تحریر: حجۃ الاسلام فرمان علی سعیدی شگری
حوزہ نیوز ایجنسی। امام زین العابدین علیہ السلام ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے نزدیک سے کربلا کے دل سوز واقعے کا نظارہ کیا ہے۔ آپ(ع) اس واقعے کی ابتداء سے لے کر انتہاء تک تمام واقعات کے زندہ گواہ ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد خاندان عصمت و طہارت کی تمام تر ذمہ داریاں آپ کے کاندھے پر آگئی تھی اس حوالے سے آپ کی شخصیت اور کردار دوسرے افراد کی نسبت ممتاز اور منفرد ہے۔ دوسری طرف آپ علیہ السلام امام معصوم ہیں اور آپ کے گفتار اور کردار دوسروں کے لئے نمونہ عمل ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے اس مقالے میں کربلا کے بعد امام علیہ السلام نے کربلا کے شہداء کے حقیقی اہداف کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کو تاریخ کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
امام زین العابدین (ع) کی سوانح عمری:
ولادت:
آسماں ولایت کے چوتھے درخشان ستارے امام علی بن الحسین علیہ السلام کی پیدائش پانچ شعبان ~38ھ کو شہر مدینہ میں ہوئی۔(الفصول المہمہ/201)
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کے والد اور ایران کے باشاہ یزدگرد کی بیٹی آپ کی مادر گرامی ہیں۔(اصول کافی1/466، ارشاد شیخ مفید/253، اعیان الشیعہ 1/629۔)
آپ کی ولادت امیر المؤمنین علیہ السلام کی شہادت سے دو سال پہلے ہوئی تقریبا 23برس تک اپنے والد بزرگوار کے ساتھ رہے۔ (ارشاد شیخ مفید/253)
اخلاقی خصوصیات:
امام زین العابدین علیہ السلام انسانی اعلی صفات اور نفس کے کمالات کا مکمل نمونہ تھے، مکارم اخلاق اور ستم دیدہ فقراء کی دستگیری میں آپ کے مرتبے کا کوئی نہ تھا۔
امام(ع)کے اخلاقی نمونے:
1۔ آپ (ع) سے متعلق افراد میں سے ایک شخص نے لوگوں کے مجمع میں آپ کی شان میں ناروا کلمات کہے اور چلا گیا۔ امام چند لوگوں کے ساتھ اس کے گھر گۓ اور فرمایا تم لوگ ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہمارا بھی جواب سن لو۔
راستہ میں مندرجہ ذیل آیت، جس میں کچھ مؤمنین کے اوصاف عالی کا تذکرہ ہے، پڑھتے جاتے تھے " وہ لوگ جو اپنا غصہ پی کر لوگوں سے درگذر کرتے ہیں اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔"( آل عمران/134)
جب آدمی کے گھر کے دروازہ پر پہونچے اور امام علیہ السلام نے اس کو آواز دی تو وہ اس گمان میں اپنے کو لڑنے لۓ تیار کرکے باہر نکلا کہ امام علیہ السلام گذشتہ باتوں کا بدلہ لینے آۓ ہیں۔ حضرت سید سجاد علیہ السلام نے فرمایا: میرے بھائی! تو تھوڑی دیر پہلے میرے پاس آیا تھا اور تو نے کچھ باتیں کہی ہیں اگر وہ میرے اندر ہیں تو میں خدا سے بخشش کا طلبکار ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا سے میری دعا ہے کہ تو وہ تجھے معاف کردے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی غیر متوقع نرمی نے اس شخص کو شرمندہ کردیا وہ قریب آیا اور امام (ع) کی پیشانی کو بوسہ دیکر کہا :" میں نے جو باتیں کہیں وہ آپ میں نہیں تھیں اور میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا تھا میں اس کا زیادہ سزاوار ہوں۔" (ارشاد شیخ مفید/257،اعیان الشیعہ1/632)
2۔ زید بن اسامہ حالت احتضار میں بستر پر پڑے ہوۓ تھے سید سجاد علیہ السلام ان کی عیادت کے لۓ ان کے سرہانے تشریف لاۓ دیکھا کہ زید رور رہے آپ نے پوچھا کیوں رور رہے ہیں، انہوں نے کہا پندرہ ہزار دینار میرے اوپر قرض ہے اور میرا مال میرے قرض کے برابر نہیں ہے۔ امام (ع) نے فرمایا: مت روئیے ۔ آپ کے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ ہے۔" پھر جس طرح آپ نے فرمایا تھا اسی طرح ادا بھی کردیا۔( ارشاد شیخ مفید/259، مناقب4/163)
3۔ راتوں کو امام زین العابدین علیہ السلام مدینہ کے بے سہارا اور ضرورت مندوں میں اس طرح روٹیاں تقسیم کرتے تھے کہ پہچانے نہ جائیں اور ان لوگوں کی مالی امداد فرماتے تھے۔ جب آپ کا انتقال ہو گیا تب پتہ چلا کہ وہ نا معلوم شخصیت امام زین العابدین علیہ السلام کی تھی ۔ آپ کی وفات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ آپ ایک سو خاندانوں کا خرچ برداشت کرتے تھے اور ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کے گھر کا خرچ چلانے والا امام زین العابدین علیہ السلام ہیں۔ (تذکرہ الخواص ابن جوزی/184،اعیان الشیعہ 1/633،مناقب 4/153)
4۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :" میرے پدر بزرگوار نماز میں اس غلام کی طرح کھڑے ہوتے تھے جو اپنے عظیم باشادہ کے سامنے اپنے پیروں پر کھڑا رہتا ہے۔ خدا کے خوف سے لزرتے رہتے اور ان کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا اور نماز کو اس طرح ادا کرتے تھے کہ جیسے یہ ان کی آخری نماز ہو۔" (خصال شیخ صدوق مطبوعہ/517، مناقب 4/150)
امام سجاد علیہ السلام کی عظمت
آپ کی شخصیت اور عظمت ایسی تھی کہ دوست دشمن سبھی متاثر تھے۔
یزید ابن معاویہ نے واقعہ "حرہ" ( یہ واقعہ، سانحہ کربلا کے بعد یزید کی حکومت کے دوسرے سال پیش آیا اس میں یزید کے حکم سے سپاہ شام نے مدینہ پر حملہ کیا اور تین دن تک مسلمانوں کی جان، مال، عزت آبرو کو اپنے اوپر مباح سمجھتے رہے۔)
کے بعد حکم دیا کہ تمام اہل مدینہ غلام کے عنوان سے اس کی بیعت کریں اس حکم سے اگر کوئی مستثنی تھا تو وہ صرف امام علی بن الحسین علیہ السلام تھے"۔(اعیان الشیعہ1/636، بحار 46/138، الکامل فی التاریخ ابن اثیر 4/112-113)
ہشام بن عبد الملک – اموی خلیفہ – حج ادا کرنے لئے مکہ آیا تھا، طواف کے وقت لوگوں کا ہجوم ایسا تھا کہ وہ حجرہ اسود کا استلام نہ کرسکا، مجبورا ایک طرف بیٹھ گیا تاکہ بھیڑ کم ہوجاۓ۔ اسی وقت امام زين العابدین علیہ السلام مسجد الحرام میں داخل ہوۓ۔ اور طواف کرنے لگے لوگوں نے امام(ع) کے لۓ راستہ چھوڑ دیا۔ آپ نے بڑے آرام سے حجرہ اسود کو بوسہ دیا ہشام آپ کے بارے میں لوگوں کا احترام دیکھ کر بہت ناراض ہوا۔ شام کے رہنے والوں میں سے ایک شخص نے ہشام سے پوچھا کہ یہ کون تھے جن کو لوگ اتنی عظمت دے رہے تھے؟ ہشام نے اس خوف سے کہ کہیں اس کے ساتھ والے امام (ع) کے گرویدہ نہ ہوجائیں جواب دیا کہ :" میں ان کو نہیں پہچانتا"
حریت پسند مشہور شاعر فرزدق بے جھجک کھڑے ہوگۓ اور کہا " میں ان کو پہچانتا ہوں" اس کے بعد ایک طویل قصیدہ امام زين العابدین (ع) کی مدح و عظمت اور تعارف میں پڑھ ڈالا۔ اشعار اتنے مناسب اور ہشام کے لۓ ایسے طمانچہ تھے کہ اموی خلیفہ شّدت ناراضگی کی بنا پر ردّ عمل پر آمادہ ہوگیا۔ اس نے حکم دیا کہ فرزدق کو قید خانہ بھیج دیا جاۓ۔
امام(ع) جب اس واقعے سے مطلع ہوۓ تو آپ نے صلہ کے طور پر فرزدق کے پاس کچھ بھیجا فرزدق نے ان درہموں کو واپس کردیا اور کہلوا بھیجا کہ میں نے یہ اشعار خدا اور رسول خدا(ص) کی خاطر پڑھے تھے۔
امام علیہ السلام نے فرزدق کے خلوص نیت کی تصدیق کی اور دوسری بار پھر وہ درہم فرزدق کو بھیجے اور ان کو قسم دی کہ قبول کریں۔ فرزدق نے ان کو قبول لیا اور مسرور ہوگۓ۔ یہاں چند اشعار کا ترجمہ نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں"-
(1) " اے سوال کرنے والے تو نے مجھ سے جود و سخا کے مرکز کا پتہ پوچھا ہے، تو اس کا روشن جواب میرے پاس ہے۔"
(2) "یہ وہ ہے کہ مکہ کی سرزمین جس کے نقش قدم کو پہچانتی ہے، خانۂ کعبہ حرم خدا اور حرم سے باہر کی زمین پہچانتی ہے۔"
(3) "یہ اس کے فرزند ہیں جو بہترین خلائق ہے، یہ پرہیزگار، پاکیزہ، اور بلند حشم ہیں۔"
(4) "یہ وہ ہیں کہ پیغمبر گرامی" احمد(ص) " جن کے جد ہیں۔"
(5) "اگر رکن جان جاتا کہ اس کو بوسہ دینے کےلئے کون آرہا ہے تو وہ اپنے کو زمین پر گرا دیتا تاکہ اس کی خاک پا کو چوم لے۔"
(6) "ان بزرگوار کا نام " علی(ع)" ہے پیغمبر خدا(ص) ان کے جد ہیں ۔ ان کی روشنی سے امتوں کی رہنمائی ہوتی ہے۔"(امالی سید مرتضی1/66، اعیان الشیعہ 1/634، تذکرہ الخواص، بحار 46/127-125)
امام سجاد(ع) اور پیغام عاشوراء:
واقعۂ کربلا کے بعد امام حسین (ع) کے بیٹوں میں سے صرف آپ ہی زندہ بچے تھے۔ اپنے پدر عالیقدر کی شہادت کے بعد دسویں محرم ~61ھ کو آپ (ع) نے امامت و ولایت کا عہدہ سنبھالا اور شہادت کے دن تک، یزید بن معاویہ، معاویہ بن یزید، مروان بن حکم، عبد الملک بن مروان اور ولید بن عبد الملک جیسے زمامدارون حکومت کا زمانہ آپ (ع) نے دیکھا۔
آپ کی امامت کا دور اور معاشرہ میں حکومت کرنے والے اس زمانہ کے سیاسی حالات تمام ائمہ علیہم السلام کی زندگی میں پیش آنے والے حالات سے زيادہ دشوار اور حساس تھے۔ سیرت و روش پیغمبر(ص) سے انحراف، امام زين العابدین علیہ السلام کے زمانہ میں اپنے اوج پر تھا۔ اور اس کی شکل بالکل صاف نظر آتی تھی۔
امام زين العابدین علیہ السلام کی روش ان کی امامت کے زمانے میں دو حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔
الف) اسیری کا زمانہ
ب)اسیری کے بعد مدینہ کی زندگی
الف)کربلا کے جان سوز واقعہ میں امام زين العابدین علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ تھے۔ خدا کے لطف و کرم نے دشمن کے گزند سے محفوظ رکھا لیکن باپ کی شہادت کے بعد اسیر ہو گئے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کوفہ اور شام تشریف لے گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بیت امام حسین علیہ السلام کا اسیر ہونا آپ کے مقدس انقلاب کو کامیابی تک پہونچانے ميں بڑا مؤثر ثابت ہوا۔ چوتھے امام(ع) نے اسیری کے زمانہ ميں ہرگز تقیہ نہیں کیا اور کمال بردباری اور شہامت کے ساتھ تقریروں اور خطبوں میں واقعۂ کربلا کو لوگوں کے سامنے بیان فرمایا اور حق و حقیقت کا اظہار کرتے رہے۔ مناسب موقع پر خاندان رسالت کی عظمت کو لوگوں کے کانوں تک پہونچاتے رہے، اپنے پدر بزرگوار کی مظلومیت اور بنی امیہ کے ظلم و ستم اور بے رحمی کو لوگوں کے سامنے واضح کرتے رہے۔
امام زين العابدین علیہ السلام باوجودیکہ اپنے باپ کی شہادت کے وقت بیمار تھے، باپ،بھائی اور اصحاب کی شہادت پر دل شکستہ اور رنجیدہ بھی تھے لیکن پھر بھی یہ رنج و آلام آپ کے فرائض کی انجام دہی اور خون آلود انقلاب کربلا کے تحفظ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
آپ نے لوگوں کے افکار کو روشن کرنے کے لئے ہر مناسب موقع سے فائدہ حاصل کیا۔
آپ کوفہ میں:
اسیروں کا قافلہ کوفہ پہونچا- جب لوگ جناب زينب (ع) اور ان کی بہن فاطمہ صغری (ع) خطبوں سے پیشمان ہو کر رونے لگے تو امام زین العابدین علیہ السلام نے اشارہ کیا کہ مجمع خاموش ہوجاۓ پھر پروردگار کی حمد و ثنا اور پیغمبر پر درود کے بعد آپ (ع) نے فرمایا :
" اے لوگو! میں علی بن حسین ہوں، میں اس کا فرزند ہوں کہ جس کو فرات کے کنارے بغیر اس کے کہ انہوں نے کسی کا خون بہایا ہو یا کسی کا حق ان کی گردن پر ہو، ذبح کر دیا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا مال شہادت کے بعد لوٹ لیا گیا اور جس کے خاندان کو اسیر بنا کر یہاں لایا گیا ۔ لوگو! کیا تمہیں یاد ہے کہ تم نے میرے باپ کو خط لکھا ان کو کوفہ بلایا اور جب وہ تمہاری طرف آۓ تو تم نے ان کو قتل کردیا؟ قیامت کے دن پیغمبر(ص) کے سامنے کس منہ سے جاؤگے؟ جب وہ تم سے فرمائیں گے کہ " کیا تم نے میرے خاندان کو قتل کردیا اور میری حرمت کی رعایت نہیں کی لہذا تم میری امت میں سے نہیں ہو۔"( احتجاج طبرسی2/30،بحار 44/112)
حضرت امام زین العابدین(ع) کی تقریر نے طوفان کی طرح لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہر طرف سے گریہ و زاری کی آوازیں آنے لگیں، لوگ ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ تم ہلاک اور بدبخت ہوگۓ اور حالت یہ ہے کہ تم کو خود ہی نہیں معلوم۔
امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم کو ابن زیاد کے دربار میں لے جایا گیا اور جب ابن زیاد اور امام زين العابدین علیہ السلام کےدرمیاں گفتگو ہوئی تو آپ(ع) نے نہایت یقین و شجاعت کے ساتھ ہر موقع پر نہایت دندان شکن جواب دیا جس سے ابن زیاد ایسا غضب ناک ہوا کہ اس نے امام علیہ السلام کے قتل کا حکم دیدیا۔
اس موقع پر جناب زینب سلام اللہ علیہا نے اعتراض کیا اور فرمایا:" اگر تم نے علی بن الحسین (ع) کو قتل کرنا چاہتے ہو تو ان کےساتھ مجھے بھی قتل کر دو"۔ امام (ع) نے اپنی پھوپھی سے فرمایا: آپ کچھ نہ کہیں میں خود اس کا جواب دے رہا ہوں"۔ اس کے بعد آپ (ع) نے ابن زیاد کی طرف رخ کیا اور فرمایا:" اے زیاد کے بیٹے! کیا تم مجھے قتل کرنے کی دھمکی دے رہے ہو کیا تم یہ نہیں جانتے کہ قتل ہوجانا ہماری عادت اور شہادت ہماری کرامت ہے؟(لہوف سید ابن طاووس/144،مقتل خوارزمی 2/43)
امام زین العابدین علیہ السلام شام میں:
ایک ہی رسن میں اہل بیت (ع) کے چند دوسرے افراد کےساتھ امام (ع) کو بھی باندھا گیا تھا اسی حالت میں امام کو شام میں یزید کے دربار میں لے جایا گیا۔ امام (ع) نے نہایت شہامت اور دلیری کے ساتھ یزید سے خطاب فرمایا: اے یزید! اگر پیغمبر (ص) مجھ کو اس حالت میں رسن بستہ دیکھ لیں تو، تو ان کے بارے میں کیا خیال کرتا ہے (وہ کیا کہیں گے)
امام زين العابدین علیہ السلام کے اس چھوٹے سے جملہ نے حاضرین پر اتنا اثر کیا کہ سب رونے لگے۔(تذکرہ الخواص،149،اعیان الشیعہ 1/615،بحار 44/132)
امام (ع) نے جب یزید سے گفتگو کی تو ایک نشست میں اس نے قتل کی دھمکی دی۔ امام (ع) نے اس کے جواب میں فرمایا: اسیری سے آزاد ہونے والے بنی امیہ جیسے کبھی بھی قتل انبیاء و اوصیاء کا حکم نہیں دے سکتے مگر کہ اسلام سے خارج ہوجائیں اور اگر تم ایسا اراہ رکھتے ہو تو کسی صاحب اطمینان شخص کو میرے پاس بھیجو تاکہ میں اس سے وصیت کرتا کردوں اور اہل حرم کو اس کے سپرد کردوں۔ ( ذریعہ النجاۂ،234)
ایک دن شام کی جامع مسجد میں یزید نے ایک اہم نشست کا انتظام کیا اور خطیب سے کہا کہ منبر پر جا کر زين العابدین کے سامنے علی بن ابی طالب اور حسین بن علی کو برا بھلا کہے، اس کرایہ کے خطیب نے ایسا ہی کیا۔
امام زین العابدین علیہ السلام خفیہ کارگذاریوں میں نمایاں شاگردوں کی تربیت اور اسلامی معارف کی نشر و اشاعت کے ذریعہ اسلامی معاشرہ اور اموی حکومت کے سربرآوردہ افراد کے دلوں میں ایک مخصوص شکوہ و عظمت پیدا کر لی یہاں تک کہ ایک حج کے موقع پر جب آپ (ع) کا سامنا عبد الملک بن مروان سے ہوا تو نہ صرف یہ کہ آپ نے اس کو سلام نہیں کیا بلکہ اس کے چہرہ پر نظر بھی نہیں ڈالی عبد الملک اس بے اعتنائی پر ناراض ہوا۔ اس نے آہستہ سے امام (ع) کے ہاتھ کو پکڑا اور کہا:" اے ابو محمد! مجھے دیکھۓ میں عبد الملک ہوں نہ کہ آپ کے باپ کا قاتل یزید!" امام (ع) نے جواب دیا:" میرے باپ کے قاتل نے اپنے اقدام کے ذریعہ اپنی آخرت خراب کرلی اگر تو بھی میرے باپ کے قاتل کی طرح ہونا چاہتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔"
عبد الملک نے غصہ میں کہا :" میں ہرگز ایسا ہونا نہیں چاہتا لیکن مجھے اس بات کی امید ہے کہ آپ (ع) ہمارے وسائل سے بہرہ مند ہوں گے امام (ع) نے جواب میں فرمایا :" مجھ کو تمہاری دنیا کی اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ( بحار46/120)
دعائیں:
امام سجاد علیہ السلام کے مثبت مواقف میں ایک موقف اور بنیادی کوشش یہ تھی کہ آپ (ع) انفرادی اور اجتماعی- تربیت و عقائد سے متعلق مسائل کی نشر و اشاعت دعا کے پیرایہ میں کریں۔ جو آپ کی یادگار کے طور پر محفوظ رہ گئ ہیں۔
صحیفۂ سجادیہ:
صحیفۂ سجادیہ کے مضامین اور اس میں بیان کی گئی باتوں پر غور و فکر نے بہت سے مسائل کو ہمارے لئے روشن کردیا ہے، اسلامی معاشرہ بلکہ انسانی معاشرہ کو اس کتاب نے عالم کی معلومات خدا کی معرفت، انسان کی معرفت وغیرہ کے ایک سلسلہ کا تعارف کرایا ہے۔
ان حالات میں جب امام علیہ السلام کو بیان اور گفتگو کی آزادی میسر نہ تھی، آپ نے دعا اور مناجات کے ذریعہ اعتقادی اور اخلاقی دستور العمل اور اجتماعی زندگی کے لائیحہ عمل کو بیان کیا اور مسلمانوں کے درمیان اس کو منتشر کردیا۔
صحیفۂ سجادیہ کی عظمت سمجھنے کے لۓ مشہور مصری مفسر طنطاوی کا قول کافی ہے، وہ کہتے ہیں کہ " صحیفۂ سجادیہ وہ تنہا ذخیرہ نہیں ہے اور یہ مصر کے لوگوں کی بد نصیبی ہے کہ وہ ابھی تک اس گران بہا اور جاویدانہ باتوں سے واقف نہ تھے، میں اس میں جتنا بھی غور کرتا چلا جاتا ہوں اس کو مخلوق کے کلام سے بالاتر اور خالق کے کلام سے نیچے دیکھتا ہوں۔ ( خاتمہ ترجمہ صحیفۂ سجادیہ مطبوعہ آخوندی)
امام گوشہ نشینی اور محدودیت کے باوجود دعاؤں کے ذریعہ مسلمانوں کو قیام اور تحریک کا درس دیتے ہیں اور اپنے خدا سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ہوۓ فرماتے ہیں :
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اجْعَلْ لِي يَداً عَلَى مَنْ ظَلَمَنِي، وَ لِسَاناً عَلَى مَنْ خَاصَمَنِي، وَ ظَفَراً بِمَنْ عَانَدَنِي، وَ هَبْ لِي مَكْراً عَلَى مَنْ كَايَدَنِي.( الصحيفة السجادية ؛ النص ؛ ص94) " خدایا مجھ کو ایسی طاقت اور دست رسی عطا کر کہ جو لوگ مجھ پر ظلم کرتے ہیں میں ان پر کامیابی حاصل کروں اور ایسی زبان عنایت فرما کہ مقام احتجاج میں غلبہ حاصل کرسکوں، ایسی فکر اور سمجھ عطا فرما کہ دشمن کے حیلوں کو درہم برہم کردوں اور ظالم کے ہاتھ کو ظلم و تعدی سے روک دوں۔
شہادت:
امام زين العابدین علیہ السلام 57 سال تک رنج و مصیبت برداشت کرنے کے بعد ولید بن عبد الملک کے دور حکومت میں اس کے حکم سے جس نے اپنی خلافت و حکومت کا محور ظلم و جور و قتل اور گھٹن کے ماحول کو بنا رکھا تھا، مسموم ہو کر، 25محرم ~95ھ کو شہادت پائی اور قبرستان بقیع میں امام حسن مجتبی علیہ السلام کی قبر مطہر کے پہلو میں سپرد خاک کۓ گۓ۔( مصباح کفعمی509، کافی1/468، بحار46/152،تاریخ اسلام (3)، گروہ نگارش (ص117 ـ 125)
امام سجاد علیہ السلام نے بلند آواز سے فرمایا:" واۓ ہو تجھ پر اے خطیب تو نے خالق کی ناراضگی کے بدلے مخلوق (یزيد) کی خوشنودی خریدی اور اس طرح تم دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بنا رہے ہو۔ پھر یزید کی طرف سے مخاطب ہوۓ اور فرمایا " تو مجھے بھی اس لکڑی (منبر) پر جانے دے اور ایسی بات کہنے دے جس سے میں خدا کو خوش کردوں اور وہ حاضرین کے لۓ اجر و ثواب کا باعث ہے۔" یزید نے پہلے تو اجازت نہیں دی لیکن لوگوں کے اصرار کے جواب میں بولا کہ " اگر یہ منبر پر جائیں گے تو مجھکو اور خاندان ابوسفیان کو ذلیل کۓ بغیر منبر سے نیچے نہيں اتریں گے " لوگوں نے کہا کہ :" یہ کیا کرسکتے ہیں؟" یزيد نے کہا کہ " یہ وہ خاندان ہے جس میں علم و دانش کو بچپنے سے دودھ کے ساتھ پیا ہے۔" لوگوں نے بہت اصرار کیا تو یزید نے مجبورا اجازت دی، امام علیہ السلام منبر پر تشریف لے گے اور پیغمبر (ص) پر دورد و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا: " اے لوگو! خدا نے ہم کو علم، بردباری، سخاوت، فصاحت، دلیری اور مؤمنین کے دل میں ہماری دوستی عطا کی ہے ۔۔۔۔۔ پیغمبر (ص) ہم میں سے ہیں۔ اس امت کے صدیق حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہم میں سے ہیں، جعفر طیار ہم میں سے ہیں، حمزہ سید الشہداء ہم میں سے ہیں، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام پیغمبر (ص) کے دونوں نواسے ہم میں سے ہیں۔
میں فرزند مکہ و منی، فرزند زمزم و صفا ہوں، میں اس کا بیٹا ہوں جس نے حجر اسود کو عبا میں رکھ کر اٹھایا۔
میں اس بہترین خلائق شخص کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا، طواف و سعی کی، حج بجا لایا،میں خدیجہ الکبری کا بیٹا ہوں، میں فاطمۂ زہرا (ع) کا بیٹا ہوں، میں اس کا بیٹا ہوں جو اپنے خون میں غوطہ زن ہوا اور میں اس حسین (ع) کا بیٹا ہوں جس کو کربلا میں قتل کیا گیا۔"
لوگوں میں کھلبلی مچ گئ اور امام (ع) کی طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ ہر جملہ کے ساتھ پردہ اٹھاتے جا رہے تھے اور اموی گروہ کی کثيف ماہیت کو آشکار کرتے اور اپنے خاندان کی عظمت اور شہادت حسین کی زیادہ سے زیادہ قدر و قیمت لوگوں کے سامنے نمایاں کرتے جا رہے تھے، رفتہ رفتہ لوگوں کی آنکھیں آنسوں سے ڈبڈبا گیئں، گریہ گلو گیر ہو گیا۔ پھر یک بیک ہر گوشہ سے بے تابانہ رونے کی آواز بلند ہوئی۔ یزید کو ڈر لگنے لگا اور امام (ع) کی تقریر کو روکنے کے لۓ اس نے مؤذن کو اذان دینے کا حکم دیا، مؤذن جب " اشہد انّ محمدا رسول اللہ " پر پہونچا آپ نے عمامہ سر سے اتار لیا اور فرمایا:
" اے مؤذن! اسی محمد (ص) قسم کی ذرا ٹھر جا" پھر یزید کی طرف رخ کرکے فرمایا :" اے یزید! یہ رسول اکرم میرے جد ہیں یا تیرے؟ اگر تم کہو کہ تمہارے جد ہیں تو سب جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ میرے جد ہیں پھر ان کی عترت کو تم نے کیوں قتل کیا ان کے اموال کو کیوں تاراج کیا اور ان کے خاندان کو تم نے کیوں اسیر کر لیا؟
اے یزيد تو ان تمام افعال کے باوجود محمد (ص) کو پیغمبر خدا جانتا ہے اور قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوتا ہے، نماز پڑھتا ہے، واۓ ہو تجھ پر کہ میرے جد و پدر قیامت میں تیرا گریبان پکڑيں گے۔"
یزید نے مؤذن کو حکم دیا کہ نماز کے لۓ اقامت کہے، لیکن لوگ بہت ناراض تھے یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے نماز بھی نہیں پڑھی اور مسجد سے نکل گۓ۔( کامل بہائی2/302، بحار 45/137-139)
شام میں امام (ع) کی تقریریں اس بات کا باعث بنی کہ یزید قتل امام (ع) کا قصد رکھنے کے باوجود اس بات پر مجبور ہوا کہ آپ (ع) کو اور تمام اہل بیت کو مدینہ واپس کردے۔
روح مبارزہ کی بیداری:
اسیری کی تمام مدت میں امام زین العابدین علیہ السلام بہت سے لوگوں کے تصور کے برخلاف جو کہ آپ کو شکست خورہ سمجھتے تھے، ہر محفل و مجلس میں اپنی اور اپنے والد کی کامیابی اور بنی امیہ کی شکست کے بارے میں تقریر کرتے تھے۔
دوسری طرف آپ نے اس بات کی کوشش کی کہ تقریروں اور اپنے خاندان کی عظمتوں اور خصوصیتوں اور بنی امیہ کے ظلم وجور کے بیان کے ذریعے مسلمانوں کی انقلابی فکر کو برانگیختہ کریں، بنی امیہ سے نفرت کا احساس اور انجام پا جانے والے گناہوں پر ندامت کی ضرورت کو لوگوں کے ضمیر و وجدان میں زندہ کریں۔
ابھی زيادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اس مثبت رویت کی وجہ سے اموی سلطنت کے خلاف عراق و حجاز میں انقلاب کا پرچم بلند ہو گیا اور ہزاروں افراد خون حسین (ع) کا انتقام لینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوۓ۔
مدینہ واپسی کے بعد:
اسیری کے دن گزر جانے کے بعد امام سجاد (ع) مدینہ واپس آگئے اور معاشرے کی سیاسی صورتحال بھی بدل گئی۔ بنی امیہ کی حکومت اور سیاسی روش کے مقابل امام (ع) کا رویہ بھی بدلا۔
آپ (ع) کی امامت کا سارا زمانہ اس وقت کے ان بیدادگر حکمرانوں کے طرح طرح کے اجتماعی بحران و آشوب سے پر تھا جو مختلف بہانوں سے امام (ع) پر دباؤ ڈالنے اور ان کی فعّالیت کو محدود کرنے کی کوشش میں لگے ہوۓ تھے۔
زمانہ کے حالات سے واقفیت کے لۓ ان ظالموں کے جرائم کے چند گوشے ملاحظہ ہوں:
یزید کے مرتے ہی عبد اللہ بن زبیر جو برسوں سے خلافت و حکومت کی لالچ میں تھے، مکہ میں اٹھ کھڑے ہوۓ اور حجاز و یمن، عراق و خراسان کے لوگوں نے بھی ان کی بیعت کرلی، اور شام میں معاویہ بن يزيد کے ہٹ جانے کے بعد جو بہت تھوڑے دنوں مسند خلافت پر بیٹھا، مروان بن حکم مسند خلافت پر بیٹھا، سازش کے ذریعہ حکومت تک پہورنچا اور عبد اللہ بن زبیر کی مخالفت کے لۓ اٹھ کھڑا ہوا۔ شام کے بعد مصر پر اپنا قبضہ مضبوط کیا۔ لیکن اس کی حکومت زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہی اور تھوڑی ہی مدت میں مر گیا۔ اس کی جگہ اس کا بیٹا عبد الملک نے شام و مصر میں اپنی پوزیشن مضبوط ہوجانے کے بعد ~65ھ میں عبد اللہ بن زبیر کا مکہ محاصرہ کیا اور ان کو قتل کر دیا۔ (ابن اثير، الکامل فی التاریخ4/348-356)
عبد الملک بڑی سختی سے امام زين العابدین کی نگرانی کرتا تھا اور اس کوشش میں تھا کہ آپ کے خلاف کسی بھی طریقہ سے کوئی بہانہ ہاتھ آجاۓ تو وہ آپ پر سخت گیری کرے یا آپ کی توہین کرے۔
اس کو جب یہ اطلاع ملی کہ امام زین العابدین (ع) نے اپنی آزاد کردہ کنیز سے عقد کر لیا ہے تو اس نے ایک خط میں اس کام پر آپ کی شماطت کی۔ اس نے چاہا کہ اس طرح وہ حضرت کو یہ سمجھا دے کہ ہم آپ کے تمام امور حتی کہ داخلی اور ذاتی امور سے بھی با خبر ہیں۔ اور اس نے اپنی قرابت داری کو بھی یاد دلایا، تو امام (ع) نے جواب میں آئیں اسلام کو اس سلسلہ میں یاد دلاتے ہوۓ کہ مسلمان ہوجانا اور خدا پر ایمان لانا ہمیشہ دوسرے امتیازات کو ختم کر دیتا ہے، پوشیدہ طنز کے ساتھ اس کے آباد و اجداد کی گذشتہ جاہلی حالات پر سرزنش کی اور فرمایا:
فَلَا لُؤْمَ عَلَى الْمُسْلِمِ، إِنَّمَّا اللُّؤْمَ لُؤْمُ الْجَاهِلَيَّة.( كوفى اهوازى، حسين بن سعيد، زاهد كيست؟ وظيفه اش چيست؟ / ترجمه الزهد - قم، چاپ: اول، 1387 ش)
یعنی مسلمان ہونے میں کوئی پستی اور ذلت نہیں ہے بلکہ صرف جاہلیت کی فرمایگی ہے۔
~86 ھ میں عبد الملک کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا ولید اس کی جگہ پر بیٹھا۔ سیوطی کے مطابق وہ ایک ستمگر اور لاپرواہ شخص تھا دوسرے بنی امیہ کے زمامداروں کی طرح یہ بھی امام علیہ السلام کی شہرت اور محبوبیت سے خوف زدہ تھا اور آپ (ع) کی علمی اور روحانی شخصیت سے اس کو تکلیف تھی، اس وجہ سے وہ شیعوں کے چوتھے پیشوا کا وجود مسلمانوں کے معاشرہ میں برداشت نہیں کرسکتا تھا، اس نے دسیسہ کاری کے ساتھ آپ کو زہر دے دیا۔ ( مناقب ابن شہر آشوب4/176)
ایک طرف تو امام زين العابدین علیہ السلام اپنے زمانے کے ایسے ظالم اور جرائم کا ارتکاب کرنے والے بادشاہوں اور ان کی شدید نگرانیوں کو برداشت کر رہے تھے، دوسری طرف اپنے اطراف میں ایماندار جان نثاروں اور مجاہد دوستوں کا فقہدان محسوس کرتے تھے۔ لہذا آپ (ع) نے منفی مبارزہ شروع کیا۔ اپنے دروازہ کو دوسروں کے لۓ بند کر دیا، اس طرح آپ (ع) نے اپنی اور اپنے کچھ قابل اعتماد اصحاب کی جان بچالی اور اس محاذ پر صاحب امتیاز عناصر کی پرورش کی، صالح افراد کی تیاری اور بے امان مگر مخفی مبارزہ کی شیعی افکار کی تعلیم میں مشغول ہو گۓ تاکہ اس راستہ کے سلسلہ کو- جو بے شک منزل مقصود سے بہت قریب تھا- اپنے بعد کے امام کے سپرد کر دیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنی ایک حدیث امام چہارم کے حالات اور ان کے کردار ساز خدمات کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
" حسین بن علی (ع) کے بعد تمام لوگ راستہ سے پلٹ گۓ مگر تین افراد: ابو خالد کابلی، یحیی ابن ام طویل اور جبیر بن معطم، اس کے بعد دوسرے لوگ ان سے آن ملے اور شیعوں کا مجمع بڑھ کیا۔" یحیی بن ام طویل مدینہ میں مسجد پیغمبر (ص) میں آۓ اور تقریر میں لوگوں سے کہنے لگے: ہم تمہارے (راستہ اور آئیں کے ) مخالف ہیں اور ہمارے اور تہمارے درمیان دشمنی اور کینہ ہے ۔
( بحار46/144، الاختصاص64، رجال کشی81)
مکہ کے راستہ میں ایک شخص نے اعتراض کرتے ہوۓ امام سجاد علیہ السلام سے کہا کہ " آپ نے جہاد اور اس کی سختی کو چھوڑ دیا اور حج جو آسان ہے اس کے لۓ جا رہے ہیں؟ تو آپ (ع) نے فرمایا: اگر با ایمان مددگار اور جان نثار اصحاب ہوتے تو جہاد اور مبارزہ حج سے بہتر تھا۔ ( احجاج طبرسی2/44-45، اعیان الشیعہ 1/635)
اسی طرح امام زين العابدین علیہ السلام کا کام بے حد دشوار ہمت شکن اور دلیرانہ عمل کی بہ نسبت زيادہ شجاعت کا کام تھا اور آپ نہایت محدودیت کے عالم میں اس بات میں کامیاب ہو گۓ کہ ایک سو ستر ایسے نمایاں شاگروں کی تربیت کردیں جن میں سے ہر ایک اسلامی معاشرہ میں روشن چراغ تھا۔ جن افراد کے نام رجال کی کتابوں میں موجود ہیں ان میں سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، محمد بن جبیر، یحیی بن ام طویل، ابو خالد کابلی اور ابو حمزہ ثمالی جیسی شخصیتوں کے نام لئے جا سکتے ہیں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات و مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔