردار کا نورِ نظر ہوں۔
یہ حماسی اور ولولہ انگیز خطبہ جو مورخین کے بیان کے مطابق امام سجاد علیہ السلام کے اَنَا، اَنَا کہنے سے جاری رہا وہ دم بدم اور مسلسل آتشی حملے کے مانند حکومت اموی کو نشانہ بنائے ہوئے تھا۔ اس خطبہ نے شام کے سیاسی حالات کو بدل کر رکھ دیا جو لوگ یزید اور بے وقعت و بے عزت اموی حکومت کی کامیابی کا جشن برپا کر رہے تھے انہیں خواب غفلت سے بیدار کردیا اور ان کی خوشی و مسرت محفل کو مجلس گریہ و زاری میں بدل دیا۔ یزید نے جب یہ محسوس کیا کہ کسی طرح کی بھی شورش اور فتنہ برپا ہو سکتا ہے لہٰذا موذن سے کہا کہ اذان کہے اور امام کے کلمہ کو قطع کر دے لیکن امام علیہ السلام نے اپنی درایت و تیز فہمی کی بنیاد پر اس اذان سے بھی خاندان عصمت و طہارت کے حق میں اور یزید و اموی شجرۂ خبیثہ کے خلاف استفادہ کیا۔
(مقتل خوارزمی، ج۲،ص۴۹)
فاتح نہائی(سرانجام کامیاب)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جب اسیران اہل حرم کربلا کے غمبار سفر سے مدینہ واپس آئے تو ابراہیم بن طلحہ ابن عبید اللہ جو استقبال کرنے والوں کے درمیان تھا، امام سجاد علیہ السلام سے سوال کرتا ہے: اس جنگ میں کون کامیاب ہوا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر جاننا چاہتا ہے کہ واقعاً کون کامیاب ہوا تو وقت نماز اذان و اقامت کہہ اور دیکھ کہ کس کا نام زبان پر آ رہا ہے؟
(بحار الانوار،ج۴۵،ص۱۷۷)
دوسرے لفظوں میں امام سجاد علیہ السلام نے اسے سمجھا دیا کہ ہم نبی اکرمﷺ کا نام زندہ کرنے گئے تھے اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے اس لئے کہ کچھ لوگ چاہ رہے تھے کہ بنی امیہ کے لوگوں کے نام انبیاء اور اولیاء کے اسمائے گرامی کی جگہ رکھ دیں۔ ہم نے راہ خدامیں اپنا سب کچھ دے کر، خون کا نذرانہ پیش کرکے اس فاجعہ کو روکا، بدلہ میں ہمارے نام تا ابد زندہ اور ہماری یادہمیشہ پائندہ رہے گی اور خدا ہمارے دشمنوں سے ہمارا انتقام لے لے گا لہٰذا ہمیں کوئی فکر نہیں ہے۔
ابراہیم بن طلحہ صدر اسلام کے مشہور صحابی طلحہ کا بیٹا تھا جوجنگ جمل میں اپنے ہم خیال (زبیر) کے ساتھ مارا گیا۔ وہ احتمالاً اس سوال کے ذریعہ یزید ملعون کی بات کو دہرانا چاہتا تھا کہ لَیتَ اَشیَاخِی بِبَدرٍ شَہِدُوا ۔۔ (کہ کاش میرے بدر کے بزرگان موجود ہوتے تو دیکھتے)
اور امام سجاد علیہ السلام کو زخم زبان لگانا چاہتا تھا۔ یہ کہ وہ محمل سے باہر نہیں آیا اور کوشش کر رہا تھا کہ اپنے آپ کو چھپائے رکھے، اس کا سبب ظاہراً یہ تھا کہ وہ ایک شناختہ اور جانا پہچانا آدمی تھا، نہیں چاہتا تھا کہ کوئی یہ سمجھے کہ یہ زخم زبان لگانے والا کون ہے۔
یہ بھی واضح سی بات ہے کہ بنی امیہ کی کامیابی بھی پسر طلحہ کے لئے فائدہ مند نہ تھی صرف بنی ہاشم کی شکست اس کے لئے مسرت بخش تھی لیکن امام سجاد علیہ السلام کے محکم و دندان شکن جواب نے اس کے منھ میں اس کی زبان کو خشک کر دیا۔ فَبُہِتَ الَّذِی کَفَرَ ۔ اور کافر مات و مبہوت رہ گیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .