تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی نواسی ، امیر المومنین امام علی علیہ السلام اور صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹی اور امام حسنؑ و امام حسین ؑ اور جناب ام کلثوم ؑ کی بہن ہیں۔
آپؑ 5؍ جمادی الاول سن 5 یا 6 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔ جب آپؑ کی ولادت ہوئی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر پر تھے۔ صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے امیر المومنین علیہ السلام سے بیٹی کے نام رکھنے کی گذارش کی تو مولا علیؑ نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سبقت نہیں کروں گا ، جس طرح حضورؐ نے حسن ؑ و حسینؑ کے نام رکھے اسی طرح اس بیٹی کا نام بھی آپؐ ہی رکھیں گے۔ جب حضورؐ سفر سے واپس آئے تو حسب دستور سب سے پہلے اپنی دختر نیک اختر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بیت الشرف پر تشریف لے گئے ۔ بی بیؑ نے آپؑ کو بیٹی کی ولادت کا مژدہ سنایا اور عرض کی کہ بابا ! آپؑ میری اس بیٹی کا نام انتخاب فرمائیں۔ حضورؐ نے فرمایا: میں اللہ پر سبقت نہیں کروں گا، اسی وقت جبرئیل امین ؑ نازل ہوئے اور بعد درود سلام عرض کیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوح محفوظ پر اس بچی کا نام زینب رکھا ہے۔ زینب یعنی اپنے باپ کی زینت۔ نام ہی سے شہزادی کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مولا علیؑ جو دین و دنیا کی زینت ہیں، عقائد و احکام و اخلاق کی زینت ہیں ۔ محراب و منبر کی زینت ہیں۔ جنت و کوثر کی زینت ہیں۔ عرش و کرسی کی زینت ہیں۔ المختصر جنکی قدم بوسی کو ہر فضیلت نے اپنے لئے فضیلت اور زینت سمجھا ، اس ذات کی زینت کو حضرت زینب ؑکہتے ہیں۔
انتخاب نام کے بعد حضورؐ نے اپنی نواسی کو پیار کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘ میری امت کے جو افراد یہاں حاضر ہیں وہ غائبین کو آگاہ کر دیں کہ میری یہ بیٹی کرامت میں اپنی جدہ ماجدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا کی طرح ہے۔ ’’ محسنہ اسلام حامی رسول اسلام ام المومنین جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی ہی وہ ذات ہے جنہوں نے اعلان بعثت کے بعد خواتین میں سب سے پہلے اعلان اسلام کیا ، جب سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت و نبوت کا انکار کر رہے تھے تو اس وقت آپؑ اقرار و تصدیق کر رہی تھیں، آپؑ نے اپنی پوری دولت راہ اسلام میں خرچ کردی ۔ شائد حضورؐ یہ رہتی دنیا تک بتانا چاہتے ہیں کہ میری نواسی زینبؑ کردار میں خدیجہ ؑ جیسی ہے کیوں کہ جس طرح مکہ مکرمہ کے پر آشوب ماحول میں خدیجہؑ نے اسلام کو بچایا اور پھیلایا اسی طرح بعد شہادت حسینی زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے بھی مقصد شہادت یعنی دین اسلام کو بچایا اور پھیلایا ۔ فارسی کا مشہور شعر ہے
کربلا در کربلا می ماند اگر زینبؑ نبود
شیعہ می پژمرد اگر زینب ؑ نبود
یعنی کربلا کربلا میں رہ جاتی اور وہیں ختم ہو جاتی اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں اور شیعیت مرجھا جاتی اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں۔
کتابوں میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے 50 القاب تک مرقوم ہیں ۔ جیسے محدثہ، آیۃ من آیات اللہ یعنی اللہ کی آیتوں میں سے ایک آیت، عالمہ غیر معلمہ یعنی ایسی عالمہ جسے کسی نے نہ پڑھایا ہو، فہیمہ غیر مفہمہ یعنی ایسی صاحب فہم و فراست جسے کسی نے نہ سمجھایا ہو، کعبۃ الرزایا یعنی نشانہ غم، نائبۃ الزہرا ؑ یعنی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نائب، نائبۃ الحسینؑ یعنی امام حسین علیہ السلام کی جانشین، عقیلۃ النساء یعنی خواتین میں سب سے زیادہ صاحب عقل، عدیلۃ الخامس من اہل الکساء یعنی اصحاب کساء پنجتن پاک میں پانچویں ذات امام حسین علیہ السلام کی نظیر، شریکۃ الشہید یعنی شہداء کی شہادت میں شریک، کفیلۃ السجادؑ یعنی امام زین العابدین علیہ السلام کی کفالت کرنے والی، سِرِّ ابیہا یعنی اپنے والد ماجد کا راز، سلالۃ الولایہ یعنی ولایت کا خلاصہ وغیرہ۔ ظاہر ان القاب کے الفاظ فقظ آپؑ کے فضائل میں سے کسی فضیلت کی جانب اشارہ ہیں اگر ہم ان القاب کی شرح جنہیں اہل علم و اہل نظر نے بیان کی ہیں انکی جانب رجوع کریں تو ہمیں ہر لقب کے پیچھے فضائل کا اقیانوس نظر آئے گا۔ جنکا کماحقہ بیان نہ ہمارے لئے ممکن ہے اور نہ ہی اس مختصر تحریر میں اتنی گنجائش ہے۔
ام المصائب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی عمر ابھی پانچ یا چھ برس ہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے نانا اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ وفات پیغمبر ؐ کے بعد آل محمد علیہم السلام خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی یادگار بیٹی پر جو مصائب پڑے کہ آپؑ نے نوحہ پڑھا ۔
صبّت عليّ مصائب لو أنّها صبّت على الأيّام صرن لياليا
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے جس طرح اس کمسنی میں نانا کی وفات کا غم برداشت کیا اسی طرح اپنی مادر گرامی پر پڑنے والے مصائب کا مشاہدہ کیا اور اس پر صبر کیا یہاں تک آپؑ کی والدہ گرامی شہید ہوگئیں۔
والدہ ماجدہ کے بعد والد ماجد کے زیر سایہ پروان چڑھیں اور جب آپؑ کی شادی کا سِن آیا تو امیرا لمومنین علیہ السلام نے اپنے شہید بھائی حضرت جعفر طیار علیہ السلام کے فرزند جناب عبداللہ ؑ کا انتخاب کیا اور چند شرائظ کے ساتھ شادی کی ۔ جناب جعفر طیارؑ کی شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لطف و کرم عبد اللہ بن جعفرؑ کے شامل حال ہوا۔ انہوں نے امیرالمومنین علیہ السلام اور امامین حسنین کریمین علیہما السلام کی اطاعت و اتباع کو اپنا نسب العین سمجھا ۔ آپ ؑ کی سخاوت زباں زد خاص و عام تھی۔
جنگ جمل کے بعد جب امیرالمومنین علیہ السلام نے کوفہ میں قیام کیا تو جناب زینبؑ و ام کلثومؑ بھی کوفہ تشریف لے آئیں اور وہیں سکونت پذیر ہو گئیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کوفہ میں خواتین کو دین اور قر آن کریم کی تفسیر تعلیم فرماتی تھیں ۔ لیکن کوفہ میں چار سال چند ماہ ہی گذرے تھے کہ انیسویں رمضان سن 40 ہجری کی صبح حالت نماز میں امیرالمومنین علیہ السلام کے سر پر ضربت لگی اور آپؑ 21؍ رمضان سن 40 ہجری کو شہید ہو گئے۔ مولا علیؑ کی شہادت کے بعد لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کی بعنوان امام و حاکم بیعت کی لیکن چھ ماہ بعد صلح ہوئی، صلح میں شرائط کے ساتھ پوری اسلامی مملکت امیر شام کے حوالے ہو گئی ۔ جس کے بعد اہلبیت علیہم السلام کوفہ سے واپس مدینہ آگئے۔
مدینہ میں دس سال قیام کے بعد 28 ؍ صفر سن 50 ہجری کو امام حسن علیہ السلام کی زہر دغا سے مظلومانہ شہادت اور آپؑ کے جنازے پر تیر چلا کر بے حرمتی ہوئی ۔ ان تمام مصائب پر جناب زینب سلام اللہ علیہا نے صبر کیا۔ امیرشام کے انتقال کے بعد جب یزید تخت پر بیٹھا تو اس نے مدینہ کے گورنر کو لکھا کہ امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے ۔ امام عالی مقام نے بیعت سے انکار کرتے ہوئے مدینہ سے سفر کا ارادہ کیا تو جناب زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئیں۔ مدینہ سے مکہ پہنچی ، مکہ مکرمہ سے کربلا پہنچی ۔کربلا میں دیگر اللہ والوں کے ساتھ آپؑ نے بھی بھوک وپیاس کی تکلیفوں کے ساتھ دیگر مصائب برداشت کئے۔ روز عاشورا جناب زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے دو بیٹوں جناب عونؑ اور جناب محمدؑ کو اپنے بھائی پر قربان کیا ۔ آخر امام حسین علیہ السلام بھی شہید ہو گئے۔
شہداء ؑ نے اپنی شہادت پیش کر کے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کر دی تھی اب نوبت اسیران کربلا کی تھی کہ مقصد شہادت کو تحفظ دیں اور اس کی تبلیغ کریں اور اس راہ میں تمام مصائب پر صبر کرتے ہوئے مقصد شہادت کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیں۔ جس طرح قافلہ شہداء کے سید و سردار امام حسین علیہ السلام تھے اسی طرح اسیروں کے قافلے کی سردار جناب زینب سلام اللہ علیہا تھیں ۔ یزید پلید نے نماز کی توہین کی تھی تو اسلام کے پہلے نمازی امیرالمومنین علیہ السلام کی بیٹی اور جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی نواسی نے شام غریبان میں جلے ہوئے خیام کی راکھ کے مصلے پر نماز شب ادا کر کے نماز کی عظمت کو چار چاند لگا دیا ، مصیبتیں جتنی بھی پڑیں لیکن یہ مصیبتیں زینب ؑ کی عبادت میں خلل ایجاد نہ کر سکیں ۔ گیارہوں محرم کو جب آپؑ کی نظر بھائی کی لاش پر پڑی تو نفس مطمئنہ کی خواہر نے بارگاہ معبود میں ہاتھوں کو بلند کر کے فرمایا: خدا یا! ہماری قربانی کو قبول کر لے۔ ان تمام مصائب و آلام کو برداشت کرتے ہوئے جب بی بیؑ کوفہ پہونچی تو اہل کوفہ کو اپنے خطبے سے انکی بے وفائی کا احساس دلایا اور جب ابن زیاد کے دربار میں پہنچیں تو اس ملعون نے ایسا سوال کیا کہ اگر کوئی اور ہوتا تو عقیدہ توحید میں اس کے قدم لغزش کھا جاتے لیکن مولی الموحدین ؑ کی بیٹی نے ایسا جواب دیا کہ عقیدہ توحید کو جِلا مل گئی ‘‘میں نے خوبصورتی اور جمال کے سوا خدا کو نہیں پایا۔ ’’ اس جواب نے جہاں آل محمد علیہم السلام کی عظمت کو واضح کیا وہیں یزیدیت کے اسلام و انسانیت دشمن گمراہ کن اصلی چہرے کو بھی دنیا پر واضح کر دیا۔
جب اسیران حرم کوفہ سے شام پہنچے تو شام والے آل محمدؑ کو نہیں جانتے تھے ۔ چالیس برس تک ان لوگوں نے آل محمد ؑ کے خلاف ہی سنا تھا لیکن آج آل محمد ؑ اسیر بن کر ان کے سامنے تھے۔ اسیران کربلا خصوصاً امام سجاد علیہ السلام اور جناب زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے خطبوں سے یزیدیت کی بنیادیں ہلا دیں ، اسلام کی حقانیت اور اہلبیتؑ کی عظمت کو واضح کر دیا۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے خطبوں سے جہاں واقعہ کربلا کے مجرموں کو بے نقاب کیا وہیں خیانت کاروں کو بھی رسوا کیا کہ یزید اتنا مجبور ہو گیا کہ جس قتل حسینؑ پر وہ ابھی تک اپنی فتح کا جشن منا رہا تھا اب وہ خود اس قتل کا ذمہ دار ابن زیاد کو ٹھہرانے، بتانے لگا اور اہل حرم کی آزادی کا حکم دے دیا۔ اللہ اکبر فراست زینبی کہ شام سے جانے سے پہلے وہاں اپنے مظلوم بھائی کی فرش عزا بچھا کر جہاں عزاداری کی بنیاد رکھی وہیں اپنی فتح کا اعلان بھی کر دیا۔
شام سےآزاد ہو کر جب اہل حرم مدینہ کی جانب چلے تو جناب زینب سلام اللہ علیہا پورے قافلے کے ساتھ پہلے کربلا تشریف لے گئیں ۔ چہلم کے دن بھائی کے مزار پر پہنچی ، قبر حسین ؑ کی ایسی زیارت کی یہ زیارت اربعین زبان معصوم سے علامت مومن بن گئی۔ کربلا میں زیارت و عزاداری کے بعد مدینہ تشریف لائیں اور مدینہ میں اپنے بھائی کی عزاداری میں مصروف ہو گئیں ۔ مدینہ میں تھوڑا عرصہ ہی قیام رہا ، قید خانہ شام میں چھوٹ گئی بھائی کی یادگار و امانت کی یاد نے ستایا تو مدینہ نے پھر شام کی جانب روانہ ہوئیں اور وہیں اس دنیا سے 15 ؍ رجب کو رخصت ہو گئیں۔ شام میں آپؑ کا روضہ مبارک ہے جہاں سالانہ لاکھوں زائرین زیارت کے لئے جاتے ہیں ۔ دہشت گرد یزیدی گروہ داعش نے روضہ کو ختم کرنا چاہا لیکن اللہ والوں نے راہ خد امیں جہاد و قربانی سے روضہ کو بچایا اور داعش کو شکست قبول کرنے پر مجبور کیا۔