۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
ولادت امام محمد باقر (ع)

حوزہ/بارہ اماموں میں سے یہ آپؑ ہی کو خصوصیت حاصل تھی کہ آپؑ کا سلسلہ نسب مادر و پدر دونوں جانب سے پیغمبر اکرم تک پہنچتا ہے۔ دادا آپ کے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام تھے جو رحمت العالمین محمد مصطفٰی (ص) کے چھوٹے نواسے تھے اور والدہ ماجدہ آپ کی ام عبداللہ فاطمہ امام حسنؑ کی صاحبزادی تھیں جو رسول اکرم کے بڑے نواسے تھے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی|

مالک نے اس کو نام کا پیمبرؐ عطا کیا

یہ مصطفٰیؐ کے نام کا بھی ورثہ دار ہے

قبل از وجود جس کو پیمبرؐ کریں سلام

بیشک وہ دین حق کا کوئی ذمہ دار ہے

شبرؑ کا یہ نواسہ ہے پوتا حسینؑ کا

تنہا یہ دو گھرانوں کا آئینہ دار ہے

بارہ اماموں میں سے یہ آپؑ ہی کو خصوصیت حاصل تھی کہ آپؑ کا سلسلہ نسب مادر و پدر دونوں جانب سے پیغمبر اکرم تک پہنچتا ہے۔ دادا آپ کے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام تھے جو رحمت العالمین محمد مصطفٰی (ص) کے چھوٹے نواسے تھے اور والدہ ماجدہ آپ کی ام عبداللہ فاطمہ امام حسنؑ کی صاحبزادی تھیں جو رسول اکرم کے بڑے نواسے تھے۔

جہان کو علم و عرفان کب کس کے در سے ملتا ہے

محمدؐ کا یہ ورثہ ہے درٍ باقر سے ملتا ہے

باقر اس معدن کے گوہر شب چراغ تھے، جس کے فیض سے ساری دنیا میں علم و عمل کی روشنی پھیلی، پھر حضرت امام زین العابدینؑ جیسے مجمع البحرین باپ کے آغوش میں پرورش پائی تھی۔ ان موروثی اثرات کے علاوہ خود آپ میں فطرۃ تحصیلٍ علم کا ذوق تھا۔ ان اسباب نے مل کر آپ کو اس عہد کا ممتاز ترین عالم بنا دیا تھا۔ وہ اپنے وفور علم کی وجہ سےباقر کے لقب سے مقلب ہو گئے تھے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب 57 ہجری یوم جمعہ اور انگریزی کیلنڈر کے اعداد سے 10 مئی 676 عیسوی میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (اعلام الوری صفحہ 155 و جلا۶العیون صفحہ 260، جنات الصخلود صفحہ 25)۔ محمد باقر مجلسی جنھیں علامہ مجلسی سے بھی معروف ہیں، وہ تحریر فرماتے ہیں کہ جب آپ بطنٍ مادر میں تشریف لائے تو آباؤ و اجداد کی طرح آپ کے گھر میں صدا آنے لگی اور جب نو ماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اور شب ولادت نور شائع ہوا۔ (جلا۶العیون صفحہ 259

ہوا پیدا جہاں میں آج وہ ہمنام پیغمبر (ص)

لقب باقر ہے جس کا اور کنیت ابو جعفر

امام المتقین، منصوص اور معصوم عالم میں

نبی کا پانچواں نائب ہمارا پانچواں رہبر

عالم انسانیت میں امام محمد باقر علیہ السلام کی انگریزی کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 1348 ویں یوم ولادت باسعادت اور قمری کیلنڈر کے مطابق 1388 ویں یوم ولادت باسعادت پورے شان و شوکت اور تزک و احتشام سے منائی جا رہی ہیں اور اس سلسلے سے جگہ جگہ، امامبارگاہوں، گھروں اور حالوں میں محفلوں کا اہتمام و انعقاد کئے جا رہے ہیں۔ لہٰذا انھیں یہ لازمی طور پر آشنا ہونا چاہیے کہ آخر آپؑ کو باقر کیوں کہا جاتا ہے؟ در اصل باقر، بقرہ سے مشتق اور اسی کا اسم فاعل ہے اٍس کے معنی 'شق' کرنے اور 'وسعت' دینے کے ہیں۔ (المنجد، صفحہ نمبر 41) چونکہ علم کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے اس لیے یہ بھی وضاحت کر دی جائے آپؑ اس لقب سے ملقب کیا گیا کہ آپ نے علوم و معارف کو نمایاں فرمایا اور حقائق احکام و حکمت کے وہ سربستہ خزانے کو ظاہر فرما دیئے جو لوگوں معلوم بھی نہ تھا۔ (شواہد النبوت، صفحہ نمبر 181) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جامعیت علمیہ کی وجہ سے بھی آپ کو یہ لقب دیا دیا گیا ہے۔ شہید ثالث علامہ نورُاللہ شوشتری کا کہنا ہے کہ حضرت محمد مصطفٰیؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ امام محمد باقر علوم و معارف کو اس طرح شگافتہ کر دیں گے جس طرح زراعت کے لیے زمین شگافتہ کی جاتی ہے۔ (مجالس المومنین، صفحہ نمبر 117)

امام محمد باقر علیہ السلام نے اسرار و رموز علوم و فنون کو اس قدر وسعت دی اور جلا بخشی اور ان کی اس طرح تشریح و وضاحت کی ہے کہ دوسرے افراد کی تاریخ میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ قارئین و عقیدت مندوں کے آشنائی ہوگی کہ عالم اسلام کے امام اعظم بھی آپؑ کے خرمن علم کے خوشہ چینوں میں تھے اور انہوں نے بھی آپ کے علوم سے استفادہ کیا ہے۔

شیخ مفید علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث، علم سنن، علم تفسیر قرآن، علم سیرت اور علوم و فنون ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدر امام محمد باقر علیہ السلام سے ظاہر ہوتا ہے وہ کسی اور سے ظاہر نہیں ہوا۔

قارئین کرام کے لیے یہ تحریر کرنا لازمی ہے کہ واقعۂ کربلا میں امامٍ محمد باقر علیہ السلام کی موجودگی ہے۔ 61 ہجری میں آپؑ کی عمر اڑھائی سال کی تھی۔ آپ امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ وطن عزیز مدینہ منورہ کو الوداع کہا، پھر مدینہ سے مکہ مکرمہ اور وہاں سے کربلا تک کی صعوبتیں برداشت کیں۔ (مناقب جلد 4، صفحہ 109)

باقرؑ کے دم سے زندہ ہیں اسرار کربلا

یہ کربلا کا سب سے بڑا راز دار ہے

باقر العلوم امام محمد ابن علی الباقر علیہ السلام نے جہاں اپنے شاگردوں کو علوم و آل محمد (ع) اور دنیاوی علوم کی تعلیم دی تو وہیں کئی شاگرد ایسے بھی تیار کئے جنھوں نے امام حسینؑ اور کربلا کی یاد میں نوحے و مرثیے لکھنے اور پڑھنے کو اپنا شعار بنایا۔ یہ باقر العلوم (ع) کے در کی عطا ہے اور ذکر کربلا کا فیض ہے جو کوئی صدیوں سے نسل در نسل، سینہ در سینہ ہر زبان میں مرثیہ و سوز خوانی اور نوحہ خوانی کی صورت میں منتقل ہوتا آیا ہے۔

نوحہ خوانی اور مرثیہ خوانی بارگاہ باقر العلوم (ع) کا صدقہ ہے۔ لہٰذا ہر نوحہ و سوز خواں کو اس در سے وابستہ ہونے کے بعد ہر لمحہ خود پر غور کرتے رہنا چاہیے اس کا طرزٍ عمل ویسا ہی ہو جیسا مصائب و فضائل آل (ع) بیان کرنے والے کا ہونا چاہیے۔ اس کے نوحے قلوب پر اثر کریں۔ زبان کی قید سے بے نیاز ہوں، جیسے باسم الکربلائ کے عربی نوحے یا محمود کریمی کے فارسی نوحے کرتے ہیں یا اردو و پنجابی میں دل سوز نوحے سنائی دیتے ہیں۔ اصل میں یہی باقر العلوم کو حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔ بہر کیف، نوحے و مرثیے سے اداکاری کو دور یا الگ رکھنا ہوگا۔

کیا خانۂ خدا، مسجدیں صرف نمازیں ادا کرنے کی جگہیں ہیں؟ ایسا تصور کرنا اسلامی تاریخ کا فقدان اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی زندگیوں سے نابلد ہونا سمجھا جائے گا۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے علوم کی تعلیم و تدریس و نشر مسجد سے کی ہے۔ آپؑ میں تشریف لے جاتے تھے، لوگ جوق در جوق آپ کے مواعظ سے فیض حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ تعلیم و ترویج، علوم و فقہ اسلام آپؑ کی زندگی کا مقصد تھا۔ آپؑ نے اسی مقاصد پر زندگی بسر کی۔

عقل اللہ پاک کی نعمت ہے اور اس کو بہت محبوب ہے۔ امام باقرؑ فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم نے عقل کو پیدا کیا تو فرمایا کہ میں نے کوئی شئے پیدا نہیں کی جو عقل سے زیادہ مجھ کو محبوب ہو آور میں عقل کو کامل کرتا ہوں۔ اس شخص میں جس کو میں محبوب رکھتا ہوں اور انبیاء و اولیاء اور مثل ان کے ہیں۔ عقل کی پختگی کی صورت میں امر و نواہی صادر کرتا ہوں گویا عقل ہی ثواب و عذاب کا باعث ہے۔ غور و فکر، تفکر و تدبر کا مقام ہے کہ ہم لوگ علم و عقل کے لیے کتنی کوشش کرتے ہیں؟ کیا صاحب علم و عقل ہیں؟ اگر معاشرہ یہ دیکھے کہ کوئی نماز، مجلس یا تقریر زیادہ کرتا ہے تو دھوکہ نہ کھاؤ کیونکہ اس کو جزا یا سزا اس کی عقل کے مطابق ملے گی۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا عاقل کی نیند جاہل کی عبادت سے بہتر ہے۔

آج کے علماء کرام، ذاکرین و شعراء اہلبیت، مقررین، دانشوران، مفسرین و مبصرین قرآن، حفاظ، قاری صاحبان، مفکرین، و ادباء حکمرانوں کے پاس جانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور موجودہ طور و طریقہ سیرت بنتی جارہی ہے۔ ایسی سیرت پر لکھا اور بولا جا رہا ہے لیکن دبے اور دھیمی لہجوں میں۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ حکمرانوں کے پاس جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔آپؑ نے فرمایا کہ حکمرانوں کے پاس میل جل اور آمد و رفت سے تین باتیں پیدا ہوتی ہیں۔ (1) دنیا کی محبت، (2) موت کی فراموشی اور (3) قلت رضائے خدا۔ سیاست سے دوری، ظالم و جابر حکمرانوں سے دور اختیار کر، امام محمد باقرؑ اپنے علمی سرچشمہ کے ذریعے السلام کو فروغ دیا:

یہ امتیاز خاص ہے مدح امام ہے

شعروں کا ہے شمار جزا بے شمار ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .