حوزہ نیوز ایجنسی | آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے اپنے ایک تحریری بیان بعنوان «فاتح نهایی» (حقیقی فاتح) میں امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جب امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ واقعۂ عاشورا کا فاتح کون تھا؟ تو آپ نے فرمایا: ہم اس نکلے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کو زندہ کریں اور ہم اس مقصد میں کامیاب ہوئے۔ دشمن چاہتا تھا کہ انبیاء و اولیاء کے نام کی جگہ امویوں کا نام باقی رہے، لیکن ہم نے اپنی ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کر دی اور اپنے خون کے نذرانے سے اس عظیم سانحے کو روک دیا۔
انہوں نے مزید فرمایا: جب اسیران کربلا کا قافلہ مدینہ واپس پہنچا تو استقبال کرنے والوں میں ابراہیم بن طلحہ بن عبیداللہ بھی موجود تھا۔ اس نے امام سجاد علیہ السلام سے سوال کیا: اس جنگ میں کون کامیاب ہوا؟
امام سجاد علیہ السلام نے نہایت گہرے اور بلیغ جواب میں فرمایا: اگر تم حقیقی فاتح کو پہچاننا چاہتے ہو تو نماز کے وقت اذان و اقامت کہو اور دیکھو کہ تمہاری زبان پر کس کا نام آتا ہے۔
حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: امام سجاد علیہ السلام نے در حقیقت اسے یہ سمجھا دیا کہ ہم نے اس لئے قیام کیا تھا تا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام باقی رہے اور الحمدللہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ چونکہ کچھ لوگ چاہتے تھے کہ امویوں کا نام انبیاء و اولیاء کے مقدس ناموں کی جگہ لے لے، لہٰذا ہم نے سب کچھ قربان کر دیا اور اپنے خون سے اس فاجعے کو روک دیا۔ اب ہمارا نام اور یاد قیامت تک باقی رہے گی اور ہمارا انتقام بھی ہمارے دشمنوں سے لیا جائے گا۔ اس لیے ہمیں کوئی پریشانی یا اندیشہ نہیں۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ابراہیم بن طلحہ، اسلام کے ابتدائی دور کی معروف شخصیت طلحہ کا بیٹا تھا جو جنگ جمل میں اپنے ہم فکر زبیر کے ہمراہ مارا گیا تھا۔ وہ شاید اس سوال کے ذریعے یزید ملعون کے اس جملے کو دہرانا چاہتا تھا: «کاش میرے بدر کے بزرگ یہ منظر دیکھتے...» تاکہ امام سجاد علیہ السلام کی دل آزاری کرے۔
یہ شخص خود کو پردے میں رکھنا چاہتا تھا تاکہ لوگ اسے پہچان نہ لیں کیونکہ وہ ایک معروف شخصیت تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ اس کی زہر آلود زبان کی حقیقت سب پر ظاہر ہو جائے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے کہا: امویوں کی بظاہر فتح کا اس کے لیے کوئی فائدہ نہ تھا، وہ صرف بنی ہاشم کی شکست پر خوش تھا۔ لیکن امام سجاد علیہ السلام کا قاطع اور محکم جواب اس کے لیے ایسا تھا کہ گویا اس کا دم نکل گیا اور وہ لاجواب رہ گیا:
«فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ» (جیسے قرآن کہتا ہے: کافر لاجواب رہ گیا)۔
بحار الانوار، جلد 45، صفحہ 177۔
کتاب «حماسه و عرفان» صفحات 334، 335)









آپ کا تبصرہ