۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا علی ہاشم عابدی

حوزہ/ کسی بھی حرام اور بے دینی میں اللہ نے نہ شفا رکھی ہے اور نہ ہی اس میں فائدہ ہے چاہے شے ہو یا شخص، کسی بھی برے انسان کے ذریعہ نیک کام انجام نہیں پا سکتا، ممکن ہے وقتی فائدہ ہو جائے لیکن یہی فائدہ کسی عظیم نقصان کا پیش خیمہ ہو گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو/ ادیب الہندی سوسائٹی لکھنو کی جانب سے وبائی دور میں گذر جانے والے مخلص علماء ، فرض شناس دانشوران، خدمت گذار اطباء، ذمہ دار صحافیوں، دین و مذہب اور ملک و ملت کی بے لوث دینی، تعلیمی، فلاحی اور قومی خدمات انجام دینے والوں اور جملہ مومنین و مومنات کے علو درجات کی خاطر بعنوان یاد رفتگان آن لائن مجلس حسینؑ منعقد ہوئی۔ 

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث "مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تمہارے جوانوں کو دو حال کے علاوہ دیکھوں، یا وہ اہل علم ہوں یا طالب علم ہوں" کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا جن شخصیات کی یاد میں یہ مجلس منعقد ہوئی ہے انھوں نے خلق خدا کی بے لوث خدمت کی، علم حاصل کیا اور ملک و ملت کی دینی، تعلیمی، سماجی، سیاسی، صحافتی اور فلاحی خدمت انجام دیں۔

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ "امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی عبداللہ بن ابی یعفور کی طبیعت ناساز ہوئی تو ڈاکٹر نے انکے لئے شراب تجویز کی، تکلیف بڑھی تو گھر والوں نے زبردستی تھوڑی شراب پلا دی جس سے وقتی سکون ملا لیکن پھر تکلیف بڑھ گئی تو انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ہرگز شراب نہ پینا وقتی آرام شیطانی وسوسہ ہے کیوں کہ اللہ نے کسی بھی حرام میں شفا نہیں رکھی ہے۔" مولانا نے کہا کہ کسی بھی حرام اور بے دینی میں اللہ نے نہ شفا رکھی ہے اور نہ ہی اس میں فائدہ ہے چاہے شے ہو یا شخص، کسی بھی برے انسان کے ذریعہ نیک کام انجام نہیں پا سکتا، ممکن ہے وقتی فائدہ ہو جائے لیکن یہی فائدہ کسی عظیم نقصان کا پیش خیمہ ہو گا۔ نہ امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے حق کے لئے باطل کی مدد قبول کی اور نہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے دیرینہ دشمن بنی امیہ سے بدلہ لینے کے لئے بنی عباس کا ساتھ دیا۔

بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت نے اہلبیت علیہم السلام کے بغض میں درباری عالم کو فقہ کی کتاب لکھنے کا حکم دیا تا کہ پوری مملکت میں وہی کتاب رائج کرے لیکن یہ شرط بھی لگا دی کہ کتاب میں کوئی روایت مولا علی علیہ السلام کی نہ ہو، کتاب لکھی گئی، حکومت نے رائج بھی کی لیکن حکومتی فقہ اہل بیت علیہم السلام کی فقہ جو حقیقی اسلامی فقہ ہے اس کا مقابلہ نہ کر سکی، اسے ختم نہ کر سکی، اسے مٹا نہ سکی کیوں کہ فقہ اہلبیت علیہم السلام کا محافظ اللہ ہے حکومت نہیں ہے تو اگر آج قرآن کریم کے مقابلہ میں دشمن کے اشاروں پر نیا قرآن پیش کیا گیا تو وہ بھی حقیقی قرآن کو ختم نہیں کر سکتا، کیوں کہ قرآن کا محافظ بھی اللہ ہے، اور جدید قرآن کے ساتھ "اصلی" کی تاکید بتا رہی ہے کہ یہ اصل سے ہٹ کر ہے۔

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ جب بنی امیہ اور بنی عباس آپس میں بر سر پیکار تھے تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے موقع کو غنیمت سمجھا اور امت کی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا، چار ہزار سے زیادہ افراد آپ کے درس میں شریک ہوتے، امام جعفر صادق علیہ السلام نے جہاں دینی تعلیم دے کر زرارہ اور ہشام بن حکم جیسے علماء تربیت فرمائے وہیں عصری تعلیم دے کر جابر بن حیان جیسے دانشور تربیت کئے اور رہتی دنیا کے لئے واضح کر دیا کہ ہر وہ تعلیم جو انسان کے دنیا و آخرت میں مفید ہو وہ اسلامی تعلیم ہے۔

اللہ نے حرام میں شفا نہیں رکھی، مولانا سید علی ہاشم عابدی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .