۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا تطہیر زیدی

حوزہ/ معصومین ؑکا رونا رسمی نہ تھا بلکہ ان کا گریہ ہمیں شعور دلانے کے لئے تھا۔ لہذا آپ بھی رسمی نہ رویے بلکہ شعور والا گریہ کیجیے۔ رونے کو رسم نہ بناؤ ، رونا ہدف نہیں ہے بلکہ ہدف تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/جامع مسجد علی جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حجة الاسلام مولانا سید تطہیر حسین زیدی نے کہا ہے کہ قرآن کلیات جبکہ حدیث اور سیرت محمد و آل محمد اسلامی احکامات کی جزئیات کو سکھاتی ہے۔ صرف قرآن کافی نہیں، اسلام سمجھنے کے لئے سیرت نبوی کی پیروی بھی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں نماز کا ذکر ہے، مبطلات ، مکروہات اور مستحبات سیرت رسول سے ملتی ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں حج کا ذکر ہے، مگر مناسک حج سرور کائنات نے بتائے۔ ذکوٰة و خمس کا قرآن میں ذکر ہے مگر اس کا نصاب اور کن اشیا ءپر ہے، یہ سب سیرت معصومینؑ سے ملے گا۔

انہوں نے کہا قرآن کافی ہے کا نظریہ درست نہیں۔ اس نظریہ نے ہمیں رسول اکرم سے دور کر دیا ہے۔کیونکہ اگر ایسا ہے تو قرآن نے بارہا نماز کے ادا کرنے کا حکم دیا ہے تو آپ قرآن کے اندر اس کے مبطلات نماز دکھا دیجیے۔روزہ کا ذکر ہے تو اس کے مبطلات کتنے اور کونسے ہیں ،قرآن سے دکھائیے اور خمس اور زکوٰةکا نصاب کیا ہے قرآن میں کہاں لکھا ہے؟ وغیرہ پس یہاں سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کا تفصیلی ذکر قرآن مجید میں نہیں اور نہ ہی قرآن کافی ہے۔ لہٰذا قرآن کریم کے لئے ایک مفسر، شارح اور بیان کرنے والے کی ضرورت ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی لاریب کتاب سے صحیح طور پر استفادہ کرسکے۔ اور وہ قرآ ن کریم کے مفسر اور شارح رسول اللہ اور ان کی معصوم ذریت ہیں۔

مولانا تطہیر زیدی نے کہاماہ محرم ایام تربیت ہیں۔اس لئے کہ ہمارے تمام تر اعمال و عقائد جو مجالس کے اندر بیان کیے جاتے ہیں اگر وہ قرآن و حدیث کے مطابق ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جائیں گے۔کچھ لوگ ماہ محرم شروع ہوتے ہی ہمارے مذہب پر مختلف سوالات کیے جاتے ہیںکہ گریہ، ماتم، علم، تعزیہ اور ذوالجناح قرآن سے دکھاو ¿۔ اگر قرآن میں دکھاو ¿ گے توہم مان جائیں گے ورنہ یہ سب چیزیں بدعت ہیں۔اب رہی یہ بات شیعہ کا رونا سنت ہے یا بدعت تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم احادیث و تواریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حسین ؑ کی ولادت ہوئی تو انہیں رسول اللہ کی گود میں دیا گیاتو اس وقت رسول اللہ روئے تو جناب سیدہ فاطمة الزہرانے کہا: بابا! یہ خوشی کا موقع ہے اور آپ رو رہے ہیں۔جناب رسول خدا نے فرمایا: بیٹی! ابھی ابھی جبرائیل نے مجھے اطلاع دی ہے کہ تیرا یہ بیٹا تین دن کا بھوکا پیاسا کربلا کے چٹیل میدان میں شہید کر دیا جائے گا۔اب جب حسین ؑکے غم میں رسول اللہ رو رہے ہیں تو رونا بدعت تو نہیں ہو جائے گا بلکہ یہ رونا سنت رسول ہے۔امام سجاد ؑ واقعہ کربلا کے بعد جب بازار میں جاتے تو لوگ جانوروں کو ذبح نہیں کرتے تھے۔ جب آپ ؑ دیکھتے کہ کوئی شخص جانور کو ذبح کرنے لگا ہے تو رک کر ان سے پوچھتے کہ بتایے تم نے اس جانور کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلایا تھا۔ وہ کہتا : فرزند رسول ہم آپ کے جد نامدار کا کلمہ پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جانور کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلانا چاہیے اور ہم نے پانی پلایا ہے۔ اس وقت سید سجاد ؑ کربلا کی طرف رخ کر کے گریہ کرتے ہوئے کہتا۔ اے میرے مظلوم بابا ! مدینہ کے لوگ تو جانوروں کو پانی پلا کر ذبح کرتے ہیں لیکن آپ کو بھوکے پیاسے شہید کر دیا گیا۔

معصومین ؑکا رونا رسمی نہ تھا بلکہ ان کا گریہ ہمیں شعور دلانے کے لئے تھا۔ لہذا آپ بھی رسمی نہ رویے بلکہ شعور والا گریہ کیجیے۔ رونے کو رسم نہ بناؤ ، رونا ہدف نہیں ہے بلکہ ہدف تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے۔رہی یہ بات کہ ماتم کیا ہے۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کرنا اور اسے احتجاجی صورت دینا ماتم ہے۔ واقعہ کربلا ایک حادثہ نہیں ہے بلکہ ایک واقعہ ہے۔ فرق ہے حادثہ اور واقعہ میں۔ حادثہ بغیر منصوبہ بندی کے اچانک وقوع پذیر ہو جاتا ہے جبکہ واقعہ میں منصوبہ بندی ہوتی ہے جیسے قصص قرآنی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .