تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
زندگی ایک حسیں خواب ہے تعبیر حسینؑ
زندگی ایک عملٍ خیر تو تقدیر حسینؑ
زندگی قاتلٍ ظلمات تو تنویر حسینؑ
زندگی جادہٍ توحید تو تکبر حسینؑ
حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے عزیز و اقرباء کے ہمراہ 28 رجب المرجب سن 60 ہجری کو مدینہ سے کربلا کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے سے قبل اپنے نانا، والدہ ماجدہ اور بھائی امام حسن کی قبر اقدس سے گریہ اور اشکبار ہو کر رخصت ہوئے۔ ایسی رخصتی جس سے دل شکستہ ہے۔ سفر پر روانہ ہونے پر پہلے باغی گروہ کا بانی و سردار، معاویہ لعنت اللہ اور پھر اس کے بعد اس کی اولاد اور جانشین، یزید لعنت اللہ نے مجبور کیا کیونکہ پہلے تو مدینہ میں مروان و ولید کے ذریعے قتل کروانے حکم دیا۔ اس کے بعد حج کے دوران بھی حاجیوں کے لباس میں قتل کروانا چاہا لیکن اپنے ہدف اور سازش میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
امام حسین علیہ السلام نے مسلمانوں کی کرامت و شرافت کو پلٹانے، ان کو امویوں کے ظلم و ستم سے نجات دینے کے لیے یزید کے خلاف ایک بہت بڑا انقلاب برپا کیا، آپ نے اپنے اغراض و مقاصد کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
اٍنٍّی لَم اَخرج۔۔۔۔"میں سرکشی و سرپیچی، طغیان، کفران اور ظلم و فساد کے لیے نہیں نکلا میں اپنے نانا کی امت میں اصلاح کے لیے نکلا ہوں، میں امر با لمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں، میں اپنے نانا اور بابا کی روش پر چلنا چاہتا ہوں۔"
مندرجہ بالا تحریر سے امام حسین علیہ السلام کے انقلابی تحریک و سفر کے مقاصد ہیں جسے سفر کا منشور بھی کہا جاسکتا ہے، اخذ کریں 'نانا کی امت میں اصلاح کے لیے نکلا ہوں'، 'امربالمعروف اور نہی عن المنکر چاہتا ہوں، اور 'نانا اور بابا کی روش پر چلنا چاہتا ہوں، سفر امام حسینؑ کی تحریک، انقلاب، سفر، پیغام، قربانی اور انکار بیعت جگ ظاہر ہے۔ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ 1384 سال بعد بھی امام حسین علیہ السلام کی قربانی، سفر، پیغام اور مقصد آپؑ کے قیام تحریک و انقلاب کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ ایک اور سوال ذہن میں کچوچے مارتا ہے کہ آخر کس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو امربالمعروف و نہی عن المنکر کو اپنی ذمہ داری، زندگی کا مقصد اور وجہ خلقت کی پیروی سمجھیں۔
امام حسین نے اپنے سفر اور انقلاب کو جاری اس لیے رکھا تاکہ آپؑ ملکوں میں اصلاحی اقدامات کی بنیاد رکھیں، لوگوں کے مابین معاشرہ میں حق کا بول بالا ہو اور وہ خوفناک منفی پہلو ختم ہو جائیں جن کو اموی حکام نے اسلامی حیات میں نافذ کر رکھا تھا۔
جب امام حسینؑ نے حجاز کو چھوڑ کر عراق جانے کا قصد کیا تو لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا، بیت اللہ الحرام میں خلق کثیر جمع ہوگئی۔ آپؑ نے ان کے درمیان ایک جاودانہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس کے چند جملے قارئین کرام کے لیے تحریر کرنا لازمی ہے: 'الحمدللہ، و ماشاءاللہ۔۔۔۔' تمام تعریفیں خدا کے لیے ہیں، ہر چیز مشیت الٰہی کے مطابق ہے۔ خدا کی مرضی کے بغیر کوئی قوت نہیں، جدا کا درود و سلام اپنے نبی ﷺ پر لوگوں کے لیے موت اسی طرح مقدر ہو چکی ہےجس طرح جوان عورت کے گلے میں بار ہمیشہ رہتا ہے مجھے اپنے آباؤ و اجداد سے ملنے کا اسی طرح شوق ہے جس طرہ یعقوبؑ یوسفؑ سے ملنے کے لیے بیتاب تھے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا جسم پاش پاش کر دیا جائے گا اور میری لاش کی بیحرمتی کی جائے گی۔ اور جو خدا سے ملاقات کے لیے آمادہ ہو وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو جائے۔
راوی کہتا ہے کہ ہم نے اس سے فصیح و بلیغ خطبہ نہیں دیکھا، امام حسین علیہ السلام نے اپنی شہادت کے ارادہ کا اظہار فرمایا، اللہ کی راہ میں زندگی کی کوئی اہمیت نہیں دی، موت کا استقبال کیا، موت کو انسان کی زینت کے لیے اس کے گلے کے ہار سے زینت کے مانند قرار دیا۔ آپؑ نے اس جگہ کا تعارف کرایا جہاں پر آپؑ کا پاک و پاکیزہ خون بہے گا۔
آپؑ کی ثابت قدمی کا کیا کہنا، امام تن تنہا میدان میں دشمنوں کے نرغے میں کھڑے رہے اور بڑے بڑے مصائب کی وجہ سے آپ کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا رہا، آپ مسکراتے رہے تھےاور آپ کو فردوس اعلٰی کی منزلوں پر اعتماد تھا۔ آپ ان انبیاء اور اولوالعزم رسولوں کی طرح ثابت قدم رہے جن کو اللہ نے اپنے بقیہ بندوں پر برتری دی ہے۔ سورۃ الفجر کی آیات مبارکہ نمبر 30-28 میں ارشاد باری تعالٰی ہے "اے نفس مطمئن اپنے رب کی طرف اس حال میں چل کہ تو خوش ہو اور پسندیدہ قرار پائے۔ پس! میرے بندوں میں شامل ہوجا۔ اور میری جنت میں چلا جا۔" آپ ہی سردار نوجوان جنت ہیں۔
زندگی کے لیے اسلام کی تھا اس کا قیام
ذہنٍ آزادیٍ انسان تھا اس کا پیغام
یہ رہٍ حق کی سحر، باطلٍ ظلمات کی شام
یا حسینؑ ابنٍ علیؑ ظلم سے ٹکرانے کا نام
اگر امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات پر روشنی نہیں ڈالی گئی تو گویا کچھ نہیں لکھا گیا۔ وہ منفرد صفات و خصوصیات، کمالات جن سے ابوالاحرار امام حسینؑ کی شخصیت کو متصف و مخصوص کیا گیا ہے۔ ابوالشہد کی ذات میں قوت ارادہ، عزم محکم و مصمم تھا۔ اپؑ ہی کا فرمان ہے ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ آپ اردو میں سب سے زیادہ قوی تھے۔ آپ پختہ ارادہ کے مالک تھے اور کسی طرح کے ایسے مصائب اور سختیوں کے سامنے نہیں جھکے جن سے عقلیں مدہوش اور صاحبانٍ عقل حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔
مشہور و معروف مورخ یقوبی نے آپبکو شدید العزت کی صفت سے متصف کیا ہے۔ ابن ابی الحدید کا کہنا ہے "سید اہل اباء حضرت اباعبد اللہ الحسین جنھوں نے لوگوں کوحمیت و غیرت تعلیم اور دنیوی زندگی کے مقابلہ میں تلواروں سے کٹ مروانے کا درس دیا۔ آپ نے سرخ موت (جنگ) کا لباس تن کیا یہ لباس بعد میں سبز رنگ (فتح) میں تبدیل ہوگیا۔ عظیم صاحبان فکر و نظر نے پوری تاریخ میں آپ جیسا شجاع اور ایسا بہادر انسان نہیں دیکھا کہ جس نے کربلا کے دن ایسا موقف اختیار فرمایا ہو کہ جس سے پوری دنیا متحیر ہوگئی عقلیں گم ہو کر وہ گئیں۔
امام حسین علیہ السلام کی صراحت، حق کے سلسلہ میں استقامت، صبر، حلم، تواضع، وعظ و ارشاد، عبادت، صمت و وقار، عفو و اصلاح، شکر نعمت، شجاعت آپ کی خصوصیات میں سے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنے شیعوں سے فرمایا "عاقل اس شخص سے گفتگو نہیں کرتا جس سے اسے اپنی تکذیب کا ڈر ہو، اس چیز کے متعلق سوال نہیں کرتا جس کے اسے انکار کا ڈر ہو۔ اس شخص پر اعتماد نہیں کرتا جس کے دھوکہ دینے کا اسے خوف ہو اور اس چیز کی امید نہیں کرتا جس کی امید پر اطمینان نہ ہو۔ "ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔"