علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (38-95 ھ) امام سجادؑ اور زین العابدین کے نام سے مشہور، چوتھے امام اور امام حسینؑ کے فرزند ہیں۔ آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ امام سجادؑ واقعہ کربلا میں حاضر تھے لیکن بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لے سکے۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عمر بن سعد کے سپاہی آپ کو اسیران کربلا کے ساتھ کوفہ و شام لے گئے۔ کوفہ اور شام میں آپ کے دیئے گئے خطبات کے باعث لوگ اہل بیتؑ کے مقام و منزلت سے آگاہ ہوئے۔
واقعہ حرہ، تحریک توابین اور قیام مختار آپ کے دور امامت میں رونما ہوئے۔ امام سجادؑ کی دعاؤں اور مناجات کو صحیفہ سجادیہ میں جمع کیا گیا ہے۔ خدا اور خلق خدا کی نسبت انسان کی ذمہ داریوں سے متعلق کتاب، رسالۃ الحقوق بھی آپ سے منسوب ہے۔
شیعہ احادیث کے مطابق امام سجادؑ کو ولید بن عبد الملک کے حکم سے مسموم کرکے شہید کیا گیا۔ آپ امام حسن مجتبیؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے ساتھ قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔
حیات طیبہ
علی بن حسین بن علی بن ابیطالب، امام سجادؑ اور امام زینالعابدینؑ کے نام سے مشہور، شیعوں کے چوتھے امام اور امام حسینؑ کے فرزند ہیں۔ مشہور قول کی بنا پر آپ 38ھ میں متولد ہوئے۔لیکن دوسرے اقوال بھی ہیں جن کے مطابق آپ کی تاریخ ولادت 36ھ، 37ھ یا 48ھ ہے۔ آپ نے امام علیؑ کی حیات مبارکہ کا کچھ حصہ اور امام حسن مجتبیؑ اور امام حسینؑ کی امامت کو درک کیا ہے۔
امام زین العابدین کی والدۂ ماجدہ کے نام کے بارے میں اختلاف ہے؛ شیخ مفید آپ کا نام شہربانو بنت یزدگرد ابن شہریار بن کسریاور شیخ صدوق آپ کو ایران کے بادشاہ شہریار کے بیٹے یزدگرد کی بیٹی قرار دیتے ہیں جو آپ کی ولادت کے وقت فوت ہو گئے تھے۔
امام سجادؑ کی کنیت ابوالحسن، ابوالحسین، ابومحمّد،ابولقاسم اور ابوعبداللّہ ذکر کی گئی ہے اور آپ کے القاب میں زین العابدین، سیدالساجدین، سجاد، ذو الثفنات، ہاشمی، علوی، مدنی، قرشی، اور علیاکبر شامل ہیں۔ امام سجادؑ اپنے زمانے میں "علیالخیر"، "علیالاصغر" اور "علیالعابد" کے نام سے مشہور تھے۔
امام سجادؑ کی تاریخ شہادت کا دقیق علم نہیں؛ اس بنا پر بعض نے 95ھ اور بعض نے 94ھ ذکر کی ہیں۔ آپ کی شہادت کے دن کے بارے میں بھی اختلاف ہے؛ من جملہ بروز ہفتہ 12 محرم، یا 25 محرم کو آپ کی شہادت کا دن قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح 18 محرم، 19 محرم اور 22 محرم بھی بعض منابع میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔
معاصر سلاطین: یزید بن معاویہ (61- 64ہجری)،عبد اللہ بن زبیر (61-73ہجری)،معاویہ بن یزید،مروان بن حَکم،عبد الملک بن مروان (65- 86ہجری)،ولید بن عبد الملک (86- 96ہجری)۔
معاصر تحریکیں:
امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں اور کربلا کے واقعے کے بعد مختلف تحریکیں اٹھیں جن میں سے اہم ترین کچھ یوں ہیں:
واقعۂ حَرَہ
کربلا کا واقعہ رونما ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد مدینہ کے عوام نے اموی حکومت اور یزید بن معاویہ کے خلاف قیام کرکے حرہ کی تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی قیادت جنگ احد میں جام شہادت نوش کرنے والے حنظلہ غسیل الملائکہ کے بیٹے عبد اللہ بن حنظلہ کررہے تھے اور اس قیام کا نصب العین اموی سلطنت اور یزید بن معاویہ اور اس کی غیر دینی اور غیر اسلامی روش کی مخالفت اور اس کے خلاف جدوجہد، تھا۔ امام سجادؑ اور دوسرے ہاشمیوں کی رائے اس قیام سے سازگار نہ تھی چنانچہ امامؑ اپنے خاندان کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکل گئے۔ امام زین العابدینؑ کی نظر میں یہ قیام نہ صرف ایک شیعہ قیام نہ تھا بلکہ درحقیقت آل زبیر کی پالیسیوں سے مطابقت رکھتا تھا، اور آل زبیر کی قیادت اس وقت عبد اللہ بن زبیر کررہا تھا اور عبد اللہ بن زبیر وہ شخص تھا جس نے جنگ جمل کے اسباب فراہم کئے تھے۔ یہ قیام یزید کے بھجوائے گئے کمانڈر مسلم بن عقبہ نے کچل ڈالا جس نے اپنے مظالم کی بنا پر مسرف کا لقب کما لیا۔
توابین کا قیام
توابین کی تحریک واقعۂ کربلا کے بعد اٹھنے والی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی جس کی قیادت سلیمان بن صرد خزاعی سمیت شیعیان کوفہ کے چند سرکردہ بزرگ کررہے تھے۔ توابین کی تحریک کا نصب العین یہ تھا کہ بنو امیہ پر فتح پانے کی صورت میں مسلمانوں کی امامت و قیادت کو اہل بیتؑ کے سپرد کریں گے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل سے اس وقت علی بن الحسینؑ کے سوا کوئی بھی نہ تھا جس کو امامت مسلمین سونپی جاسکے۔ تاہم امام علی بن الحسینؑ اور توابین کے درمیان کوئی باقاعدہ سیاسی ربط و تعلق نہ تھا۔
مختار کا قیام
مختار بن ابی عبید ثقفی کا قیام، یزید اور امویوں کی حکمرانی کے خلاف واقعۂ عاشورا کے بعد تیسری بڑی تحریک کا نام ہے (جو واقعۂ حرہ اور قیام توابین کے بعد شروع ہوئی۔ اس تحریک کے امام سجادؑ کے ساتھ تعلق کے بارے میں بعض ابہامات پائے جاتے ہیں۔ یہ تعلق نہ صرف سیاسی تفکرات کے لحاظ سے بلکہ محمد بن حنفیہ کی پیروی کے حوالے سے، اعتقادی لحاظ سے بھی مبہم اور اس کے بارے میں کوئی یقینی موقف اپنانا مشکل ہے۔ روایت ہے کہ جب "مختار" نے کوفہ کے بعض شیعیان اہل بیتؑ کی حمایت حاصل کرنے کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ رابطہ کیا مگر امامؑ نے خیر مقدم نہیں کیا۔
اصحاب
ایک روایت کے ضمن میں منقول ہے کہ امام سجادؑ کو صرف چند افراد کی معیت حاصل تھی: سعید بن جبیر، سعید بن مسیب، محمد بن جبیر بن مطعم، یحیی بن ام طویل، ابو خالد کابلی.
شیخ طوسی، نے امام سجادؑ کے اصحاب کی مجموعی تعداد 173 بیان کی ہے۔
امام سجادؑ شیعیان اہل بیتؑ کی قلت کا شکوہ کرتے تھے اور فرماتے تھے مکہ اور مدینہ میں ہمارے حقیقی پیروکاروں کی تعداد 20 افراد سے بھی کم ہے۔
آثار اور کاوشیں
امام سجادؑ کی التجا بدرگاہ پروردگار: "اللهم اجعلني أهابهما هيبة السلطان العسوف، وأبرهما بر الام الرؤف، واجعل طاعتي لوالدي وبري بهما أقر لعيني من رقدة الوسنان، وأثلج لصدري من شربة الظمأن حتى أوثر على هواي هواهما، وأقدم على رضاي رضاهما، وأستكثر برهما بي وإن قل، وأستقل بري بهما وإن كثر"۔
بار پروردگارا! مجھے یوں قرار دے کہ والدین سے اس طرح ڈروں جس طرح کہ کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے حال پر شفیق ومہربان رہوں (جس طرح شفیق ماں ) اپنی اولاد پر شفقت کرتی ہے اوران کی فرما نبرداری اوران سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے، چشم خواب آلود میں نیند کے خمار سے زیادہ، کیف افزا اور میرے قلب و روح کے لئے، پیاسے شخص کے لئے ٹھنڈے پانی سے زیادہ، دل انگیز قرار دے؛ حتی کہ میں ان کی خواہش کو اپنی خواہشات پر فوقیت دوں اور ان کی خوشنودی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھوں اور جو احسان وہ مجھ پر کریں اس کو زیادہ سمجھوں خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کے ساتھ اپنی نیکی کو کم سمجھوں خواہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق امام سجادؑ کی کاوشوں میں سے ہیں۔
صحیفہ سجادیہ، امام سجادؑ کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ہے جو صحیفہ کاملہ، اخت القرآن، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے۔
رسالۃ الحقوق بھی امام سجاد علیہ السلام سے منسوب رسالہ ہے جو روایت مشہورہ کے مطابق 50 حقوں پر مشتمل ہے اور زندگی میں ان کو ملحوظ رکھنا ہر انسان پر لازم ہے۔ پڑوسیوں کا حق، دوست کا حق، قرآن کا حق، والدین کا حق اور اولاد کا حق، ان حقوں میں شامل ہیں۔
دعائے سریع الاجابہ
شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں جلدی سے قبول ہونے والی دعاؤں کے ضمن میں امام سجاد علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے لکھا ہے،شیخ کفعمی نے بلدالامین میں ایک دعا امام سجادعليہالسلام سے نقل کی اور کہا ہے کہ یہ دعا آنجناب عليہالسلام سے مقاتل بن سلمان نے روایت کی اورساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اس دعا کو سومرتبہ پڑھے اور اس کی دعا قبول نہ ہو تو مقاتل پر لعنت بھیجے اور وہ دعا یہ ہے :
إِلَهِی کَیْفَ أَدْعُوکَ وَ أَنَا أَنَا وَ کَیْفَ أَقْطَعُ رَجَائِی مِنْکَ وَ أَنْتَ أَنْتَ إِلَهِی إِذَا لَمْ أَسْأَلْکَ فَتُعْطِیَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی أَسْأَلُهُ فَیُعْطِینِی إِلَهِی إِذَا لَمْ أَدْعُکَ [أَدْعُوکَ] فَتَسْتَجِیبَ لِی فَمَنْ ذَا الَّذِی أَدْعُوهُ فَیَسْتَجِیبُ لِی إِلَهِی إِذَا لَمْ أَتَضَرَّعْ إِلَیْکَ فَتَرْحَمَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی أَتَضَرَّعُ إِلَیْهِ فَیَرْحَمُنِی إِلَهِی فَکَمَا فَلَقْتَ الْبَحْرَ لِمُوسَی عَلَیْهِ السَّلامُ وَ نَجَّیْتَهُ أَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تُنَجِّیَنِی مِمَّا أَنَا فِیهِ وَ تُفَرِّجَ عَنِّی فَرَجاً عَاجِلاً غَیْرَ آجِلٍ بِفَضْلِکَ وَ رَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ.
میرے معبود میں تجھے کیسے پکاروں اور میں تو میں ہوں اور کیونکر تجھ سے اپنی امید توڑوں جبکہ تو تو ہی ہے میرے معبود جب میں تجھ سے نہ مانگوں کہ تو مجھے عطا کرتا ہے اور کون ہے جس سے مانگوں تو وہ مجھے دے گا میرے معبود جب میں تجھ سے دعا نہ کروں تو میری دعا قبول فرماتا ہے اور کون ہے جس سے دعا کروں تو وہ میری دعاقبول کرے گا میرے معبود جب میں تیرے حضورزاری نہ کروں تب بھی تو مجھ پر رحم کرتا ہے اور کون ہے جس کے آگے زاری کروں تو وہ مجھ پر رحم کرے گا میرے معبود جیسے تونے دریا کو شگافتہ کیا موسیٰ عليہالسلام کے لیے اور انہیں نجات دی تھی تو میں بھی تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمدصلىاللهعليہوآلہوسلم د پر رحمت نازل فرما اور مجھے نجات دے اس مشکل سے جس میں گرفتار ہوں اور مجھے کشادگی عطا فرما جلدتر کہ اس میں دیر نہ ہو اپنے فضل سے اور اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔