۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 390264
4 مئی 2023 - 22:46
امام جعفر صادق علیہ السلام

حوزہ/ ہمارے مولا امام جعفر صادق علیہ السلام نے چودہ سو سال پہلے دینی علوم ہوں یا عصری علوم ہوں، اپنے شاگردوں کو انکے ذوق اور ضرورت کے مطابق مربوط علم میں ماہر بنایا کہ کوئی حدیث کا ماہر ملا تو کوئی تفسیر کا، کوئی کلام کا ماہر ملا تو کوئی مناظرہ کا ،کسی نے کیمیا، فلکیات اور نجوم میں مہارت حاصل کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج ہمارے مدارس امام جعفر صادق علیہ السلام کے مدرسہ جیسے ہیں ؟

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | امام جعفر صادق علیہ السلام ہمارے چھٹے امام ہیں ، آپؑ کے والد ماجد باقر العلوم حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور والدہ ماجدہ جناب ام فروہ سلام اللہ علیہا تھیں ۔ جناب ام فروہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے جلیل القدر اور با وفا صحابی جناب محمدؓ بن ابی بکر کہ جنکو مولا نے اپنا خیر خواہ بیٹا کہا تھا ، کی پوتی تھیں اور مشہور تابعی، مدینہ منورہ کے معروف فقیہ اور امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کے صحابی اور مورد اعتماد جناب قاسم بن محمد کی بیٹی تھیں ، امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ کے سلسلہ میں فرمایا: ‘‘میری ماں با ایمان، باتقوی اور نیک خاتون تھیں اور اللہ نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ ’’ مسعودی کے مطابق آپؑ اپنے زمانے کی سب سے زیادہ پرہیزگار خاتون تھیں۔ جناب ام فروہ سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو ‘‘ابن المکرمہ’’ یعنی کریمہ خاتون کے فرزند کے عنوان سے یاد کیا گیا ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا نام جعفر، مشہور کنیت ابو عبداللہ اور القاب صادق، صابر، طاہر اور فاضل ہے اگر چہ آپؑ کا سب سے مشہور لقب صادق ہی ہے، روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپؑ کو لقب صادق سے یاد کیا ، اہل سنت امام جناب مالک ، جناب احمد بن حنبل اور جناب جاحظ نے بھی آپؑ کو صادق کے نام سے یاد کیا ہے۔

کتب تاریخ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی دو زوجہ جناب فاطمہ بنت الحسین اور جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا اور چار کنیزوں کا ذکر ملتا ہے۔ نیز آپؑ کے سات بیٹوں اور تین بیٹیوں کے نام مرقوم ہیں ۔ آپؑ کے سب سے بڑے فرزند اسماعیل تھے جو آپؑ کی حیات طیبہ میں ہی انتقال کر گئے لیکن اس کے باوجود آپؑ کی شہادت کے بعد کچھ لوگ انکی امامت کے قائل ہو گئے ، وہ لوگ اسماعیلی اور شش امامی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ دوسرے فرزند عبداللہ افطح تھے ، اپنے والد کی نافرمانی انکا شیوہ تھا اور آپؑ کی شہادت کے بعد انھوں نے امامت کا دعویٰ کیا اور ان کے ماننے والے فطحیہ کہلائے۔ تیسرے فرزند امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ، چوتھے اسحاق ؑ، پانچویں محمد دیباجؑ، چھٹے عباسؑ اور ساتویں علی بن جعفر تھے۔ اسحاق، محمد ، عباس اور علی علیہم السلام جلیل القدر اور صالح تھے ، وہ اپنے والد امام صادقؑ کے بعد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی امامت کے بھی قائل تھے۔ جناب علی بن جعفر ؑ نہ صرف اپنے بڑے بھائی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا بعنوان احترام کرتے بلکہ انھوں نے ساتویں امام ؑ کے بعد آٹھویں بلکہ نویں امام محمد تقی علیہ السلام کی امامت کا اقرار کیا اور بزرگی کے باوجود ان کا خاص احترام کرتے تھے جیسے ایک شیعہ کو اپنے امام کا احترام کرنا چاہئیے۔ جناب ام فروہ، جناب اسماء اور جناب فاطمہ آپؑ کی بیٹیاں تھیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام یوم ولادت با سعادت رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 17؍ ربیع الاول سن 83 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 15 یا 25 شوال سن 148 ہجری کو تقریبا 65 برس کی عمر میں زہر دغا سے مدینہ منورہ میں شہید ہوئے اور جنت البقیع میں اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔

گذشتہ گیارہ معصوم اماموں میں آپؑ نے سب سے زیادہ عمر پائی اس لئے آپؑ کو ‘‘شیخ الائمہ’’ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اپنی پاکیزہ عمر کے ابتدائی بارہ سال اپنے جد بزرگوار امام زین العابدین علیہ السلام کے زیرسایہ و تربیت بسر کئے ، اسکے بعد اپنے والد ماجد باقر العلوم امام محمد باقر علیہ السلام کے زیر سایہ زندگی بسر کی اور تاحیات ایک مطیع محض کی حیثیت سے انکی اطاعت کی اور بنی امیہ کے اس ظلم و ستم کے ماحول میں ہر محاذ پر اپنے والد کے ہمراہ نظر آئے چاہے وہ امت کی تعلیم و تربیت کا مرحلہ ہو یا شام کا سفر ہو۔

7؍ ذی الحجہ سن 114 ہجری میں جب امام محمد باقر علیہ السلام زہر دغا سے شہید ہوئے تو امامت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی آپؑ پر آئی۔ آپؑ کی امامت لوگوں کا چُناؤ نہیں بلکہ انتخاب پروردگار تھا کہ اللہ نے آپؑ کو اپنے بندوں پر اپنی حجت اور معصوم امام قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب اپنے جانشینوں کا تعارف کرایا تو آپؑ کا بھی نام ، کنیت حتیٰ لقب بھی بیان کیا ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے 34 سالہ دور امامت میں پانچ اموی حکّام ہشام بن عبدالملک ، ولید بن یزید بن عبدالملک، یزید بن ولید، ابراہیم بن ولید اور مروان بن محمد المعروف مروان حمار اور دو عبّاسی حاکم ابوالعبّاس عبداللہ بن محمد اور ابوجعفر منصور دوانقی نے حکومت کی ۔ اموی ہوں یا عباسی سب کے سب ظالم و ستمگر تھے ، اہلبیتؑ اور انکے چاہنے والوں اور شیعوں کے شدید دشمن تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم چاہے جتنا ہی بڑھ کیوں نہ جائے ، ایک نہ ایک دن اسے ختم ہونا ہی ہے اور ذلت و رسوائی ظالم کا مقدر بن جاتی ہے، وہ ظالم جو کل تک دوسروں پر عرصہ حیات تنگ کرتا نظر آتا تھا ایک دن وہ بھی آتا ہے کہ خود اس پر عرصہ حیات تنگ ہو جاتا ہے اور اس وسیع دنیا میں اسکے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔ بنی امیہ کے ظلم و ستم سے تاریخ کے اوراق سیاہ اور انسانیت شرمندہ ہے۔ آخر بنی امیہ کے بھی ظلم کا گھڑا بھر گیا اور بنی عباس ان کے خلاف میدان میں اتر آئے ، بنی امیہ کمزور ہوتے چلے گئے اور بنی عباس کا اقتدار مضبوط ہونے لگا، سن 132 ہجری میں بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور بنی عباس اقتدار و حکومت میں آگئے۔

اموی اور عباسی اختلاف میں جو چیز قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس جنگ میں نہ بنی امیہ کا ساتھ دیا اور نہ ہی بنی عباس کی حمایت کی۔ آپؑ جانتے تھے کہ یہ وہی بنی امیہ ہیں جنہوں نے امیرالمومنین علیہ السلام کو ان کے حق سے محروم کرنے میں مکمل حمایت کی تھی ، اہل بیتؑ کی دشمنی میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ ستّر ہزار منبروں سے برسوں امیر المومنین علیہ السلام پر سب و شتم ہوا، امیرالمومنین علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام ، امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام اور ان کے چاہنے والوں کو بنی امیہ نے ہی شہید کیا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچّے صحابی جناب ابوذر رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو بھی بنی امیہ نے ہی بھوکا و پیاسا شہید کیا تھا۔ امام عالی مقام جانتے تھے کہ جس طرح دنیا طلبی اور اقتدار و ثروت کی لالچ میں بنی امیہ نے اہل بیتؑ سے دشمنی کی ، بنی عباس بھی ان سےکچھ کم نہیں ہیں ۔ عبید اللہ بن عباس ہی تھے جو مال دنیا کی لالچ میں تاریکی شب میں فرمان نبویؐ کو نظر انداز کرتے ہوئے امام حسن علیہ السلام کے لشکر حق سے نکل کر لشکر باطل میں شامل ہو گئے اور مندرجہ آیت کا مصداق بن گئے تھے۔ ‘‘وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ’’ (سورہ بقرہ ، آیت 257)

‘‘اور کفار کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہی لوگ جہّنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔’’

ظاہر ہے امام جعفر صادق علیہ السلام امیرالمومنین علیہ السلام کے جانشین اور وارث تھے لہذا جس طرح مولا علیؑ نے اپنے حق کےغاصبوں اور دشمنوں سے مقابلے میں کسی باطل کی مدد قبول نہیں فرمائی اور یہ کہتے ہوئے اس کی امداد و حمایت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ تیرا اسلام سے کیا واسطہ ہے، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی اپنے اور اپنے آباء و اجداد کے دشمنوں اور قاتلوں یعنی بنی امیہ کے خلاف باطل بنی عباس کا ساتھ نہیں دیا اور موقع کو غنیمت جانتے ہوئے تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا اور مدرسہ قائم کیا، اگرچہ اس تعلیمی تحریک کے لئے بھی آپؑ کو طولانی موقع نہیں ملا بلکہ صرف دوسری صدی ہجری کی تیسری دہائی میں ہی آپؑ کو یہ موقع فراہم ہوا ، نہ اس سے پہلے حالات سازگار تھے اور نہ ہی اسکے بعد حالات ایسے رہے کہ آپؑ مدرسہ کو قائم رکھ سکیں ۔

لیکن اس مختصر مدت میں بھی آپؑ نے چار ہزار سے زیادہ تشنگان علوم کو سیراب کیا۔ آپؑ کے مدرسہ میں نہ صرف شیعہ آتے تھے بلکہ ہر مذہب و ملت کے لئے آپؑ کے مدرسہ کا دروازہ کھلا تھا۔ روایات کے مطابق شیعہ ہوں یا سنّی ، ضروریات دین کا اقرار کرنے والا ہو یا انکار کرنے والا سب کو اجازت تھی کہ جس کو بھی علم سیکھنا ہو وہ آ سکتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال یہی ہے کہ آج ہمارا شیعہ مذہب عقائد ہوں یا اخلاق و احکام، تفسیر ہو یا حدیث ہر لحاظ سے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مرہون منت ہے، اسی طرح مذہب اہل سنت بھی آپؑ کے زیر کرم ہے کیوں کہ ان کے چاروں فقہی اماموں نے بلا واسطہ یا با واسطہ آپؑ ہی سے کسب فیض کیا ہے۔

آج دنیا نے تعلیمی میدان میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ مہارت کے حوالے سے علوم تقسیم ہو چکے ہیں ،جیسے عصری علوم میں کہیں میڈکل کا ماہر بنایا جاتا ہے تو کہیں انجینیئرنگ کا ، کہیں سیاست کا ماہر بنایا جاتا ہے تو کہیں اقتصاد کا ، وغیرہ وغیرہ، اسی طرح دینی علوم میں اگر ہم حوزات علمیہ قم مقدس اور نجف اشرف میں دیکھیں تو کوئی مدرسہ ادبیات سے مخصوص ہے تو کوئی مدرسہ تفسیر یا حدیث سے تو کوئی فلسفہ سے تو کوئی کلام سے۔ ہمارے مولا امام جعفر صادق علیہ السلام نے چودہ سو سال پہلے دینی علوم ہوں یا عصری علوم ہوں، اپنے شاگردوں کو انکے ذوق اور ضرورت کے مطابق مربوط علم میں ماہر بنایا کہ کوئی حدیث کا ماہر ملا تو کوئی تفسیر کا، کوئی کلام کا ماہر ملا تو کوئی مناظرہ کا ،کسی نے کیمیا، فلکیات اور نجوم میں مہارت حاصل کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج ہمارے مدارس امام جعفر صادق علیہ السلام کے مدرسہ جیسے ہیں ؟ بہر حال یہ قابل غور نکتہ ہے جس پر سب کو عموماً اور ذمہ داران کو خصوصاً توجہ دینی ہو گی تا کہ جب ہم روز محشر شفاعت کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تو شرمندہ نہ ہوں۔امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے مختلف جوانب سے مشکلات تھیں ، ایک جانب حکومت چاہے اموی ہوں یا عباسی وہ آپؑ کے دشمن تھے، مسلمانوں کا وہ طبقہ جو بعد رسولؐ سے اہلبیتؑ سے دور رہا وہ بھی آپؑ کا مخالف تھا، منکرین خدا، یہود و نصاری، اسی طرح غالی بھی تھے جو ظاہراً آپؑ سے محبت کا دعویٰ کرتے تھے لیکن وہ آپؑ کے خدا کے منکر تھے لہذا وہ بھی آپؑ کے دشمن ہی تھے۔ ان تمام بیرونی مخالفین کے علاوہ خود بنی ہاشم کے بعض افراد بھی نادانی یا دنیوی لالچ کے سبب آپؑ کی مخالفت میں دوسروں سے پیچھے نہیں تھے۔ایسے پر مشقت و محن حالات میں بھی آپؑ نے اپنے چاہنے والوں کو ایسی تربیت فرمائی کہ اگر ان پر کوئی عمل کر لے تو حالات چاہے جتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں اس کے باوجود وہ مشکلات میں جینے کا نہ صرف ہنر جانتا ہوگا بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کرے گا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے بتایا کہ منصب امامت اللہ کا دیا منصب ہے اس میں کسی بندے کو کوئی اختیار نہیں ہے لہذا ایک شیعہ کو امامؑ کی ویسے ہی بغیر چوں و چرا اطاعت کرنی چاہئیے جیسے وہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرتا ہے۔ حکم امامؑ کے سامنے سر تسلیم خم ہو جانا ہی حقیقی شیعہ ہونے کی دلیل ہے جیسے جناب ہارون مکّی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اطاعت کی۔

خدایا: مجھے اپنی ، اپنے رسول ؐ اور اپنی حجت کی معرفت عطا فرما۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .