تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | امام محمد تقی علیہ السلام ہمارے نویں امام ہیں ۔ آپؑ کےوالد ماجد سلطان عرب و عجم ، عالم آل محمد ؑ، امام رؤوف حضرت ابوالحسن امام علی رضا علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ حضرت سبیکہ سلام اللہ علیہا ہیں ،جو نوبہ (مصر) کی رہنے والی تھیں اور فرزند رسول جناب ابراہیم ؑ کی والدہ گرامی ام المومنین جناب ماریہ قبطیہؓ کے خاندان سے تھیں ۔ امام علی رضا علیہ السلام نے ان کو خیزران کے نام سے یاد کیا ۔ جناب سبیکہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ حجت خدا ، ولی کبریاءباب الحوائج حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنے صحابی یزید بن سلیط سے فرمایا: جب تم ان خاتون (جناب سبیکہ سلام اللہ علیہا ) سے ملاقات کرنا تو میرا سلام کہہ دینا ۔
امام محمد تقی علیہ السلام کا نام ‘‘محمد’’، کنیت ‘‘ابوجعفر ثانی’’ اور القاب جواد، ابن الرضا ، تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل، مرتضیٰ اور منتخب ہیں۔
آپؑ 10؍ رجب المرجب سن 195 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا علیہ السلام کی خواہر گرامی جناب حکیمہؑ سے روایت ہے کہ جب امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو میں انکی والدہ ماجدہ جناب خیزران سلام اللہ علیہا کی خدمت میں پہنچی ۔ میرے امام اور بھائی امام علی رضا علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ میں جناب خیزران سلام اللہ علیہا کے پاس ہی رہوں، لہذا خیزران سلام اللہ علیہا کے کمرے میں گئی ۔ رات کا وقت تھا لہذا امام علی رضا علیہ السلام نے ایک روشن چراغ وہاں رکھ دیا اور خود حجرے سے باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا۔ جناب خیزران سلام اللہ علیہا کے سامنے ایک طشت تھا جیسے ہی ولادت کا وقت آن پہنچا اچانک چراغ گل ہو گیا اور کمرے میں تاریکی پھیل گئی جس سے میں پریشان ہو گئی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد کیا دیکھا کہ امام محمد تقی علیہ السلام طشت میں ہیں اور آپ ؑ کے نورانی وجود سے حجرہ منور ہے ۔ میں نے فوراً ہی انکو اپنی آغوش میں لے لیا اور انکی والدہ ماجدہ جناب خیزران سلام اللہ علیہا سے کہا کہ اللہ نے آپ کو اس مولود کے نور کے سبب چراغ سے بے نیاز کر دیا ۔ اسی وقت امام علی رضا علیہ السلام حجرے میں داخل ہوئے اور نومولود کو مجھ سے لے کر گہوارے میں لٹا دیا اور فرمایا: حکیمہ! گہوارے کے قریب ہی رہنا۔ جناب حکیمہؑ فرماتی ہیں کہ ولادت کے تیسرے دن امام محمد تقی علیہ السلام نے آسمان کی جانب چہرہ کیا اور آنکھیں کھولیں اور زبان پر کلمہ شہادتین جاری کیا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت تعجب ہوا، امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں گئی اور ان کو پورے ماجرے کی اطلاع دی تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: آئندہ اس سے بھی زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز واقعات ان سے رونما ہوں گے۔
تاریخ و روایات کی اکثر کتب سے ثابت ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام کے اکلوتے فرزند ہیں ۔جب امام علی رضا علیہ السلام کی عمر مبارک 47 برس ہو گئی اس وقت آپؑ کی ولادت ہوئی ۔ اس لئے اکثر مومنین کے لئے یہ بات تشویش ناک تھی کہ جب امام علی رضا علیہ السلام لا ولد ہیں تو ان کے بعد کون امام ہو گا ، اسی طرح فرقہ واقفیہ کہ جنہوں نے مال دنیا کی حوس میں آٹھویں امامؑ کی امامت کا انکار کیا تھا ان کو بھی موقع مل گیا اور شبھہ ایجاد کرنے لگے کہ حضرت رضا ؑ کیسے امام ہو سکتے ہیں جب کہ وہ ابھی تک لا ولد ہیں ۔ اگرچہ جب بھی کسی نے امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ آپؑ کے بعد امام کون ہو گا تو امام ؑ نے فرمایا: ‘‘اللہ مجھے ایک بیٹا دے گا۔ جو میرے بعد تم پر اللہ کی حجت اور امام ہو گا۔ ’’ اور جب امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہو گئی تو امام علی رضا علیہ السلام نے آپؑ کو ‘‘مولود مبارک’’ کے نام سے یاد کیا۔ یحییٰ صنعانی کا بیان ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؑ کیلا چھِل کر اپنے نور نظر کو کھلا رہے ہیں ۔ عرض کیا کہ کیا یہ وہی مولود مبارک ہیں؟ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘ ہاں ۔ ائے یحییٰ! یہ وہی مولود ہے کہ اسلام میں اس سے زیادہ با برکت کوئی مولود ہمارے شیعوں کے لئے نہیں پیدا ہوا۔ ’’ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے متعدد بار آپؑ کو مولود مبارک کےعنوان سے یاد کیا تھا ۔
چونکہ حدیث رسول ؐ ہے کہ 9 ائمہؑ امام حسین علیہ السلام کی نسل سے ہوں گے لہذا فرقہ واقفیہ نے یہ شبھہ ایجاد کیا کہ امام رضا علیہ السلام لا ولد ہیں لہذا یہ کیسے امام ہو سکتے ہیں جیسا کہ خود فرقہ واقفیہ کے ایک سردار ‘‘حسین بن قیاما واسطی’’ نے امام علی رضاؑ کو خط لکھا کہ آپؑ کیسے امام ہو سکتے ہیں جب کہ آپؑ لا ولد ہیں۔ امامؑ نے اس کے جواب میں لکھا ‘‘تمہیں کیسے پتہ کہ میں لا ولد ہی رہوں گا۔ خدا کی قسم ! کچھ دن بعد اللہ مجھے ایک ایسا فرزند عطا کرے گا جو حق کو باطل سے جدا کر دے گا۔ ’’ لہذا جب امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی تو دشمنوں کی ساری سازشیں ناکام ہو گئیں۔
محمد بن میمون جو نابینا تھے ان کا بیان ہے کہ میں نے مکہ مکرمہ میں امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کی اور انکی خدمت میں عرض کیا کہ میں مدینہ جا رہا ہوں ، چاہتا ہوں کہ مدینہ میں آپؑ کے فرزند کی زیارت کروں لہذا آپؑ ایک خط لکھ دیں تا کہ مدینہ میں ان سے ملاقات ہو سکے۔ یہ سننا تھا کہ امام علی رضا علیہ السلام مسکرائے کیوں کہ اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک صرف چھ ماہ تھی۔ امام ؑ نے خط لکھ کر مجھے دیا جسے لے کر میں مدینہ میں آپؑ کے بیت الشرف پر حاضر ہوا اور وہاں موجود غلام سے کہا کہ میرے مولا کو لے کر آؤ تا کہ میں ان کی زیارت کا شرف حاصل کروں اور ان کی برکتوں سے فیضیاب ہوں۔ غلام اپنی آغوش میں امام محمد تقی علیہ السلام کو لایا تو میں نے آپؑ کو سلام کیا ، مولاؑ نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کیسے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ مولا ؑ بیماری کے سبب نابینا ہو گیا ہوں ۔ آپؑ نے فرمایا: قریب آؤ۔ میں نزدیک گیا اور غلام کو خط دیا ، غلام نے خط کھولا تو امامؑ نے پڑھا اور مجھ سے فرمایا اور قریب آؤ ، میں اور قریب گیا تو امام ؑ نے اپنے ننھے ہاتھ کو میری آنکھوں پر پھیرا تو میں بینا ہو گیا۔
اسی طرح کا معجزہ اور کرامت کا واقعہ محمد بن سنان نے بھی نقل کیا ہے جب امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک صرف 15 ماہ تھی۔ المختصر دور مہد ہی سے ایسے معجزات و کرامات ظاہر ہوئے جو عام انسانوں کے سلسلہ میں تصور بھی نہیں کئے جا سکتے ہیں ۔ ظاہر ہے آپؑ حجت خدا اور ولی الہی تھے اللہ نے آپؑ کو علم لدنی عطا کیا تھا۔ نیز روایت میں ہے کہ راتوں میں امام علی رضا علیہ السلام اپنے فرزند کے گہوارے کے قریب تشریف فرما ہوتے اور ان سے محو کلام ہوتے تھے۔ دنیا سمجھ رہی تھی کہ امام رضا ؑ اپنے فرزند کو لوریاں دے رہیں تا کہ وہ سو جائیں لہذا آپؑ سے کہا گیا کہ اب آپؑ کے لئے مناسب نہیں ہے کہ بچے کو سلانے کے لئے لوریاں دیں تو امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘نہ میں ان کو لوریاں دیتا ہوں اور نہ ہی وہ اس سے سوتے ہیں بلکہ میں انہیں الہی معارف سے آگاہ کرتا ہوں اور علم کے ذریعہ عزیز بناتا ہوں ۔ ’’ ظاہر ہے جسے علام الغیوب خدا علم لدنی عطا کرے اور عالم آل محمد امام علی رضا علیہ السلام گہوارے میں علم ومعارف سے آشنا کرائیں تو دنیا کے علماء و فقہاء اس سے علمی مناظروں میں کیسے سبقت حاصل کر سکتے ہیں ؟َ
امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک صرف 8 برس تھی کہ مامون عباسی نے آپؑ کے والد ماجد امام علی رضا علیہ السلام کو زہر دغا سے شہید کر دیا اور اس کمسنی میں امامت کی ذمہ داریاں آپ ؑ پر آئیں ۔ چوں کہ امام محمد تقی علیہ السلام سے قبل کوئی امام اتنی کمسنی میں منصب امامت پر فائز نہیں ہوا تھا اس لئے عوام تو عوام بعض خواص کے لئے بھی یہ مسئلہ پیچیدہ ہو گیا تھا۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد بغداد میں ‘‘ریان بن صلت’’، ‘‘صفوان بن یحییٰ’’، ‘‘محمدبن حکیم’’، ‘‘عبدالرحمٰن بن حجاج’’ اور ‘‘یونس بن عبدالرحمٰن ’’ بعض دوسرے شیعہ بزرگان کے ساتھ عبد الرحمٰن بن حجاج کے گھر میں جمع ہوئے اور امام علی رضا علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت پر گریہ و زاری اور عزاداری میں مصروف ہوگئے ۔ تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ ‘‘یونس بن عبدالرحمٰن ’’ نے لوگوں سے کہا کہ یہ گریہ و زاری ختم کرو ، پہلے اس اہم مسئلہ کے لئے فکر کرو کہ اب امام کون ہے؟ کیا ہم اس کمسن بچے کو امام مان لیں یا ان کے بڑے ہونے کا انتظار کریں، پھر اس مدت میں کس سے ہدایت حاصل کریں ۔ یہ سننا تھا کہ ‘‘ریان بن صلت’’ اٹھے اور ‘‘یونس’’ کے گلے کو پکڑ لیا اور انکے سر و صورت پر مارتے ہوئے بولے۔ ‘‘تم ہمارے سامنے ابھی تک ایمان کا اظہار کرتے رہے جب کہ شک اور شرک تمہارے اندر چھپا ہوا تھا۔ کیوں کہ اگر کسی کی امامت اللہ کی جانب سے ہو تو اگرچہ وہ ایک دن کا بچہ ہی کیوں نہ وہ سو سال کے بزرگ جیسا ہے لیکن اگر اللہ کی جانب سے امامت نہیں ملی ہے تو سو سال کا ہی کیوں نہ ہو وہ امام نہیں ہو سکتا۔’’ وہاں موجود دیگر لوگوں نے بھی یونس کی سرزنش کی۔
حج کے ایام نزدیک تھے لہذا بغداد اور دیگر شہروں سے 80 علماء اور فقہاء فریضہ حج کی ادائیگی کی خاطر مکہ مکرمہ گئے اور اس کے بعد قبر رسولؐ کی زیارت اور امام محمد تقی علیہ السلام سے ملاقات کے لئے مدینہ پہنچے۔ مدینہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے گھر کے باہری دالان میں بیٹھ گئے ۔ امام نہم کے چچا جناب عبداللہ بن موسیٰؑ وہاں پہنچے اور صدر مجلس میں بیٹھ گئے۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یہ فرزند رسولؐ ہیں جس کو جو پوچھنا ہے ان سے پوچھ لے ۔ فقہاء نے سوالات پوچھنے شروع کئے لیکن عبداللہ صحیح جواب نہ دے سکے جس سے انہیں مایوسی ہوئی اور کسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر (امام) محمد تقیؑ جواب دے سکتے ہوتے تو عبداللہ یہاں نہ آتے ۔ یہ سن کر سب اٹھنے لگے کہ خادم نے آ کر کہا کہ آپ حضرات تشریف رکھیں امام محمد تقی علیہ السلام تشریف لارہے ہیں ۔ سب بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد امام محمد تقی علیہ السلام تشریف لائے تو سلام و احوال پرسی کے بعد فقہاء نے سوالات پوچھنا شروع کیا تو آپؑ نے سب کے قانع کنندہ جوابات دئیے تو سب خوش ہو گئے اور دعا دینے لگے اور کہنے لگے کہ ابھی آپ کےچچا عبداللہ نے اس کے غلط جوابات دئیے ہیں ۔ کوئی اور ہوتا تو چچا کی غلطی پر پردہ ڈالتا لیکن امام محمد تقی علیہ السلام نے وہیں اپنے چچا سے فرمایا: ‘‘چچا ! خدا کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے کہ کل آپ اس کے سامنے کھڑے ہوں اور وہ آپ سے پوچھے کہ یہ جانتے ہوئے کہ امت میں تم سے بڑا عالم موجود ہے تو پھر تم نے کیوں فتویٰ دیا؟’’
اگر ہم امام محمد تقی علیہ السلام کی علمی شخصیت پر گفتگو کریں تو نہ ہمارے لئے کماحقہ گفتگو ممکن ہے اور نہ ہی اس مختصر تحریر میں گنجائش ہے ۔ امام زادہ علی بن جعفر علیہ السلام جیسے بزرگ ،عالم اور راوی حدیث آپؑ کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ، آپؑ کے پیچھے چلتے، آپؑ کی جوتیاں سیدھی کرنے کو اپنے لئے شرف سمجھتے ، جب کہ وہ امام ؑ کے دادا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بھائی اور والد ماجد امام علی رضا علیہ السلام کے چچا تھے۔ جب کسی نے ان سے کہا کہ آپ بزرگ ہوتے ہوئے بھی ایک بچے کا احترام کر رہے ہیں تو انہوں نے اس سے کہا کہ خاموش ہو جاؤ، پھر اپنی سفید داڑھی کو ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ‘‘اگر خدا نے اس سفید داڑھی کو امامت کے لئے مناسب نہیں سمجھا اور اس کمسن کو مناسب سمجھا تو کیا میں اس کا انکار کر دوں۔ خدا کی پناہ چاہتا ہوں میں اس کا اطاعت گذار بندہ ہوں۔ ’’
مامون عباسی نے اپنی پرانی سازش پھر رچی اور جس طرح امام علی رضا علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا تھا اسی طرح امام محمد تقی علیہ السلام کو بھی بلا لیا تا کہ امام علی رضا علیہ السلام کے قتل سے اسے جو بدنامی ملی تھی وہ کم ہو جائے، امام ؑ کو اپنی نظروں کے سامنے رکھ سکے ، اپنی بیٹی ام الفضل کہ جو خباثت میں اپنے بات کی کاربن کاپی تھی اس سے امام ؑ کی شادی کرا دی تا کہ اگر ممکن ہوا تو امامؑ کی نسل اس سے چل جائے گی و گرنہ کم از کم بیت امامت کی خبریں ملتی رہیں گی۔ لیکن جیسے اسے امام علی رضا علیہ السلام کو ولی عہد بنا کر ناکامی ملی اور انکو شہید کرا کر بدنامی ملی ویسے ہی امام محمد تقی علیہ السلام کو بھی داماد بنا کر دو جہاں کی ناکامی ہی اس کو نصیب ہوئی اور ابدی لعنت اور عذاب اسکی بیٹی کا مقدر بنا۔
مامون نے جب امام محمد تقی علیہ السلام کی شادی اپنی بیٹی ام الفضل سے کی تو شادی سے قبل علماء سے علمی مناظرہ بھی ہوا جس میں یحییٰ بن اکثم جیسے نامور عالم کو شکست قبول کرنی پڑی۔ اسی طرح دیگر مناظرے بھی ہوئے جہاں شکست ہی مقابل کا نصیب ہوئی۔ مامون نے جہاں علمی مناظرے کرا کر آپ ؑ کے علم کا امتحان لیناچاہا وہیں بغداد میں اپنے قصر میں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دے کر نفسانی خواہشات کا بھی امتحان لیا اور اسی طرح مسخروں اور گناہگاروں کی ذریعہ آپؑ کی شخصیت کو بھی پرکھا لیکن ہر محاذ پر اسے ناکامی ہی ملی ۔ ظاہر ہے جو حجت خدا ہو، جسے اللہ نےولایت تکوینی عطا کی ہو، جس کی نظر میں معبود کے سوا کوئی نہ ہو وہ بھلا کیسے دنیا والوں سے دھوکہ کھا جاتا ، وہ تو اس علیؑ کے وارث تھے جنہوں نے دنیا کو مخاطب کر کے فرمایا: ائے دنیا! میرے علاوہ کو دھوکہ دے ، میں نے تجھے تین طلاق دے دی جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ہے۔
کتب تاریخ و روایات میں امام محمد تقی علیہ السلام کے بہت سےمعجزات و کرامات نقل ہوئے ہیں جن میں سے بعض کی جانب ہم صرف اشارہ پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ آپؑ نے اپنے والد کے صحابی و خادم ابا صلت ہروی ؒ کو قیدخانہ سے نجات دلائی، راس الحسینؑ شام کے عابد و مجاور کو فخر سلیمان ؑؑ نے چشم زدن میں شام سے کوفہ اور مکہ و مدینہ کا سفر کرایا اور اسے با اعجاز قید خانہ سے نجات دلائی ، غیر مذہب والے پیاسے کو بغیر مانگے نہ صرف پانی پیش کیا بلکہ جب اس کے دل میں پانی کے سلسلہ میں شک ہوا کہ کہیں اس میں زہر نہ ہو تو پہلے خود وہی پانی پیا پھر اسے پلایا، عصا نے آپ ؑ کی امامت کی گواہی دی۔ آپؑ کے وضو کے پانی کی برکت سے سوکھا درخت سر سبز و شاداب ہو گیا۔
اگرچہ ام الفضل نے کئی بار اپنے باپ مامون سے اپنے شوہر امام محمد تقی علیہ السلام کی شکائت کی لیکن اس نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی لیکن مامون کے بعد جب اس کا بھائی معتصم تخت حکومت پر بیٹھا تو اس سے بھی شکائت کرنی شروع کر دی۔ انہیں ایام میں ایک چور کی سزا کے سلسلہ میں درباری قاضی یحییٰ بن اکثم نے قرآن کے مخالف فیصلہ کیا جس پر امام ؑ نے قرآنی آیت کو پیش کر کے اس کے فیصلہ کو غلط ثابت کر دیا ، جس سے اسے اپنی جہالت پر شرمندہ ہونا پڑا تو اس گناہ گار نے اپنے دل میں کینہ پال لیا اور آپ ؑ کے قتل کا درپئے ہو گیا لہذا اس نے بھی معتصم سے آپؑ کی جھوٹی شکائتیں کرنی شروع کردی ۔ آخر معتصم عباسی کے حکم پر ام الفضل نے آپ کو زہر دیا اور آپؑ ماہ ذی القعدہ کے آخری دن سن 220 ہجری کو شہید ہو گئے۔ شہادت کے بعد آپ ؑ کو آپؑ کے دادا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کےپہلو میں دفن کیا گیا۔