۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ امام عصر علیہ السلام کے ناصر و مدد گار مؤمنین یہ مقصد ہونا چاہئے کہ ایسا معاشرہ وجود میں آئے جس میں خیر اور نیکی کو خوب پنپنے کا موقع ملے اور جب لوگ کسی چیز کو چاہیں تو کہیں "کن" تو وہ "فیکون" کی منزل پر فائز ہوجائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے معروف محقق و مؤلف اور اہلِ بیت فاؤنڈیشن کے نائب صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یقیناً دعا انبیاء کرام کا اسلحہ، مؤمنین کے لئے سِپر اور خالق و مخلوق کے درمیان تعلقات استوار کرنے کا بہترین وسیلہ ہے. مگر! اس اضطراب و التہاب اور بحران کی گھڑی میں صرف دعا کرنا کافی نہیں،سب کو اپنی دینی، قومی اور سماجی ذمہ داریاں نبھانی اور منجی عالم بشریت، امام عصر علیہ السلام کے ظہور اور ایک صالح معاشرے (مھدوی سماج) کی زمینہ سازی میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔

ظہور امام مہدی علیہ السلام کے لئے  پانچ وقت کی نماز کے بعد روٹین کی طرح دعا مانگ لینا کافی نہیں ہے بلکہ اپنے گھر، خاندان، ملک اور سماج کو مھدوی ثقافت اور مھدوی سماج کے صفات سے متصف کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔

اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فقط ہماری دعا ہی سے امام کا ظہور ممکن ہے تو اب تک امام کا ظہور ہوگیا ہوتا! امام کا ظہور ایک صالح معاشرے کی امید اور انسانی تکریم کے زیور سے مزین سماج کا متمنی ہے اس کو پورا کئے بغیر تعجیل فرج کا تصور کرنا خود کو فریب دینا ہے! 

مہمان کے بلانے کے بھی کچھ آداب مقرر ہیں اگر ہم اس آداب کو بلائے طاق رکھ کر صرف جانمازوں پر دعائیں کرتے رہیں تو بلائے ہوئے مہمان کا حق ادا نہیں ہوگا بلکہ اپنے مہمان کو بلانے سے قبل گھر و علاقے اور سماج کے گوشے گوشے اور نہاں خانہ دل میں موجود ہر طرح کی آلائشوں کو صاف کرنا ہوگا کیونکہ ہماری روز مرہ کے چلن میں ہے کہ مہمان جتنا معزز و مکرم ہوتا ہے اس کی قدر و منزلت اور تکریم بھی اسی حساب سے ہوتی ہے۔

لہٰذا امام عصر علیہ السلام کی والہانہ استقبال، آپ کی تکریم و تعظیم کے اعزاز میں میں اپنی فردی و اجتماعی زندگی کو قرآن و اہل بیت کی تعلیمات کے مطابق گزاریں اور امام کی معرفت کے ساتھ ساتھ آپ کی سیرت و صفات سے بھی آگہی حاصل کریں اس لئے کہ معرفت امام ،امام کے چاہنے والوں کی عادات و اطوار اور رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے 

جادۂ انتظار کو طے کرنا، امام منتظَر کی معرفت و شناخت کے بغیر، ممکن نہیں ہے۔

 انتظار کی وادی میں استقامت اور پامردی پیشوائے موعود(عج) کے صحیح ادراک پر منحصر ہے؛ چنانچہ امام کی نام و نسب کی شناخت کے علاوہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امام کے اصل مقام و مرتبے سے آگہی حاصل کی جائے۔

امام مہدی علیہ السلام کا منتظر دنیا کی تمام مخلوقات کی تمام خوبیوں کو اپنے وجود میں پروان چڑھاتا ہے۔

منتظر انتظار کے زیر اثر اعلی منزلت کا حامل بن جاتا ہے؛ اور یہ منزلت اتنی اونچی ہے کہ انسان کو اولیاء اللہ، خاتم الانبیاء(ص) اور خاتم الاصیاء(عج) کی صف میں کھڑا کردیتی ہے اور بدر اور احد کے شہداء کے زمرے میں قرار دیتی ہے اور وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے اپنی پوری زندگی روزہ داری اور تہجد کی حالت میں گذاری ہو۔

عمل سے دور صرف دعا پر اکتفا کرنے والے لوگوں کے پاس محض دعوی ہے وہ حقیقت میں امام کے ظہور کے مدعی نہیں ہیں...اگر دعا کے ساتھ عمل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے پر مشقت کرتے تو شاید اس سے ان کے ادعا کی تائید ہوتی... اور ظہور کا زمینہ ہموار ہوجاتا۔

محبت و معرفت کا وہ دعوٰی کسی کام نہیں جس میں اتباع نہ ہو!
 وہی دعا و فریاد، وہی اشک فراق اور صرف وہی معرفت کافی و شافی ہے جو نمونۂ عمل لینے اور اقتدا کرنے پر منتج ہو؛ جیسا کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "خوش بختی اور نیک نصیبی ہے اس شخص کے لئے جو ہمارے خاندان کے قائم کا ادراک کرلے؛ جبکہ قائم سے پہلے کے ادوار میں ان پر اور ان سے پہلے کے ائمہ کی اقتدا کرچکا ہو اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار و اعلان کرچکا ہو۔ وہ میرے دوست اور ہمراہ ہیں اور میرے نزدیک میری امت کے گرامی ترین افراد ہیں"۔
 شیعہ ،پیرویے اہل بیت اور انتظار امام کا دعوی کافی نہیں ہےبلکہ اقتدا ضروری ہے۔ اقتدا کا راستہ تزکیۂ نفس ہے اور عمل میں اخلاص کا کردار بہت اہم ہے۔

 بہر حال! اس ہنگامی اور اضطراری حالت میں اگر صحیح معنوں میں ہم امام عصر علیہ السلام کے ظہور کے منتظر ہیں تو ہم جہاں بھی ہوں ہمیں زمانے غیبت میں اپنی ذمے داریوں کا احساس ہونا ضروری ہے لہذا خالی دعا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اپنے اعمال سے کام لینا بھی ضروری ہے! اور یہی امام عصر علیہ السلام اور ان کے ناصر و مدد گار مؤمنین کا بھی مقصد ہے کہ ایسا معاشرہ وجود میں آئے جس میں خیر اور نیکی کو خوب پنپنے کا موقع ملے اور جب لوگ کسی چیز کو چاہیں تو کہیں "کن" تو وہ "فیکون" کی منزل پر فائز ہوجائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .