۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
حیدر آغا

حوزہ/ امام سجاد علیہ السلام نے زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود کوفہ و شام کے بازار و دربار میں خدا و رسولؐ اور اہلبیتؑ کی حقانیت کے بارے میں خطبہ دے کر باطل کے منصوبوں کو چکنا چور کردیا ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدیر حوزۃ المرتضیٰ ، ڈاکٹر مولانا سید نثار حسین ( حیدر آقا) نے امام سجاد علیہ السلام کے یوم شہادت پر عالم اسلام کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہوئے امام علیہ السلام کی زندگی کے بعض گوشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: امام چہارم حضرت علی بن الحسین زین العبادینؑ کے بارے میں کچھ بیان کرنا ایک دشوار کام ہے کیونکہ اِس امامؑ سے متعارف اور روشناس ہونے کے حالات لوگوں کے لئے نہایت ہی ناسازگار تھے اور آپؑ کے دور میں حالات نہایت ہی زیادہ پرآشوب اور خراب تھے اکثر سیرت نویسوں کے ذہن میں اس طرح تھے کہ آپؑ ایک گوشئہ تنہائی میں بیٹھے خدا کی عبادت کیا کرتے تھے اور کسی سے کوئی واسطہ و رابطہ نہیں تھا! جیسا کہ امامؑ کو دئے جانے والے القاب اور آپؑ کے بارے میں استعمال ہونے والی تعبیروں سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے مثلا آپؑ کو بیمار کربلا کہہ کر یاد کرنا حالانکہ آپؑ واقعہ عاشور کےوقت مصلحتِ خدا کی بناء پر وقتی طور پر بیمار تھے تاکہ اس وقت تلوار والا جہاد آپؑ سے ساقط ہوجائے اور شہادت مظلومِ کربلا کے بعد والے جہاد کے لئے خدا کی طرف سے تیار رہیں اور امامت کے اہم عہدے کو سنبھالیں ۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود کوفہ و شام کے بازار و دربار میں خدا و رسولؐ اور اہلبیتؑ کی حقانیت کے بارے میں خطبہ دے کر باطل کے منصوبوں کو چکنا چور کردیا ۔

انہوں نے کہا: روز عاشورہ ۶۱؁ھ کو مظلوم کربلا کی شہادت کے فورا بعد اللہ کی طرف سے آپؑ منصبِ امامت پر فائز ہوئے اور ۹۵؁ھ، یعنی ۳۵ برس تک کربلا کی یاد میں گریہ کرتے ہوئےحقیقی اسلام اور اہلبیتؑ کی حقانیت بیان کرتے رہے ۔ اس پوری مدت زندگی کا جب ہم مختصر طور پر جائزہ لیں گے تو سمجھیں گے کہ آپؑ کن مراحل سے گزرے ہیں اور اس دور کے پرآشوب حالات میں کن تدبیروں کو بروئے کار لاتے ہوئےلوگوں میں تبلیغ فرمائی ہے ۔ جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ آنسوں اور دعاوں کے درمیان معرفتِ خدا و معرفتِ رسولؐ و آلِ رسولؐ کا ایک خزانہ قیامت تک کے لئے دنیا والوں کے سامنے پیش کردیا ۔ جو آج بھی ہر پڑھے لکھے انسان کے سامنے صحیفہ سجادیہ اور انجیلِ اہلیبتؑ کے نام سے موجود ہے ۔

مدیر حوزۃ المرتضی ٰ نے مزید کہا: آپؑ کے دور میں حالات بہت زیادہ خراب تھے لہٰذا آپؑ دعا اور مناجات کے انداز میں خدا کی عظمت ، قدرت ، یکتائی اور اسکی مصلحتوں کی طرف خلقِ خدا کی رہنمائی فرماتے رہے ۔ صحیفہ سجادیہ جسےزبورِ آل محمدؐ بھی کہتے ہیں ، اس میں موجود دعاوں میں ایسے گرانبہا مطالب بیان ہوئے ہیں کہ قرآن مجید اور نہج البلاغہ کے بعد معارف الٰہی کا ایسا خزانہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتا یہاں تک کہ اس کی عظمتوں کو دیکھتے ہوئے تمام علماء نے اسے اُختُ القرآن ( قرآن کی بہن) بھی کہا ہے ۔ اس کی دعاوں میں خدا کی بارگاہ میں مناجات ، دعاء و طلبِ مغفرت ، اخلاق و حقوق کے ساتھ ساتھ مختلف علوم اور معارف بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان دعاوں میں عقائد ، سیاست ، طبیعت، فطرت اور احکام وغیرہ کو امامؑ نے بیان کردیا ہے ۔

صدر کل ہند شیعہ مجلس علماء و ذاکرین

صدر کل ہند شیعہ مجلس علماء و ذاکرین نے کہا: مرحوم آیت ۔۔ نجفی مرعشیؒ نے تفسیر طنطاوی لکھنے والےمفسر ( مفتی اسکندریہ ) جناب محمد سید طنطاوی کی خدمت میں صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ جامعۃ الازہر ، مصر بھیجا تھا تو انہوں نے اس گرانقدر ھدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب میں یہ لکھا کہ ’’ وَ مِنَ الْشِقَاءِ عَدَمُ مَعْرِفَتِیْ لِلصَّحِیْفَۃِ ۔۔۔ یعنی یہ ہماری بدنصیبی رہی کہ اب تک ایسی میراثِ نبوت اور قیمتی مطالب سے بھر پور مجموعے سے ہم لاعلم تھے اور میں اس میں جتنا بھی غور و فکر کرتا ہوں اسے مخلوق کے کلام سے افضل و برتر اور خالق کے کلام سے کچھ کم پاتا ہوں ‘‘ ( صحیفہ سجادیہ ، ترجمہ سید صدر الدین صدر بلاغی ، تہران ، دار الکتب الاسلامیہ ، مقدمہ ، ص ۳۷)۔

انہوں نے کہا: حیفہ سجادیہ کی دعاوں میں سے بیسویں دعا امامؑ کی مشہور دعاوں میں سے ایک ہے کیونکہ اس میں آپؑ نے خداوندکریم سے نیک اخلاق اور پسندیدہ اعمال کی انجام دہی اور برے اخلاق سے دوری کی درخواست کا طریقہ بیان کیا ہے ۔ اس دعا میں کی گئی دیگر درخواستوں میں افکار، رفتار اور کردار سے متعلق اخلاقی پہلو اور اسی طرح سے فردی و سماجی اخلاق کا بھی ذکر ہے ۔ امامؑ نے اس دعا میں انسان کی ترقی میں رکاوٹ اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی راہوں کی طرف رہنمائی فرمایا ہے ۔ اور اس دعا میں صلوات کی تکرار کرکے اس بات کو واضح فرمایا ہے کہ دعا کی قبولیت کا بہترین طریقہ محمد و آل محمدؐ پر صلوات پڑھنا ہے ، اس لئے کہ دعائیں کبھی قبول ہوجاتی ہیں اورکبھی علتوں اور مصلحتوں کے سبب قبول نہیں ہوتی لیکن صلوات وہ واحد دعا ہے جو ہمیشہ قبول ہوتی ہے اسی لئے اماموںؑ نے حدیثوں میں اس بات پر بہت تاکید فرمایا ہے کہ اپنی دعاوں کی شروعات صلوات اور اختتام صلوات پر کیا کریں ۔

انہوں نے مزید کہا: صحیفہ سجادیہ کی اس دعا کو اس میں موجود اخلاقی فضائل اور نیک اعمال جیسی انسان ساز تعلیمات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے دعائے مکارم الاخلاق کا نام دیا گیا ہے اور اس دعا کی تأثیر اتنی ہے کہ اگر کوئی دل سے ان اوصاف کو اپنائے اور اپنے رفتار،کردار اور گفتار میں ان کی رعایت کرے تو مدارج انسانیت کے اعلی درجے پر فائز ہو سکتا ہے ۔لہٰذا امامؑ نے جب اپنی عبادتوں کے ذریعے زین العابدینؑ کا لقب پایا اور خدا کی بارگاہ میں اپنے طویل سجدوں کے ذریعے سید الساجدینؑ کا لقب پایا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی دعاوں اور مناجات کے ذریعے مختلف علوم پر مشتمل ایک مجموعہ قیامت تک کے انسانوں کے درمیان پیش کیا تو ہم جو امامؑ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی امامؑ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنے سروں کو خدا کی بارگاہ میں سجدہ کے لئے جھکایں اور خدا کی عبادت سے دور نہ ہوں اس لئے کہ امامؑ عبادت گزاروں کی زینت ہیں اور

مولانا سید نثار حسین (حیدر آقا) نے کہا: اگر ہم امامؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئےخدا کی عبادت کرتے ہیں اس کامعنیٰ یہ ہے کہ ہماری محبت واقعا امامؑ کے لئے سچی ہے لیکن اگر ہم عبادتوں ، سجدوں اور دعاوں اور مناجات سے دور رہیں گے اور آپؑ کی سیرت اور نقشِ قدم سے دور رہتے ہوئے دعوائے محبت کریں تو شاید یہ دعویٰ قابل قبول نہ ہو! یعنی امامؑ کا چاہنے والا ہو لیکن نمازوں سے دور ہو! امامؑ کا چاہنے والا ہو لیکن سجدوں سے غافل ہو ! امامؑ کا چاہنے والا ہو لیکن صحیفہ کاملہ سے غافل ہو ! امامؑ کا چاہنے والا ہو لیکن سیرت امامؑ سے دور ہو!! ایسا نہیں ہونا چاہئے !! اسی لئے ہم اور آپ کے آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضاؑ فرماتے ہیں کہ : ’’ مَنْ کَانَ مِنَّا وَ لَمْ یُطِعِ اللهَ فَلَیْسَ مِنَّا‘‘ یعنی جو شخص ہم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہو اور وہ خدا کی اطاعت نہ کرتا ہو تو وہ ہمارا نہیں ہے۔اسی طرح چھٹے امام حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ : ’’ کونُوا لَنا زَیْناً وَ لا تَکونُوا عَلَیْنا شَیْناً ‘‘ یعنی ( اے میرے شیعو !) تم لوگ ہمارے لئے ( اپنے اعمال کے ذریعے) زینت کا سبب بنو، ہمارے لئے شرمندگی کا سبب نہ بنو ۔ !! لہٰذا ہم دعا کرتے ہیں کہ خداوندسبحان محمدؐ و آل محمدؐ کے صدقے ہم سب کو خدا و رسولؐ کی معرفت کے ساتھ نیک اعمال و اچھے کردار کا مالک بنائے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .