۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
علی ہاشم

حوزہ/ شہادت امام سجاد علیہ السلام کی تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہوئے اپنے محترم قارئین کے لئے امام علیہ السلام کے چار واقعات پیش خدمت ہیں۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی|

حجاج کی خدمت

خانہ خدا کعبۃ اللہ کی زیارت کے لئے فرزندان توحید کا قافلہ مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوا تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ پہنچا، مدینہ طیبہ میں چند روز قیام کے بعد مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہو گیا۔

راہ میں جب قافلہ ایک منزل پر رکا تو ایک آشنا شخص قافلے سے ملحق ہوا، دوران گفتگو کیا دیکھا کہ ایک نیک اور صالح انسان لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے جسے وہ پہچان گیا۔

قافلے والوں سے پوچھا جانتے ہو یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں کی اتنی خدمت کر رہا ہے تو قافلے والوں نے کہا ہم نہیں جانتے کہ یہ شخص کون ہے، یہ شخص مدینہ منورہ سے ہم لوگوں کا شریک سفر ہو گیا تو اس نے جواب دیا کہ ہاں اگر جانتے ہوتے تو ایسی جسارت نہ کرتے۔ یہ سننا تھا کہ قافلے والے بے چین ہوگئے اور پوچھا تو یہ شخص ہے کون؟

جواب دیا کہ یہ حضرت زین العابدین امام علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام ہیں۔

یہ سننا تھا کہ سب لوگ گھبرا کر امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور گلہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ کہیں خدا نخواستہ ہم سے کوئی گستاخی ہو جاتی اور ہم گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو جاتے تو امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: چونکہ تم لوگ مجھے نہیں پہچانتے تھے لہذا میں عمدا تمہارے قافلے میں شریک ہوا۔ کیوں کہ جو لوگ مجھے پہچانتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نسبت کے سبب ہمیں کوئی کام کرنے نہیں دیتے۔ جب کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے رفقائے سفر کی خدمت کروں۔

(بحارالانوار، جلد ۱۱، صفحہ، ۲۱)

شادی کا معیار

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ کے والد ماجد حضرت امام زین العابدین علیہ السلام زیارت خانہ خدا کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے ۔ وہاں ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والی مومنہ خاتون سے رشتہ بھیجا اور اس مومنہ سے شادی بھی کر لی۔

جب اس شادی کی خبر آپ کے ایک ساتھی کو ہوئی تو اسے بہت تعجب ہوا اور اس نے جستجو کی کہ آخر یہ خاتون کون ہے تو پتہ چلا کہ وہ خاتون ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جس کے پاس نہ دولت ہے اور نہ ہی شہرت اور نہ ہی کوئی سماجی حیثیت ۔ لہذا وہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فرزند رسولؐ! یہ آپؑ نے کیا کیا؟ کیوں ایک ایسے گھرانے میں شادی کی کہ جن کے پاس نہ دولت ہے اور نہ ہی شہرت اور لوگ بھی آپؑ کے اس اقدام سے حیرت زدہ ہیں؟

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: مجھے گمان تھا کہ تم نیک خیالات اور نیک سیرت انسان ہو۔ خدا وند عالم نے ایسے پست افکار اور معیار کو باطل قرار دیا ہے۔ ایسی تنقید اور افکارو نظریات کی مذمت کی ہے۔

زوجہ کے انتخاب میں جو باتیں اہم ہیں وہ ایمان، تقویٰ، پاکدامنی، کردار اور قناعت ہے۔ آج جو لوگ ایسی فکر کرتے ہیں اور ایسے معیار قائم کرتے ہیں وہ دورجاہلیت کے افکار و خیالات ہیں جنکی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

(کتاب زہد حسين بن سعيد کوفی اہوازی صفحہ ۵۹)

اللہ کو نیند نہیں آتی

شیخ الطائفہ شیخ طوسیؒ نے نقل کیا کہ امام زین العابدین علیہ السلام فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ تشریف لے جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک بیابان میں رہزنوں نے قافلے پر حملہ کر دیا۔

امام سجاد علیہ السلام نے ایک رہزن سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ آپؑ کو قتل کر کے آپ ؑ کے اموال کولوٹنا چاہتا ہوں۔

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: ہم اپنے مال کو اپنے اور تمہارے درمیان تقسیم کر لیتے ہیں ، آدھا تم لوگ لے لو اور آدھا ہم لے لیں۔ جس پر وہ راضی نہیں ہوا تو امامؑ نے فرمایا: پھر ہم اپنی ضرورت کا سامان لے لیتے ہیں اور باقی تم لوگ لے لو۔ تو وہ لوگ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے پوچھا تمہارا خدا کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ سو رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ آپؑ نے اپنی زبان پر کچھ کلمات جاری کئے کہ اچانک دو شیر بر آمد ہوئے ایک نے اس رہزن کا سر پکڑا اور دوسرے نے پیر ۔

امام سجاد علیہ السلام یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ تم یہ سوچ رہے تھےکہ خدا غافل ہے اور وہ سو رہا ہے۔

(امالی شیخ طوسیؒ، صفحہ ۶۰۵)

جناب مختار رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے دعا

کربلا کے دلخراش سانحہ کے بعد جناب مختار رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے قیام کیا تا کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کو واصل جہنم کر سکیں ۔ ان کے لشکر کے کمانڈر جناب ابراہیم بن مالک اشترؑ نے عبیداللہ بن زیاد ملعون کو گرفتار کر کے قتل کیا اور اس ملعون کا سر جناب مختار ؒ کی خدمت میں بھیج دیا۔ جسے جناب مختار ؒ نے مدینہ منورہ میں امام زین العابدین علیہ السلام اور جناب محمد حنفیہ رضوان اللہ تعالیٰ کے پاس بھیج دیا۔

امام زین العابدین علیہ السلام دسترخوان پر تشریف فرما تھے کہ عبیداللہ بن زیاد ملعون کا سر آپؑ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ جسے دیکھتے ہی امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: جب ہمیں اسیر کر کے اس ملعون عبیداللہ بن زیاد کے دربار میں حاضر کیا گیا تو اس وقت یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا تھا اور میرے بابا کا سر مبارک اس کے سامنے تھا۔ میں نے اسی وقت دعا کی تھی کہ خدایا! مجھے دنیا سے جانے سے پہلے اس ملعون کا کٹا ہوا سر دکھا دے۔ خدا کا شکر کہ اس نے میری دعا کو قبول کر لی۔

اسکے بعد ملعون کے سر کو وہاں سے دور کرا دیا اور اپنے سر کو سجدہ معبود میں رکھ دیا اور فرمایا: حمد ہے اس خدا کی جس نے میری دعا کو قبول کیا اور ہمارے خون ناحق کا دشمن سے بدلہ لیا۔ نیز فرمایا: خدا وند عالم مختارؒ کو بہترین انعام اور جزائے خیر عطا فرمائے۔

(اعیان الشیعہ، جلد۱، صفحہ ۶۳۶)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .