تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزه نیوز ایجنسی| اللہ کی اطاعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت و اتباع اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی اطاعت و پیروی رہبر کبیر انقلاب حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سیدروح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کا امتیاز ہے۔ آپ کو اہلبیت علیہم السلام سے بے انتہاء محبت و مودت تھی ، عشق علی ؑ کا یہ عالم تھا کہ جتنے دن نجف اشرف میں رہے کبھی مولاؑ کی زیارت قضا نہیں ہوئی ، آندھی ہو یا طوفان اپنے مولا کے روضہ پر پہنچ جاتے اور زیارت جامعہ کبیرہ پڑھتے، عراق میں دوران قیام ہر شب جمعہ مظلوم کربلا کی زیارت کے لئے نجف اشرف سے کربلا تشریف لے جاتے، جتنے دن بھی قم میں رہے روز انہ کریمہ اہل بیتؑ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے لئے روضہ مبارک پر حاضر ہوئے ۔ جہاں روز انہ ایک پارہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے وہیں زیارت عاشورا بھی پڑھتے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ انقلاب سے قبل قم مقدس میں دوران قیام روضہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا میں مسجد بالا سر اور مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی رحمۃ اللہ علیہ اللہ کے بیت الشرف پر جو مجالس عزا منعقد ہوتی تھیں ان میں آپ پابندی سے شرکت کرتے اور انتہائے وقار و سکون سے مجلس میں تشریف رکھتے اور سماعت فرماتے۔
منقول ہے کہ جس زمانے میں پہلوی طاغوت نے ایران میں مظلوم کربلا کی عزاداری پر پابندی لگا دی تھی ، شب عاشور آپ آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ تھے ، کبھی وہ مصائب بیان کرتے آپ گریہ کرتے ، کبھی آپ مصائب بیان کرتے وہ گریہ کرتے اور یہ سلسلہ پوری شب جاری رہا۔
عراق میں دوران قیام نجف اشرف میں ہوں یا کربلا معلیٰ میں مجالس عزا کو خاص اہمیت دیتے اور ایک عام عزادار کی طرح شرکت کرتے تھے۔ بڑی سے بڑی مصیبتوں اور مشکلات پر مسکرا نے والے امام خمینی ؒ کے سامنے جیسے ہی مصائب اہل بیت بیان ہوتا آپ ایسا بے قرار ہو کر گریہ فرماتے کہ بعض اوقات ذاکر آپ کی حالت دیکھ کر مجلس کو تمام کر دیتا ۔
کیا کہنا اس عزادار حسین ؑ کا کہ اپنے جوان بیٹے آیۃ اللہ مصطفیٰ خمینی ؒ کی شہادت پر نہیں روئے بلکہ اسے لطف الٰہی سمجھا لیکن جیسے ہی ذاکر نے امام حسین علیہ السلام کے جوان حضرت علی اکبر علیہ السلام کے مصائب بیان کرنا شروع کیا تو ایسا گریہ کیا کہ ذاکر نے یہ سوچ کر جلدی ہی مجلس ختم کر دی کہ کہیں آپ کی طبیعت بگڑ نہ جائے۔
آیۃ اللہ العظمٰی خمینی ؒ کو امام حسین علیہ السلام سے عشق تھا ، مجلس حسین ؑ برپا کرتے تھے، مجلس حسین ؑ میں شرکت کرتے تھے ، تبرکات کا احترام کرتے ، دور حاضر کے عظیم عالم و محقق آیۃ اللہ نجمالدین مروجی طبسی دام ظلہ کا بیان ہے کہ نجف اشرف میں ہم امام خمینی قدس سرہ کے پڑوسی تھے ، میرے گھر میں جب بھی نذر و تبرک کا کھانا پکتا تو امام خمینی قدس سرہ کے گھر بھیجا جاتا ، جب بھی ہم نذر و تبرک لے کر آپ کے گھر پر حاضر ہوئے تو آپ نے مسکرا کر استقبال کیا ، اسے لیا اور خوش ہوئے۔
پیرس میں بھی دوران قیام عزاداری اسی خلوص اور شان و شوکت سے انجام دی، شب عاشور نماز مغربین با جماعت کے بعد سوال کیا کہ کیا کوئی مصائب پڑھنے والا نہیں ہے؟ پھر وہاں موجود لوگوں میں سے ایک شخص کو حکم دیا کہ مصائب پڑھو اور اپنی جیب سے رومال نکالا اور بیٹھ گئے اور مصائب سنا اور گریہ و ماتم فرمایا، مجلس کے بعد فرمایا کہ کل روز عاشور یہاں مجلس ہو گی اور حکم دیا کہ عزاداروں کے لئے تبرک میں کھانے کا اہتمام کیا جائے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد قم مقدس میں رہے ہوں یا تہران میں ہمیشہ عزاداری کو خاص اہمیت دی ، فرش عزا پر ایک عام عزادار کی طرح تشریف فرما ہوتے اور ذاکر کے بیان کو غور سے سنتے ، آپ ایسے ذاکروں کو قطعاً پسند نہیں کرتے تھے جو منبر سے قرآن و سنت کے علاوہ کچھ اور بیان کرے چاہے وہ خود آپ کی تعریف ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔ بلکہ ان کو مختلف انداز سے متوجہ بھی فرماتے تھے۔
سماج میں رائج مجالس عزا کے قائل تھے اور اسی کی تاکید فرماتے تھے، ایران عراق جنگ کے بعد جب آپ سے پوچھا گیا کہ اس آٹھ سالہ جنگ میں کافی لوگ شہید ہو گئے ہیں اور شہداء کے خانوادے مستحق اور قابل امداد ہیں اور مجالس عزا کا سلسلہ بھی ہے تو ہماری اس سلسلہ میں کیا ذمہ داری ہے کہ ہم شہداء کے خانوادے کی امداد کریں یا مجالس عزا پر توجہ دیں تو آپ نے فرمایا : مجالس عزا جس طرح منعقد ہوتی ہیں وہ اسی طرح منعقد ہوں۔
سلام ہو آپ پر ائے امام حسین علیہ السلام کے سچے پیروکار!
سلام ہو آپ پر ائے مظلوم کربلا کے سچّے عزادار!
سلام ہو آپ پر ائے دور حاضر میں راہ حسینی کے علمبردار!
سلام ہو آپ پر ائے اسلام کے حقیقی مبلغ!
سلام ہو آپ پر ائے امت اسلامیہ کے دلسوز معلم و مربی!
سلام ہو آپ پر ائے دنیا بھر کے مظلوموں اور کمزوروں کے ہمدرد و حامی!
علی الاعلیٰ خدا کی بارگاہ میں آپ کے علوئے درجات کی دعا ہے۔