۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ ہمیں حق نہیں کہ انکی تعلیم کردہ دعاوں میں اپنی مرضی چلائیں۔  اللہ سے دعا کی جاتی ہے تو وہ حاجت پوری کرتا ہے، پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ نہ کہ چند لوگوں کو بھیجا جائے کہ اس سے نہ کوئی نعمت ملے گی اور نہ کسی پریشانی سے نجات ملے گی۔ معصومین علیہم السلام نے اللہ سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ دعائیہ میسج کے بھیجنے اور شیئر کرنے کا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو/ مسجد کالا امام باڑہ پیر بخارہ میں شب جمعہ مجلس عزا منعقد ہوئی۔ مولانا سید علی ہاشم عابدی امام جماعت مسجد کالا امام باڑہ نے سورہ مومن کی 60 نمبر آیت "اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔" کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے فرمایا: روایات کے مطابق دعا مومن کا اسلحہ ہے۔ ہمیں ہر وقت اپنے معبود سے دعا کرنی چاہئیے خاص کر دور حاضر میں جب ایک جانب کرونا کی تیسری لہر کی خبریں ہر جانب گردش کر رہی ہیں اور دوسری جانب عالمی سامراج انسانیت کے درپے ہے تو اس سلسلہ میں ہمیں مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آیہ کریمہ سے صاف واضح ہے کہ دعا صرف خدا سے کی جائے اپنی حاجتیں اسی خالق، رازق اور مسبب الاسباب سے کی جائے اور جن ذوات مقدس کو اس نے خود تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا یعنی اہلبیت علیہم السلام انہیں کے وسیلہ سے خدا سے دعا کی جائے۔

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے دعائے کمیل کے فقرات "خدایا! بخش دے میرے لئے ان گناہوں کو جو میری حرمت کی پردہ دری کرتے ہیں؛ اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان گناہوں کو جو بدبختياں نازل کرتی ہیں؛ اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان گناہوں کو نعمتوں کو دگرگوں کردیتے ہیں؛ اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان گناہوں کو دعا کو (تیری بارگاہ تک پہنچنے سے) باز رکھتے ہیں؛ اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان گاہوں کو جو بلاؤں کو اتار دیتے ہیں، اے اللہ! بخش دے میرے لئے ان تمام گناہوں کو جن کا میں مرتکب ہوا اور تمام خطاؤں کو جن سے میں آلودہ ہوا۔" کو ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ وہی دعائے خضر ہے جسے مولائے کائنات امام علی علیہ السلام نے اپنے جلیل القدر صحابی جناب کمیل کو تعلیم فرمائی۔ یہ دعا انسانی تربیت کا بہترین نصاب ہے اس میں جہاں اللہ کی ربوبیت، اس کی قدرت اور علم وغیرہ کا تذکرہ ہے جس سے انسان کا ایمان قوی ہوتا ہے وہیں ان میں انسان کی مجبوریوں، لاچاریوں اور گناہوں کا ذکر ہے جو ہماری تربیت میں مددگار ہیں۔

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ قرآن کریم میں جہاں عقائد، احکام اور اخلاق کا ذکر ہے وہیں دعاوں کا ذکر ہے۔ اسی طرح اہلبیت علیہم السلام نے بھی جہاں عقائد، احکام اور اخلاق کی تعلیم دی وہیں دعائیں بھی تعلیم دیں۔ لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ اس کے باوجود کہ ہمارے پاس دعاوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے لیکن ہم اسے چھوڑ کر غیروں کے بنائی دعاوں میں مصروف ہیں۔ آئے دن نئی نئی دعائیں، ورد اور اعمال مشاہدے میں آتے ہیں جنکی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی حیثیت۔ معصومین علیہم السلام نے جہاں دعا تعلیم کی وہیں اس کے آداب و اوقات بھی بتائے مثلا با وضو دعا کریں، قبلہ رخ ہو کر اللہ سے مانگیں وغیرہ۔ جن پر ہمیں عمل کرنا چاہئیے۔ اگر ہم معصوم کی تعلیم کردہ دعا پڑھ رہے ہیں تو معصوم نے جو کہا ہے وہی کہیں اور جتنا کہا ہے اتنا ہی کہیں نہ کہ کوئی فقرہ اچھا لگ گیا تو اس کی کئی بار تکرار کر دیں۔ یا جہاں مفرد استعمال کیا ہے وہاں جمع لے آئیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ کیوں کہ جہاں معصوم نے بہتر جانا وہاں تکرار بھی کی ہے جیسے اسی دعائے کمیل میں "یاربِّ" کی تکرار ہے۔ ہمیں حق نہیں کہ انکی تعلیم کردہ دعاوں میں اپنی مرضی چلائیں۔ اللہ سے دعا کی جاتی ہے تو وہ حاجت پوری کرتا ہے، پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ نہ کہ چند لوگوں کو بھیجا جائے کہ اس سے نہ کوئی نعمت ملے گی اور نہ کسی پریشانی سے نجات ملے گی۔ معصومین علیہم السلام نے اللہ سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ دعائیہ میسج کے بھیجنے اور شیئر کرنے کا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .