۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
News ID: 371919
2 ستمبر 2021 - 17:59
مولانا علی عباس حمیدی

حوزہ/ آج کی جوان نسل کو کربلا کے اس جوان سجاد امام(ع) کی پیروی ہی کامیابی کی منزولوں تک پہنچاسکتی ہے۔

تحریر: مولانا علی عباس حمیدی

حوزہ نیوز ایجنسی واقعہ کربلا سن۶۰ھ میں رونما ہوا اور امام سید سجاد علیہ السّلام کی عمراس وقت ۲۲ سال کی تھی۔
کربلا کے سفر کی تیاری  میں آپ کے تفصیلی حالات تاریخ نے محفوظ نہ کئے بہت سے حقائق تاریخ کی کوتاہ دامنی اور کم نظری کا شکار ہو گئے ورنہ کربلا کے اس سورما ساونت نے یقیناً ہر گام پر معرکہ کربلا کے لئے بہت کچھ تیاری کی ہوگی۔  کربلا وہ درس تھا جسے علی کے گھر کے بچہ بچہ کو انعقاد نطفہ سے مسکن رحم کی ہر منزل پر اور شاید اذان و اقامت کے بعد پیدائش کے ابتدائی لمحات ہی میں سنادیا گیا ہو. اور خاص کر ان افراد کو جو اس واقعہ میں کلیدی کردار ادا کرتے جیسے حضرت زینب (س)  حضرت عباس (ع ) حضرت علی اکبر و اصغر(ع) مسلم  قاسم اور دیگر افراد کو, تو کیا امام سجاد کی لوریاں اس واقعہ سے نا آشنا ہونگی؟! 
جب امام حسین علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ہوا تو امام سید سجاد علیہ السّلام بھی ان کے ساتھ  تھے۔ 
اب یہ نہیں کہا جاسکتاکہ راستہ ہی میں یاکربلا پہنچنے کے بعد آپ کہاں بیمار ہوئے مگر دس محرم ۶۱ھ کوامام حسین علیہ السّلام کی شہادت کے موقع پر آپ اس قدر بیمار تھے کہ اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا اور یقین ہے کہ ساتویں سے پانی بند ہونے کے بعد پھر سیدسجاد علیہ السّلام کے لئے بھی پانی کاایک قطرہ ملنا ناممکن ہوگیاتھا . ایک ایسے بیمار کے لئے یہ تکلیف برداشت سے باہر تھی۔ عاشور کے دن کے اکثر حصے میں آپ غشی کے عالم میں رہے اسی لئے کربلا کے جہاد میں اس طرح شریک نہ ہو سکے جس طرح ان کے بھائی شریک ہوئے۔
قدرت کو سیّد سجاد کاامتحان دوسری طرح لینا تھا وہ حسین علیہ السّلام کے بعد لٹے ہوئے قیدیوں کے قافلہ کے سالار بننے والے تھے، ادھر امام حسین علیہ السّلام شہید ہوئے ادھر ظالم دشمنوں نے خیام اہل بیت کی طرف رخ کردیا اور لوٹنا شروع کردیا، اس وقت اہل حرم کااضطراب، خیام میں تہلکہ اور پھران ہی خیموں میں آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے! اس وقت سیّد سجاد علیہ السّلام کاکیا عالم تھا ، اس کے اظہار کے لئے کسی زبان یاقلم کو الفاظ ملنا غیر ممکن ہیں مگر کیا کہنا زین العابدین علیہ السّلام کی عبادت کا،کہ انہوں نے اس بیماری، اس مصیبت اور اس آفت میں بھی عبادت کی شان میں فرق نہ آنے دیا۔
 شاعر اسی احساس کو یوں ادا کرتا ہے:
  کربلا کے بعد بھی تم سید سجاد ہو
 دوسرا ہوتا تو کہہ دیتا خدا کوئی نہیں 
آپ نے گیارہویں محرم کی شب کو نماز فریضہ کے بعد سجدۂ معبود میں خاک پر سررکھ دیا اور پوری رات سجدۂ شکر میں گزار دی۔ سجدہ میں یہ کلمات زبان پر تھے:لاالٰہ الاَّ اللهُ حقّاًحقاً لاَالٰهَ الا اللہ ایماناً وَّصِدقًالاالہٰ الاّ الله تعبدًا و رقاً(یعنی کوئی معبود نھیں سوائے الله کے جو حق ہے یقیناً حق ہے، کوئی معبود نہیں سوائے ایک الله کے .ایمان اور سچائی کی روسے  کوئی معبود نہیں سوائے ایک الله کے . خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے،میں اسکی گواہی دیتا ہوں بندگی اور نیاز مندی کے ساتھ  ۔
گیارہ محرم کو  فوجِ دشمن کے سالار ابن سعد نے ا پنے کشتوں کوجمع کیااور ان پر نماز پڑھ کر دفن کیا مگر روح شریعت قبلہ دین اور مجسم اسلام امام حسین علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کواسی طرح بے گوروکفن زمین گرمِ کربلا پر دھوپ میں چھوڑدیا , یہ موقع سید سجاد علیہ السّلام کے لئے انتہائی تکلیف کا تھا، وہ اس مقتل سے گزر رہے تھے تو یہ حالت تھی کہ قریب تھا کہ روح جسم سے جدا ہوجائے۔ انہیں اس کا صدمہ تھا کہ وہ اپنے باپ اور دوسرے عزیزوں کو دفن نہ کرسکے وہ تو دشمنوں کے اسیر تھے اور کربلا سے کوفہ لے جائے جارہےتھے۔
 پھر کتنا دل کو بے چین کرنے والا تھا وہ منظر جب خاندانِ رسول کالُٹا ہوا قافلہ دربار ابنِ زیاد میں پہنچا، سید سجاد علیہ السّلام محسوس کررہے تھے کہ یہ وہی کوفہ ہے جہاں ایک وقت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام حاکم تھے اور زینب وامِ کلثوم شاہزادیاں۔ آج اسی کوفہ میں ظالم ابن زیاد تختِ حکومت پر بیٹھا ہے اور رسول کاخاندان مقیّد کھڑا ہے، سید سجاد علیہ السّلام انتہائی صدمہ اور تکلیف کے باوجود  بھی ایک کوهِ وقار بنے ہوئے خاموش کھڑے تھے، ابن زیاد نے اس خاموشی کو توڑا یہ پوچھ کر کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ امام علیہ السّلام نے جواب دیاکہ علی بن الحسین، وہ کہنے لگا:کیا الله نے علی ابن الحسین کو قتل نہیں کیا؟,, امام نے جواب دیا ۔» وہ میرے ایک بھائی علی تھے جنہیں لوگوں نے قتل کردیا.,, وہ سرکش جاہل کہنے لگا ''نہیں! بلکہ الله نے قتل کیا"
امام نے یہ آیت پڑھی کہ "اَللهُ يَتَوَفیّ الانفُسَ حِینَ مَوتِھَا" یعنی الله ہی موت کے وقت قبضِ روح کرتا ہے اور (مقررہ اجل کے وقت)  الله کاقبض روح کرنا یہ الگ بات ہے جو سب کے لئے ہے اور ظلم و زیادتی کی وجہ سے کسی کی جان لینا یہ ستم ہے اور اللہ کا اس سے تعلق نہیں ہے موت وحیات تو خدا ہی دیتا ہے مگر پنجہ ظلم و زیادتی کی گرفت کا ذمہ دار اپنی ستم ظریفی کی سزا ضرور پائے گا۔
یہاں آہنی زنجیروں میں جکڑے امام نے قضا و قدر کے بنیادی عقیدہ کی وضاحت قرآن کی روشنی میں فرمائی اور اپنے منصب کے فریضہ کو ادا فرمایا, ظالم طوق و سلاسل میں جسم امام کو جکڑ سکتا تھا مگر عزم امام تو آزاد تھا جو اپنے فولادی ہونے کا اعلان کررہا تھا.  حق والا حقائق پر پردہ نہیں پڑنے دیتا چاہئے حاکم ظلم کا دربار ہی کیوں نہ ہو۔
امام کے علمی جواب کو سن کر ابن زیاد کو غصہ آگیا اور کہنے لگا. تم میں اب بھی مجھ کو جواب دینے اور میری بات رد کرنے کی جراَت ہے؟!
وہ رعب کے داب میں لانا چاہتا تھا۔
غصہ میں آگ بگولہ ہوکر امام کے قتل کا حکم دیتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ حضرت زینب دوڑ کر اپنے بھتیجے سے لپٹ گئیں اور کہنے لگیں مجھ کو بھی اس کے ساتھ  قتل کیاجائے۔
امام سیّد سجاد علیہ السّلام نے فرمایا: پھوپھی رہنے دیجئے اور مجھے ابن زیاد کا جواب دینے دیجئے۔ ابن زیاد تو یہ سمجھا تھا کہ کربلا میں آل محمد کے بہتے ہوئے خون کودیکھ کرسیّد سجاد علیہ السّلام کے دل میں موت کاڈر سما گیا ہوگا اور وہ قتل کی دھمکی سے سہم جائیں گے! مگر بہادر حسین علیہ السّلام کے شجاع فرزند نے تیور بدل کر کہا:  ابن زیاد تو مجھے موت سے ڈراتا ہے؟ کیا ابھی تک تجھےنہیں معلوم کہ قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شہادت ہمارے لئے فضیلت ہے ۔ یہ وہ پر زور الفاظ تھے جنہوں نے ظالم کے سر کو جھکادیا،قتل کا حکم حاکم کی ذلت و رسوائی کا ثبوت بن گیا اور یوں فنا ہوگیا جیسے کسی نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
امام کے اس شجاعانہ اقدام سےثابت ہوگیا کہ حسین علیہ السّلام کی شہادت سے ان کی اولاد و اہل حرم پر کوئی خوف نہیں چھایا بلکہ قاتل  اس خاندان کے صبر واستقلال کو دیکھ کر خوفزدہ ہوچکے تھے۔
کوفہ کے بعد یہ قافلہ دمشق کی طرف روانہ ہوا جس دن دمشق میں داخلہ تھا اس دن وہاں کے بازارخاص اہتمام سے سجائے گئے تھے، تمام شہر میں آئینہ بندی کی گئی تھی اور لوگ آپس میں گلے مل رہے تھے۔ اس وقت حسین علیہ السّلام کے اہل حرم جو تکلیف محسوس کررہے تھے اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے، ایسے وقت انسان کے ہوش وحواس بجانہیں رہتے مگر وہ سید سجاد علیہ السّلام تھے جو ہر موقع پر ہدایت واصلاح اور حسینی مشن کی تبلیغ کرتے جاتے تھے، جس وقت یہ قافلہ بازارسے گزر رہا تھا اموی حکومت کے ایک ہوا خواہ نے حضرت سجاد سے طنزیہ پوچھا۔
 اے فرزندِ حسین  کس کی فتح ہوئی؟ آپ نے جواب میں فرمایا۔ تم کو اگر معلوم کرنا ہے کہ کس کی فتح ہوئی تو جب نماز کا وقت آئے اور اذان و اقامت کہی جائے اس وقت سمجھ لینا کہ کس کی فتح ہوئی! ۔ 
 ا سی طرح اس وقت جب یہ قافلہ مسجدِ دمشق کے دروازے پر پہنچا تو ایک بوڑھا سامنے آیا اور اس نے قیدیوں کودیکھ کر کھا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے تم کو تباہ و برباد کیا اور ملک کو تمہارے مردوں سے خالی اور پر امن بنایا اور خلیفہ وقت یزید کا تم پر غلبہ فرمایا. ان اسیروں کے قافلہ سالار حضرت سجاد علیہ السّلام سمجھ گئے کہ یہ ہم لوگوں سے واقف نہیں۔»
 فرمایا کہ اے شیخ کیا تم نے یہ آیت قرآن پڑھی ہے"قل لااسئلکم علیہ اجرالاالمودةفی القربیٰ "کہہ دو اے رسول! کہ میں سوائے اپنے اہلبیت کی محبت کے تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ بوڑھے نے کہا ہاں یہ آیت میں نے پڑھی ہے، فرمایا وہ رسول کے اہل بیت ہم ہی ہیں جن کی محبت تم پر فرض ہے۔ یوں ہی خمس والی آیت میں جو ذوی القربیٰ کالفظ ہے اور آیہ تطہیر میں اہلبیت کالفظ ہے یہ سب آپ نے اس کو یاد دلایا۔ بوڑھا یہ سن کر تھوڑی دیر حیرت سے خاموش رہا پھر بولا: خد اکی قسم تم لوگ وہی ہو ؟ سیّد سجاد علیہ السّلام نے فرمایا؛ ہاں قسم بخدا ہم وہی اہلبیت اور قرابتدار رسول ہیں۔ یہ سُن کر بوڑھا شیخ رونے لگا. عمامہ سر سے پھینک دیا۔ سر آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا، خداونداگواہ رہنا کہ میں آل محمدکے ہر دشمن سے بیزار ہوں، پھر امام علیہ السّلام سے عرض کیا، کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ فرمایا؛ اگر توبہ کرو تو قبول ہوگی اور ہمارے ساتھ  ہوگے۔ اس نے عرض کیا کہ میں اس جرم سے توبہ کرتا ہوں جو میں نے واقف نہ ہونے کی وجہ سے آپ   کی شان میں گستاخی کی۔
امام سجاد کے حالات کے مطالعہ سے یہ سمجھ میں آیا کہ امام سجاد (ع)  کربلا کے واقعہ کی وہ عظیم ہستی ہیں جو معارف کربلا کی مفسر بنی رہی۔
 ایک 23سالہ جوان جس کی اپنی اولاد اور قریبی سبھی رشتہ دار محترم پھوپھیاں, عزیز بہنیں اور چاچیاں, تائیاں  بھتیجیاں, بھانجیاں اس کےساتھ ساتھ مصیبتوں میں مبتلا اور دکھوں کے ہجوم میں ایسی پھسی ہوں  کہ جینے تک سے تنگ آگئی ہوں, ہر قدم ذلت کا سامنا ہو, مگر جوانی کی آبرو اور جوانوں کا امام و پیشوا اپنے ہر اقدام سے آج کے جوان کا درس زندگی بنارہا۔ 
 آپ نے چار قسم کے لوگوں کا سامنا کیا :
1-  باپ, بھائی,عزیزوں,اور با وفا ساتھیوں کے قاتلوں کا جو ان کے کٹے ہوئےسروں کو انکی آنکھوں کے سامنے پورے سفر کوفہ و شام میں آپ کے آگے توہین آمیز انداز میں گھمائے پھر رہے تھے۔
 2 - طعنہ و تشنیع کرنے والے معاند, ہٹّی, جاہل, منکر اور گمراہ و بے دین  سرداران لشکر حاکم تماشائی مرد و خواتین کا. 
 3 - نادان, انجان, اور واقعیت سے بے خبر عیسائی, مسلمان اور شیعہ مرد و خواتین کا۔
 4 - مسلمان دوستوں, شیعوں اور مجبور چاہنے والے مرد و خواتین کا۔
 آپ نے سب کو ان کے اعتبار سے اطمنان بخش رویہ سے ڈیل کیا اور ہر ایک کو اسی کے مناسب حال،حکمت عملی سے جواب دیا شقاوت کا جواب صبر و استقامت سے، نخوت و غرور کا جواب بردباری و متانت وسربلندی سے دھمکیوں کا جواب عزم و حوصلہ سے معمور قلب محکم  سے،  نادانی و جہل کا جواب قرآن کی علمی زبان سے ، محبتوں کا جواب مہربانی و قدردانی سے غرضکہ آج کی جوان نسل کو کربلا کے اس جوان سجاد امام(ع) کی پیروی ہی کامیابی کی منزلوں تک پہنچاسکتی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .