۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حضرت زید شہید

حوزہ/ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ظالم و جابر حکومتوں کے خلاف کئی قیام ہوئے اور تحریکیں چلیں جنمیں سے کچھ قیام کی معصومین علیہم السلام نے تائید کی اور کچھ تحریکوں کی تائید نہیں کی۔ جن قیام کی تائید فرمائی ہے ان میں سے ایک کوفہ میں امویوں کے خلاف جناب زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا قیام ہے اور فخ (مکہ) میں عباسیوں کے خلاف شہید فخ جناب حسین بن علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا قیام ہے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ظالم و جابر حکومتوں کے خلاف کئی قیام ہوئے اور تحریکیں چلیں جنمیں سے کچھ قیام کی معصومین علیہم السلام نے تائید کی اور کچھ تحریکوں کی تائید نہیں کی۔ جن قیام کی تائید فرمائی ہے ان میں سے ایک کوفہ میں امویوں کے خلاف جناب زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا قیام ہے اور فخ (مکہ) میں عباسیوں کے خلاف شہید فخ جناب حسین بن علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا قیام ہے۔

جناب زید کے والدین

جناب زید کے والد ماجد آدم آل محمد، ناشر پیغام کربلا، محافظ و مبلغ مقصد شہادت سید الشہداء، زین العابدین، سید الساجدین حضرت امام علی بن الحسین علیہ السلام تھے اور آپ کی والدہ کنیز ، با عظمت اور با کردار خاتون تھیں جو امام علیہ السلام اور امام زادگان کے نزدیک محترم و مکرم تھیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام کا خواب

اس سے قبل کہ وہ با عظمت خاتون امام زین العابدین علیہ السلام کی کنیزی میں آتیں آپؑ نے ایک خواب دیکھا جسے اپنے صحابی و شاگرد جناب ابوحمزہ ثمالی رحمۃ اللہ علیہ سے یوں بیان کیا۔

اے ابو حمزہ: کیا تمہیں اس خواب کے بارے میں نہ بتاوں جو میں نے دیکھا ہے؟ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوا، جہاں میرے لئے ایک ایسی حور لائی گئی کہ اس سے پہلے ایسی حور نہیں دیکھی تھی، اسی وقت منادی نے ندا دی۔ اے علی بن الحسینؑ آپ کو زیدؒ مبارک ہو، اے علی بن الحسینؑ آپ کو زید ؒمبارک ہو۔

ابو حمزہ کا بیان ہے کہ دوسرے سال جب میں فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو آپ کی آغوش میں آپ کے فرزند زید کو دیکھا۔ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: اے ابوحمزہ: یہ اسی خواب کی تاویل و تعبیر ہے جو میں نے دیکھا تھا۔ (امالی صدوق، صفحہ٢٩٩؛ ، بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ١٧٠)

جناب مختارؒ کا تحفہ

ابوالفرج اصفہانی سے روایت ہے کہ جناب زید شہیدؒ کی والدہ ماجدہ ایک کنیز تھیں جنہیں جناب مختار رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے کوفہ سے امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تھا۔ زیاد بن منذر کہتے ہیں کہ جناب مختار بن ابی عبید نے تیس ہزار درہم کی ایک کنیز خریدی۔ اس سے کہا آگے جاو تو وہ چلی گئی، پھر کہا واپس آؤ تو وہ واپس آگئی۔ جناب مختارؒ نےفرمایا امام زین العابدین علیہ السلام سے زیادہ کوئی اس کنیز کا اہل نہیں اور اس کنیز کو امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں بھیج دیا جو جناب زیدؒ کی والدہ ہوئیں۔ (مقاتل الطالبین، صفحہ١٢٧)

(اگر ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث "اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کو خلق کیا اور اسے حکم دیا کہ جاو تو چلی گئی، حکم دیا واپس آو تو واپس آ گئی تو خدا وند عالم نے عقل سے فرمایا میں نے تجھے اپنی عظیم مخلوق قرار دیا اور تجھے تمام مخلوقات پر کرامت و فضیلت عطا کی۔ اور جب جہل کو خلق کیا تو اسے حکم دیا جاو تو چلا گیا، حکم دیا کہ واپس آو تو وہ واپس نہیں آیا تو اللہ نے فرمایا تو نے تکبر کیا، غرور کیا تجھ پر لعنت ہے۔" (کافی، جلد ۱، صفحہ ۲۱) کی روشنی میں مذکورہ روایت پر غور کریں تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا کہ جناب زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ گرامی عقیلہ، با عظمت اور صاحب کرامت بی بی تھیں۔)

دوسری روایت میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا نماز صبح کے بعد کسی نے دق الباب کیا تو میں دروازے پر پہنچا تو وہاں ایک شخص کو دیکھا جو اپنی آستین موڑے ہوئے تھا اور اس کے ساتھ ایک کنیز تھی، میں نے پوچھا کون ہو؟ جواب دیا کہ مجھے امام علی بن الحسین علیہ السلام سے ملنا ہے۔ میں نے کہا کہ میں ہی علی بن الحسینؑ ہوں۔ اس نے کہا کہ میں مختار بن ابی عبید ثقفی ؒکا نمایندہ ہوں انہوں نے آپ کو سلام کہلایا ہے اور آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ میں نے یہ کنیز چھ سو دینار کی خریدی ہے، مزید یہ چھ سو دینار آپؑ کی خدمت میں پیش ہے اور یہ خط دیا ہے۔ امام ؑ فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص اور کنیز کو گھر میں بلایا اور خط کا جواب لکھ کر اس کے سپرد کیا۔ میں نے کنیز سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے اس نے بتایا حوراءہے۔ میں نے اس سے شادی کی جس سے اللہ نے مجھے یہ فرزند عطا کیا ہے جس کا نام میں نے زید رکھا ہے۔ (بحارالانوار، جلد ۴۶، صفحہ ١٨٣)

ولادت با سعادت

اگرچہ تاریخ میں جناب زیدؒ کی ولادت کی تاریخ اور سن بطور واضح بیان نہیں ہوا ہے لیکن شہادت کے وقت انکی عمر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس سن میں پیدا ہوئےتھے۔ کیوں کہ آپ کی شہادت ۱۲۰ یا ۱۲۱ ہجری میں ہوئی۔ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے شہادت کے ہنگام آپ کی عمر ۴۲سال لکھی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سن ۷۸ہجری میں آپ کی ولادت ہوئی (الارشاد، ص٣٨۶.)

جناب ابن ادریس حلی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض راویوں کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت تھی کہ آپ نماز صبح کے بعد کسی سے گفتگو نہیں فرماتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا تھا۔ ایک دن آپؑ کو جناب زید کی ولادت کی خوشخبری سنائی گئی تو آپؑ نے اپنے اصحاب سے ہوچھا اس بچہ کا کیا نام رکھوں۔ سب نے ایک ایک نام تجویز کیا تو امام سجاد علیہ السلام نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ قرآن کریم لاو، جب قرآن کریم لایا گیا تو آپ نے اپنے دست ہائے مبارک میں قرآن کریم لیا اور کھولا تو آیت آئی ’’وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا‘‘ (سورہ نساء، آیت۹۵) امام عالی مقام نے قرآن کریم کو بند کر کے دوبارہ کھولا تو آیت آئی۔’’إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ‘‘(سورہ توبہ، آیت 111) تو آپؑ نے مکرر فرمایا: خدا کی قسم یہ وہی بچہ ہے جس کا نام زید ہے۔ (مستطرفات السرایر، صفحہ ۶٣٨)

(یہاں اس نکتہ کی جانب اشارہ کرنا مناسب ہے کہ قرآن کریم سے جب بچوں کا نام نکالا جائے تو حروف نہیں بلکہ مفہوم کو پیش نظر رکھا جائے۔)

جناب زید ؑکی شخصیت

جناب زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں لہذا ہم ذیل میں ان روایات کو نقل کریں گے جو معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔

جناب حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زید بن حارثہ کو دیکھا تو انکی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: راہ خدا میں شہید ہونےوالا، میری امت میں جسے سولی دی جائے گی، میرے اہلبیتؑ میں سے ایک مظلوم شخصیت جو ان کا ہم نام ہوگا، اس کے بعد حضور ؐنے فرمایا: ائے زید (بن حارثہ)! میرے قریب آو، تمہارے نام کے سبب تم سے محبت زیادہ ہو گئی ہے۔ تم میرے اہلبیتؑ میں میرے ایک محبوب کے ہم نام ہو۔(بحارالانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۱۹۲)

امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے آبائے طاہرین سے روایت فرمائی کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام سے فرمایا: اے حسینؑ! تمہاری نسل میں ایک شخص پیدا ہو گا جس کا نام زیدؒ ہو گا۔ وہ اور اسکے اصحاب روز قیامت صراط سے اس طرح گذریں گے کہ انکی پیشانیاں روشن و منور ہوں گی اور بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ (بحارالانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۱۷۰)

سید بن طاووس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’ فرحۃ الغری ‘‘میں ثمالی سے روایت نقل فرمائی کہ میں ہر سال ایام حج میں امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، ایک سال جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کی آغوش میں ایک بچہ ہے، اسی وقت دروازے سے ایک دوسرا بچہ حجرہ میں داخل ہوا اور زمین پر گرا اوراس کا سر زخمی ہوگیا۔ امام سجاد علیہ السلام فورا اپنی جگہ سے اٹھے اور کرتے کے دامن سے اس کے خون کو صاف کرنے لگے اور فرمایا: نور نظر! تجھے خدا کی پناہ میں دیتا ہوں تجھے کناسہ میں سولی دی جائے گی۔ عرض کیا: آپؑ پر میرے ماں باپ قربان، یہ کناسہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: کناسہ کوفہ میں ہے، عرض کیا کہ میں آپؑ پر قربان کیا ایسا حادثہ ہوگا؟ فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے اگر میرے بعد تم زندہ رہو گے تو دیکھو گے کہ میرا یہ فرزند کوفہ کے نزدیک قتل کیا جائے گا، دفن کے بعد اسکی قبر کھول کر جنازہ کو باہر نکال کر گلیوں میں پھرایا جائے گا اور سولی دی جائے گی، سولی سے اتار کر جنازہ کو جلا کر راکھ کو صحرا میں اڑا دیا دیا جائے گا۔ عرض کیا کہ اس بچہ کا نام کیا ہے؟ فرمایا یہ میرا بیٹا زید ہے۔

عمرو بن خالد نے ابوالجارود سے روایت نقل کی کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ جناب زید ؒتشریف لائے تو جیسے ہی امام علیہ السلام کی نظر ان پر پڑی فرمایا: ’’هذا سید اهل‌بیتی والطالب باوتارهم‘‘ یہ ہم اہلبیت کی عظیم شخصیت ہیں، یہ دشمن سے انتقام لینے کے لئے قیام کریں گے۔ (رجال کشی، صفحہ١۵١؛ بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ١٩۴)

جب امام جعفر صادق علیہ السلام کو جناب زیدؒ کی شہادت کی خبر ملی تو زبان پر کلمہ استرجاع انا للہ وانا الیہ راجعون جاری کیا اور فرمایا: میں اپنے چچا کی مصیبت پر اللہ سے اجر کا طالب ہوں۔ وہ میرے بہترین چچا تھے۔ بے شک وہ دنیا و آخرت میں میرے ساتھی تھے۔ میرے چچا نے اسی طرح شہادت پای جیسے اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، امیر المومنین علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہداء نے شہادت پائی۔
امام علی رضا علیہ السلام نے جناب زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے سلسلہ میں فرمایا: خدا کی قسم ! زید بن علیؑ ان لوگوں میں سے تھے جنکے سلسلہ میں یہ آیت ہے’’وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ‘‘ (سورہ حج، آیت۷۸) اور اللہ کے بارے میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے۔ (عیون اخبارالرضا، جلد١، صفحہ٢۴٨.)

جب مامون عباسی نے طنز کستے ہوئے امام علی رضا علیہ السلام سے کہا: ان دونوں (زیدؒ بن علیؑ اور زید بن موسیٰؑ) میں کیا فرق ہے؟ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: میرے بھائی زید کا جناب زید بن علیؑ سے مقابلہ نہ کرو۔ زید بن علیؑ آل محمد علیہم السلام کے علماء میں سےتھے ، وہ خدا کے لئے غضب ناک ہوئے، انہوں نے دشمنان خد اسے جہاد کیا اور اسی کی راہ میں قتل ہوئے۔(عیون اخبارالرضا، جلد١، صفحہ٢۴٨.)

اہلبیت علیہم السلام سے بہترین رابطہ

اس سے قطع نظر کہ جناب زید شہید امام معصوم امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزند تھے۔ آپ کا امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے ویسے ہی رابطہ تھا جیسے ایک اطاعت گذار کا اپنے امام سے ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کا خاص لطف و کرم ان کے شامل حال رہا جیسا کہ سطور بالا میں اس کا ذکر ہو چکا ہے ۔

لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دشمنان آل محمد علیہم السلام نے روایتیں گڑھ کر عصمت مآب ہستیوں کی توہین کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن جب اس میں ناکامی اور نا مرادی ان کا مقدر بنی تو امام زادگان کے خلاف پروپگنڈہ کیا ۔ اسی طرح جناب زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف بھی دشمنوں نے شک و شبھات ایجاد کئے جنکی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ اور معتبر علماء نے ان تمام شکوک و شبھات کو رد کیا ہے۔ ذیل میں اپنے مدعا کی تائید میں چند روایتیں پیش ہیں۔
۱۔ جناب علی بن محمد خزاز قمیؒ نے اپنی کتاب ’’کفایۃ الاثر‘‘ میں قاسم بن خلیفہ سے روایت نقل کی ہے کہ جناب یحییٰ بن زید ؒ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد جناب زید سے اماموں کے سلسلہ میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: امام بارہ ہیں ، جنمیں سے چار گذر گئے اور آٹھ باقی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ بابا جان ان کے نام کیا ہیں ؟ فرمایا جو چار امام گذر گئے انمیں پہلے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام ، دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام ، تیسرے امام حسین بن علی علیہ السلام اور چوتھے امام علی بن الحسین علیہ السلام ہیں۔ آٹھ امام جو باقی ہیں ان میں میرے بھائی امام محمد باقر علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام موسیٰ (کاظم )علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام علی (رضا ) علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام محمد(تقی) علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام علی(نقی ) علیہ السلام ہیں، ان کے بعد ان کے فرزند امام حسن(عسکری) علیہ السلام، ان کے بعد محمد(امام مہدی) عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ ان میں سے نہیں ہیں؟ فرمایا: نہیں میں ان اماموں میں سے نہیں ہوں لیکن میں عترت رسولؐ میں شامل ہوں۔ عرض کیا کہ آپ کو ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے اسماء کا علم کیسے ہوا؟ فرمایا: یہ وہ عہد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے لیا ہے۔ (کفایۃ الاثر؛ بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ١٩٨)

اسی کتاب ’’کفایۃ الاثر ‘‘ میں جناب محمد بن مسلم سےروایت ہے کہ میں جناب زید ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ولی امر (امام) ہیں؟ فرمایا: میں ولی امر نہیں ہوں بلکہ عترت رسول میں شامل ہوں۔ پوچھا آپ کی ہدایت و رہنمائی کون کرتا ہے؟ فرمایا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ) خلفاء و جانشینوں میں سےسات افراد ، جنمیں مہدی (علیہ السلام ) بھی ہیں۔

جناب محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمات میں حاضر ہوا اور پورے ماجرے سے باخبر کیا تو امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: میرے بھائی زید ؒ نے صحیح کہا۔ میرے بعد سات افراد اولیاء امر ہوں گے۔ (امام) مہدی (علیہ السلام) بھی انہیں میں سے ہوں گے۔ ( بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ٢٠٠)

اس سلسلہ میں سب سے قوی دلیل جناب زید شہید ؒ اور ابن بکیر کی گفتگو ہے جسمیں جناب زید ؒ نے فرمایا: ائے ابن بکیر! جو بھی ہم سے متمسک ہوا وہ میرے ساتھ اعلیٰ درجات میں ہوگا۔ خدا وند عالم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منتخب کیا اور ہمیں ان کی نسل میں قرار دیا۔ اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ دنیا و آخرت کو خلق نہ کرتا ۔ ائے ابن بکیر! اللہ کی ہمارے ذریعہ معرفت حاصل کی گئی اور اسکی عبادت کی گئی۔ ہم ہی ہیں جو اللہ کی راہ پر گامزن ہیں۔ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہیں، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ہم میں سے ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام ہم میں سے ہیں جو اس امت کے قائم ہیں۔

عرض کیا ائے فرزند رسولؐ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو نہیں بتایا کہ حضرت قائم ؑ کب قیام کریں گے؟ فرمایا: ائے ابن ابکیر! تم ان کا ادراک نہیں کر پاؤگے۔ لیکن جان لو کہ ان (امام جعفر صادق علیہ السلام ) کے بعد چھ امام اس امت کے سرپرست ہوں گے۔ پھر ہمارے قائم ؑ کا قیام ہوگا جو دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔ عرض کیاکہ فرزند رسولؐ! کیا آپ ولی امر (امام) نہیں ہیں؟ فرمایا: میں عترت رسولؐ میں ہوں۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو یہی جواب دیا۔ عرض کیا کہ آپ جو فرما رہے ہیں یہ اپنی جانب سے کہہ رہے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے؟ فرمایا: ’’و لو کنت اعلم الغیب لاستکثرت لنفسی‘‘ اگر مجھے علم غیب ہوتا تو اس سے زیادہ اپنے لئے طلب کرتا ۔ لیکن یہ وہ عہد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہم سے لیا ہے۔ اس کےبعد مندرجہ ذیل اشعار پڑھے ۔

’’نحن سادات قریش و قوام الحق فینا‘‘ ہم سادات قریش ہیں اور حق کا قیام ہم سے ہے۔ ہم وہ نور ہیں جو مخلوقات کی خلقت سے پہلے موجود تھے۔ پس اللہ ہماری وجہ سے پہچانا گیا اور ہم حق کو قائم کئے ہیں۔ جو بھی ہم سے روگردانی کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ( بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ۲۰۲)

ابوعمرو کشی نے عمار ساباطی سے نقل کیا ہےکہ سلیمان بن خالد جنہوں نے جناب زید ؒ کے ساتھ قیام کیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ ایک دن ہم ایک جانب کھڑے تھے اور جناب زیدؒ دوسری جانب تھے۔ میں نے سلیمان بن خالد سے پوچھا: زید بہتر ہیں یا (امام) جعفر(صادق علیہ السلام)؟ سلیمان نے کہا :جعفر علیہ السلام ؑکے ساتھ ایک دن زید کے ساتھ دنیا کے تمام دنوں سے بہتر ہے۔ چنانچہ میں جناب زیدؒ کے قریب گیا اور انہیں یہ کہتے سنا ’’جعفر والله امامنا فی الحلال و الحرام‘‘ خدا کی قسم ! (امام) جعفر(صادق علیہ السلام) ہمارے امام ہیں حلال و حرام میں۔ (رجال کشی، صفحہ٢٣١)

جناب زید شہید ؒ کے خصوصیات

کتب تاریخ و روایات جناب زید شہید ؒ کے اخلاق و خصائص حسنہ سے پر ہیں۔ جیسے آپ کی عبادت، زہد و تقویٰ وغیرہ ۔ ذیل میں ان خصائص کا بیان ہے جو زبان زد خا ص و عام ہیں اور جنکا اقرار دوست و دشمن سب نے کیا ہے۔
۱۔ قرآن کریم سے انس و لگاؤ

جناب شیخ مفید ؒ نے زیاد بن منذر سے روایت کی کہ میں مدینہ منورہ پہنچا اور وہاں زیدؒ بن علیؑ کے بارے میں پوچھا ۔ مجھے بتایا گیا کہ ’’ذاک حلیف القران‘‘ وہ قرآن کریم کےحلیف (دوست اور ہم پیمان) ہیں۔ ( الارشاد، صفحہ۲۸۶)

۲۔ خوف خد امیں گریہ

شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ’’الارشاد‘‘ میں ہشیم سے روایت نقل کی کہ میں نے خالد بن صفوان سے زیدؒ بن علیؑ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اس طرح بیان کیا۔ میں نے پوچھا کہ ان سے کہاں ملاقات کی تو بتایا ’’رصافہ‘‘ میں۔ میں نے پوچھا کہ ان کو کیسا پایا؟ جہاں تک میں جانتا ہوں کہ وہ خوف خدا سے اس قدر متاثر ہوتے کہ آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے۔ ( الارشاد، صفحہ۲۸۶)

۳۔ امام معصوم ؑ کے بعد بنی ہاشم کے عظیم عالم

جناب یحییٰ بن زید ؒ جو خود راہ اسلام کے عظیم شہید ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر بیان کیا کہ ان کے والد ماجد زید ؒ ہرگز امام نہیں تھے بلکہ وہ اپنے زمانے کے زاہدوں میں سے تھے۔ وہ راہ خدا کے مجاہدوں اور بنی ہاشم کے فقہاء میں سے تھے۔
جناب یحییٰ بن زیدؒ نے متوکل عباسی سے کہا: ائے عبداللہ ! جان لو کہ میرے والد ہرگز امام نہیں تھے بلکہ ایک کریم سید اور زاہد تھے۔ میرے والد مجاہد راہ خدا تھے۔
جناب یحییٰ ؒ سے پوچھا گیا کہ آپ کے والد نے امامت کا دعویٰ کیا اور راہ خدا میں جہاد کیا۔ جب کہ ہم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امامت کے جھوٹے دعوے داروں کی مذمت میں احادیث بھی پہنچی ہیں۔
جناب یحییٰ ؒ نے فرمایا: ائے بندہ خدا! جلد بازی نہ کرو۔ میرے والد اس سے کہیں زیادہ صاحب عقل تھے کہ جس کے وہ اہل نہیں تھے اس کا دعویٰ کریں۔ بلکہ انہوں نے ’’الرضامن آل محمدؑ‘‘ کی جانب لوگوں کو دعوت دی اور انکی مراد میرے ابن عم امام جعفر صادق علیہ السلام تھے جو آج ولی امر اور امام ہیں۔ پھر فرمایا: میرے والد بنی ہاشم کے صاحب عقل انسان تھے۔ (بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ۱۹۹)

۴۔ عبادت خدا

جناب یحییٰ بن زید ؒ نے اپنے والد کے بارے میں فرمایا: خداوند عالم میرے والد پر رحمت نازل کرے۔ خدا کی قسم ! ایسے عبادت گذار تھےکہ رات رات بھر نمازیں پڑھتے تھے اور دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ راہ خدا میں اپنی پوری طاقت سے جہاد کیا۔

۵۔ نماز اور بارگاہ خدا میں مناجات

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ علم، اخلاق، فضیلت اور جہاد جناب زید ؒ کا خاصہ تھا ۔ وہ اپنے والد ماجد امام زین العابدین علیہ السلام کی طرح بارگاہ خدا میں جب دعا و مناجات کرتے تو اس میں غرق ہو جاتے تھے۔ محمد بن خالد نے راہ مکہ و مدینہ میں آپ کی اس عرفانی حالت کو مشاہدہ کیا ہے اور سعید بن جبیر سے اس طرح بیان کیا ہے۔ میں تم سے عراق کے لوگوں کے بارے میں گفتگو نہیں کر رہا ہوں۔ بلکہ نازلی نامی شخص کی بات کر رہا ہوں جو مدینہ میں تھا۔ نازلی کا بیان ہے : میں زیدؒ بن علیؑ کے ساتھ مکہ کے سفر میں تھا۔ میں نے انہیں پہلے فرض نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور پھر ایک واجب نماز سے دوسری واجب نماز کے درمیان مسلسل نمازیں پڑھتے دیکھا۔ نیز وہ رات بھر نماز پڑھتے ، بہت زیادہ تسبیح پڑھتے اور اس آیت کا کثرت سے ورد کرتے’’وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ‘‘ (اور موت کی بیہوشی یقینا طاری ہوگی کہ یہی وہ بات ہے جس سے تو بھاگا کرتا تھا۔ سورہ ق، آیت ۱۹) انہوں نے ایک رات ہمارے سامنے نماز پڑھی اور آدھی رات تک لگاتار یہی آیت پڑھتے رہے۔ جب میں نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا وہ اپنے ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے بارگاہ خدا میں مناجات کر رہے ہیں۔ الہی! دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس کے بعد با آواز بلند گریہ کیا۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور عرض کیا کہ فرزند رسول خدا! آپ کا یہ نالہ و بکا جو اس شب میں دیکھا، کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے فرمایا: ائے نازلی تجھ پر افسوس ہے! آج رات میں نے حالت سجدہ میں خواب دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت ہے جنکے بدن پر ایسے کپڑے ہیں جنہیں اس سے پہلے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ وہ میرے پاس آئے چاروں جانب کھڑے ہو گئے، ان کا سردار جنکی باقی لوگ فرمانبرداری کر رہے تھے، نے کہا کہ کیا یہ وہی شخص ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا جی ہاں یہ وہی ہے تو اس سردار نے مجھ سے کہا اے زید تمہیں مبارک ہو تم راہ خدا میں قتل کئے جاو گے۔ تمہیں سولی دی جائے گی، تمہیں جلایا جائے گا اور اس کے بعد کوئی آگ تم سے قریب نہیں ہو گی۔ اس کے بعد جب میں نیند سے بیدار ہوا تو خدا کی قسم وحشت زدہ ہو گیا۔ اے نازلی ! مجھے یہ بات محبوب ہے کہ مجھے آگ میں جلایا جائے۔ دوبارہ جلایا جائے لیکن خدا اس امت کے معاملات کی اصلاح کرے۔ ( تفسیر فرات کوفی، صفحہ ۱۶۶)

جناب زید شہیدؒ اور راہ خدا میں جہاد

جناب زیدؒ کی ایک نمایاں صفت راہ خدا میں جہاد ہے اور یہی خصوصیت انہیں دیگر امام زادوں سے ممتاز بناتی ہے۔جناب زید شہیدؒ وہ غیور شخصیت تھے کہ ہشام بن عبدالملک ملعون کے دربار میں دشمنوِں کی جانب ہونے والی شان رسالت میں گستاخیوں کو برداشت نہیں کیا اور فرمایا: اگر میرے فرزند یحیی کے علاوہ سارے لوگ بھی میرا ساتھ چھوڑ دیں تب بھی میں دشمنان دین کے خلاف جہاد سے دست بردار نہیں ہوں گا۔

جناب علی بن عیسیٰ اربلی نے اپنی کتاب کشف الغمہ میں تیسری صدی ہجری کے نامور عالم و محدث جناب عبداللہ بن جعفر حمیری کی کتاب الدلایل سے روایت نقل کی ہے کہ صحابی رسول جناب جابر کا بیان ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ہشام (بن عبدالملک) کے خلاف کوئی خروج نہیں کرے مگر یہ کہ وہ اسے قتل کر دے گا۔ میں نے امام باقر علیہ السلام کے اس قول کو جناب زیدؒ سے بیان کیا تو انہوں نے جواب دیا: میں خود اس بات کا شاہد ہوں کہ ایک شخص ہشام کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سب وشتم کر رہا تھا لیکن ہشام نے اس کو کچھ نہیں کہا۔ خدا کی قسم! اگر میرا کوئی ایک شخص بھی ساتھ دے گا تو میں اس (ہشام) کے خلاف خروج کروں گا۔ (کشف الغمہ فی معرفۃالایمہ، جلد۲، صفحہ۳۵۰)

جناب زیدؒ کے قیام کے محرکات

جیسا کہ بیان کیاجا چکا ہے کہ جناب زید شہید ؒکے قیام کے اسباب میں سے ایک سبب ہشام بن عبدالملک کا رسول اللہ صلی اللہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی ہے۔ لیکن جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے دیگر محرکات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے تحریر فرمایا: جناب زید شہیدؒ کے قیام و خروج کا سبب امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے انتقام لینا تھا۔ اس لئے کہ ایک دن جناب زید ہشام بن عبدالملک کے دربار میں گئے۔ اس وقت ہشام نے اہل شام کو وہاں جمع کیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ جناب زیدؒ کے لئے نشست کو تنگ کر دیں تا کہ وہ ہشام کے نزدیک نہ پہنچ سکیں۔ جناب زید ؒ نے جب اس صورت حال کو ملاحظہ کیا تو فرمایا: میں تمہیں تقویٰ الہی کی نصیحت کرتا ہوں، ائے ہشام خدا سے ڈرو۔ ہشام نے کہا تم وہی ہو جو خود کو خلافت کا مستحق اور اہل جانتے ہو اور اس کی امید لگائے ہو؟ تمہارا خلافت سے کیا واسطہ ہے ؟ تم ایک کنیز زادہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ جناب زید نے فرمایا: میں کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ اللہ کا محبوب نہیں سمجھتا وہ کنیز کے فرزند تھے۔ اگر کنیز کا بیٹا ہونا عیب ہوتا تو اللہ کبھی انہیں مبعوث بہ رسالت نہ کرتا اور وہ خدا کے رسول حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہماالسلام ہیں۔ ائے ہشام! بتاو اللہ کے نزدیک نبوت زیادہ عظیم ہے یا خلافت؟ بتاو کہ جو فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، فرزند علی بن ابی طالب علیہ السلام ہے اس میں کیا عیب ہے جو تم اس کے سلسلہ میں ایسی باتیں کر رہے ہو؟جناب زید سے یہ جواب سن کر ہشام شدید پریشانی اور بے چارگی کا شکار ہوا اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے وزیر سے کہا کہ اس شخص کو دوبارہ اپنے دربار میں نہ دیکھوں۔ جناب زیدؒ ہشام کے دربار سے نکلتے وقت خود سے کہہ رہے تھے جو لوگ تلوار کی چمک اور حرارت سے ڈرتے ہیں ذلت و رسوائی انکا مقدر ہوتی ہے۔ جب جناب زید کوفہ پہنچے تو اہل کوفہ آپ کے پاس جمع ہوئے اور اصرار کر کے آپ کی رکاب میں جنگ کرنے کے لئے بیعت کی لیکن بعد میں اپنی دیرینہ عادت کے مطابق پلٹ گئے اور آپ کو دشمن کے حوالے کر دیا۔ نتیجہ میں آپ کو قتل کر دیا گیا، چار برس تک آپ کا جنازہ سولی پر لٹکا رہا لیکن کسی نے اس ظلم کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا حتیٰ زبان سے بھی کچھ نہیں کہا۔

کیا جناب زید شہید ؒکے قیام کو امام معصوم کی تائید حاصل تھی؟

اس سلسلہ میں مختلف روایتیں موجود ہیں لیکن کثرت سے ایسی روایتیں مرقوم ہیں جن سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ کے قیام کو اہلبیت علیہم السلام کی تائید حاصل تھی۔ ذیل میں چند روایتیں پیش ییں۔

۱۔ جناب زید کی مظلومیت پر گریہ

حمزہ بن حمران کا بیان ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑ نے پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کوفہ سے آ رہا ہوں۔ یہ سننا تھا کہ امام ؑ نے اس قدر گریہ کیا کہ آپؑ کی ریش مبارک تر ہو گئی۔ عرض کیا فرزند رسولؐ! کیوں اس قدر گریہ فرما رہے ہیں؟ فرمایا: مجھے میرے چچا زید یاد آ گئے اور ان پر پڑنے والے مصائب یاد آ گئے۔ میں بھی گریہ کنا تھا۔ حالت گریہ میں پوچھا مولا ! آپؑ کو کیا چیز یاد آئی؟ فرمایا: انکی شہادت یاد آ گئی کہ ایک تیر انکی پیشانی پر لگا تھا انکے بیٹے نے خود کو باپ پر گرا دیا اور کہا بابا جان! آپ کو بشارت ہو کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، امیرالمومنین امام علی، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی خدمت میں پہنچیں گے۔ جناب زیدؒ نے فرمایا، میرے بیٹے تم نے سچ کہا ایسا ہی ہوگا۔ اس کےبعد جب تیر کو پیشانی سے نکالا گیا تو آپ کی روح نکل گئی اور آپ شہید ہو گئے۔(امالی صدوق، صفحہ ۳۵۱)

امالی شیخ طوسی کے مطابق مھزم بن ابی بردہ اسدی کا بیان ہے کہ جناب زیدؒ کو سولی دئیے ہوئے چند دن گذرے تھے کہ میں مدینہ منورہ پہنچا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جیسے ہی امامؑ کی نگاہ مجھ پر پڑی فرمایا: ائے مھزم! میرے چچا زید کا کیا ہوا؟ عرض کیا کہ انہیں سولی دے دی گئی۔ پوچھا سولی کہاں دی گئی؟ عرض کیا کہ کناسہ بنی اسد میں۔ امام صادق علیہ السلام نے پوچھا: تم نے کناسہ بنی اسد میں انہیں سولی پر دیکھا ہے؟ عرض کیا ہاں۔ یہ سننا تھا کہ امام عالی مقام نے گریہ کیا اور خواتین نے بھی گھر کے اندر گریہ کیا کہ پشت پردہ سے آواز گریہ بلند تھی۔ اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ابھی دشمنوں کی ایک خواہش باقی ہے۔ یہ سن کر میں سوچنے لگا قتل اور سولی کے بعد کیا خواہش باقی رہ سکتی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو خدا حافظ کہا اور جب کناسہ کوفہ پہنچا تو دیکھا کہ لوگوں کی بھیڑ ہے۔ نزدیک گیا کہ دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے؟ نزدیک پہنچا تو کیا دیکھا کہ لوگ جناب زید ؒکے جنازہ کو سولی سے اتار کر جلانا چاہتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہی خواہش باقی ہے جسے امام ؑنے فرمایا تھا۔ (امالی شیخ طوسی، صفحہ ۹۴۵)

جناب زید اور انکے اصحاب شہید ہیں

جناب زید کی شہادت کی خبر ملنے پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے دوران گفتگو فرمایا: ’’مضی والله زید عمی و اصحابه شهداء مثل ما مضی علیه علی بن ابی‌طالب واصحابه‘‘ خدا کی قسم میرے چچا زید اور انکے اصحاب شہید ہیں جیسے امام علی بن ابی طالب علیہ السلام اور انکے اصحاب شہید ہوئے۔ (امالی شیخ طوسی، صفحہ ۳۱۱؛ عیون اخبارالرضا، جلد۱، صفحہ۲۵۲)

جناب زید کے حامیوں کی تمجید

دیگر قرائن اور شواہد کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلبیت علیہم السلام نے جناب زیدؒ کے قیام کی تائید کی ہے۔ انمیں سے ایک یہ ہے کہ جب دشمنان دین سے جنگ و جہاد کی خاطر فضیل بن یسار نے جناب زید ؒکے لشکر میں شامل ہونا چاہا تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے انکی تعریف و تمجید فرمائی ہے۔ آپؑ نے فرمایا اس سلسلہ میں کسی طرح کے شک و شبھہ کا شکار نہ ہو کیوں کہ اس تحریک کو آپ کی تائید حاصل تھی۔ بلکہ امامؑ عالی مقام نے بارگاہ خدا میں دعا فرمائی کہ آپ کو ان لوگوں کا شریک قرار دے جن لوگوں نے اہلبیت علیہم السلام کے دشمنوں سے انتقام لیا ہے۔

شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نے عبداللہ بن سنان سے روایت کی کہ فضیل بن یسار کا بیان ہے کہ جس دن جناب زید ؒ نے قیام کیا اس دن صبح میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ فرما رہے تھے انباط اہل شام سے جنگ کرنے میں کون میری مدد کرے گا؟ اس خدا کی قسم جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا ہے تم میں سے جو بھی جنگ میں ان (جناب زیدؒ) کی مدد کرے گا تو قیامت کے دن میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اذن خدا سے جنت میں داخل کروں گا۔ (مجمع‌البحرین، صفحہ ۳۴۱)

فضیل کا بیان ہے کہ جب جناب زید ؒ شہید ہو گئے تو میں نے کرایہ پر سواری لی اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملاقات کی خاطر مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہو گیا ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ امامؑ کو جناب زیدؒ کی شہادت سے باخبر کروں لیکن جیسے ہی امام صادق علیہ السلام نے مجھے دیکھا فوراً پوچھا ۔ میرے چچا زید کا کیا حال ہے؟ امام ؑ کا سوال سن کر میں خود کو سنبھال نہ سکا اور رونے لگا۔ امامؑ نے بھی گریہ کیا ۔ آپ ؑ کا گریہ اتنا شدید تھا کہ آپ کے رخسار کے دونوں جانب اشکوں کا سیلاب جاری ہو گیا۔ پھر آپؑ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے شامیوں سے جنگ میں میرے چچا کا ساتھ دیا تھا؟ میں نے عرض کیا ہاں۔ پوچھا کتنے شامیوں کو واصل جہنم کیا؟ عرض کیا چھ لوگوں کو قتل کیا ہے۔ امام ؑ نے پوچھا کیا تم انکے قتل کرنے میں کسی طرح کے شک و شبھہ میں مبتلا ہو؟ میں نے عرض کیا کہ مولاؑ! اگر شک ہوتا تو کیوں قتل کرتا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا مجھے دشمنوں کے قتل میں شریک قرار دے۔ (عیون اخبارالرضا، جلد۱، صفحہ ۲۵۲؛ امالی صدوق، صفحہ ۳۱۹)

قیام زید کے شہداء کے اہل خانہ کی مدد

اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے جناب زید ؒ کے قیام کی حمایت کا ایک اور ثبوت امام صادق علیہ السلام کی طرف سےجناب زیدؒ کے ساتھ شہید ہونے والے شہداء کے اہل خانہ کی مالی امداد ہے۔ آپؑ نے ابو خالد واسطی کو ایک ہزار دینار دے کر کوفہ بھیجا تاکہ انہیں شہداء کے گھر والوں میں تقسیم کریں۔

شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ ’’الارشاد ‘‘میں لکھتے ہیں کہ جب جناب زیدؒ کی شہادت کی خبر امام جعفرصادق علیہ السلام کو ملی تو آپؑ کو اس سانحہ پر شدید رنج ہوا اور غم کے آثار آپ ؑکے چہرے سے عیاں ہوئے۔ آپؑ نے اپنے ذاتی مال میں سے ایک ہزار دینار شہداء کے اہل خانہ میں تقسیم کرایا جو اس سانحہ میں اپنے سرپرست سے محروم ہو گئے تھے۔ ابوخالد واسطی نے بیان کیا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے ایک ہزار دینار دیا اور حکم دیا کہ زیدؒ بن علی ؑ کی رکاب میں شہید ہونے والوں کے گھر والوں میں تقسیم کروں۔ (الارشاد، صفحہ ۲۸۶)

جناب زید ؒ کے قتل پر راضی ان کے قتل میں شریک

جناب اربلی نے کشف الغمہ میں روایت نقل کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو ولاد کاہلی سے فرمایا: کیا تم نے میرے چچا زیدؒ کو دیکھا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، میں نے انہیں پھانسی پر لٹکتے ہوئے دیکھا اور مجھے لوگ دو گروہ میں تقسیم ملے، ایک گروہ خوش تھا اور دوسرا گروہ غمگین و سوگوار تھا۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جن لوگوں نے ان پر گریہ کیا وہ جنت میں ان کے ساتھ ہوں گے اور جو ان کے قتل پر راضی ہیں اور تنقید کر رہے ہیں وہ ان کے قتل میں شریک ہیں۔ (کشف الغمہ، جلد ۳، صفحہ ۴۴۲)

جناب زیدؒ نے قیام کے سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مشورہ لیا

ممکن ہے کہ بعض اذہان میں یہ خیال آئے۔ چونکہ جناب زید بن علیؑ نے اہل بیت ؑ خصوصاً امام جعفر صادق علیہ السلام سےمشورہ نہیں لیا لہذا ان کے قیام کو امامؑ کی تائید حاصل نہیں تھی۔ لیکن یہ فکر درست نہیں ہے کیونکہ جناب زید ؑ نے کوفہ جانے سے پہلے اپنے بھتیجے سے مشورہ کیا تھا۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: میرے چچا زید ؑنے کوفہ جانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے ان سے کہا: چچا! اگر آپ کناسہ میں قتل ہونے کے بعد پھانسی پر لٹکنا چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار ہے۔ جب وہ امام صادق علیہ السلام کے بیت الشرف سے نکلے تو امام علیہ السلام نے فرمایا: افسوس ہے اس شخص پرجو ان کی آواز سنے اور ساتھ نہ دے۔ (عیون اخبارالرضاؑ، جلد۱، صفحہ۲۴۸)

جناب زید کی ہجو کرنے والے کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے بددعا کی

جناب اربلیؒ نے اپنی کتاب کشف الغمہ میں کتاب مناقب آل ابی طالب سے روایت نقل کی ہے کہ حکیم بن عباس کلبی کے بیان کو جب امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا گیا جسمیں اس نے کہا تھا کہ’’صلبنا لکم زیداً علی جذع نخله‘‘ ہم نے زید ؒ کو آپ کے لیے کھجور کے تنے پر لٹکایا ہے جب کہ ہم نے وہاں کسی مہدی کو نہیں دیکھا ۔ آپ لوگوں نے اپنی کم عقلی کے سبب عثمان کا علیؑ سے موازنہ کیا جبکہ عثمان علیؑ سے بہتر تھے۔

امام صادق علیہ السلام نے جب یہ نفرت انگیز باتیں سنی تو اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کانپتے ہوئے فرمایا: خدایا! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹ بول رہا ہے تو ایک درندہ کو اس پرمسلط کر دے۔

روایت میں ہے کہ بنو امیہ نے حکیم بن عباس کلبی کو کوفہ جانے پر مامور کیا۔ وہ کوفہ کی گلیوں میں گشت کر رہا تھا کہ راستے میں ایک شیر برآمد ہوا اور اس ملعون کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ جب یہ خبر امام صادق علیہ السلام کو ملی تو آپؑ نے شکرخدا کا سجدہ کیا اور فرمایا: ’’الحمدلله الذی انجزنا ما وعدنا‘‘ (مناقب ال ابی‌طالب، جلد۳، صفحہ ۳۶۰)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے رحمت کی دعا کی

دوسری دلیل کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کا لطف و کرم ہمیشہ جناب زیدؒ کے شامل حال رہا اور فرمایا کہ اگر زیدؒ کامیاب ہو جاتے تو حکومت اہلبیت علیہم السلام کے حوالے کر دیتے۔ جیسا کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے والد امام جعفر صادق علیہ السلام نے ان سے فرمایا: خدا میرے چچا زیدؒ پر رحمت نازل کرے جو’’الرضا من ال محمد‘‘ کے داعی تھے۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو جس بات کی دعوت دے رہے تھے اس سے وفا کرتے۔ (عیون اخبارالرضاؑ، جلد۱، صفحہ۲۴۸)

جناب زید ؒ کی شہادت اور انکی قبر

امام صادق علیہ السلام نے حمزہ بن حمران سے فرمایا: زید کی پیشانی مبارک سے تیر نکلنے کے بعد ان کے جسم سے روح نکل گئی۔ چنانچہ ان کے جنازے کو ایک چھوٹی نہر کے پاس لائے جو ایک باغ کے کنارے سے نکلی تھی ، وہاں قبر کھودی اور ان کے جنازے کو دفن کر کے پانی کو اس پر جاری کر دیا گیا (تاکہ دشمنوں کو ان کی قبر کا پتہ نہ چلے اور وہ قبر کی بے حرمتی نہ کر سکیں۔) لیکن جب جناب زید ؒ کو وہاں دفن کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ایک سندی غلام تھا ۔ وہ سندی غلام یوسف بن عمر کے پاس گیا اور اس کو جناب زید ؒ کی قبر کا پتہ بتا دیا۔یوسف بن عمر جناب زیدؒ کی قبر مبارک کے پاس آیا اور اس نے قبر کھلوا کر جنازہ کو باہر نکلوا کر سولی پر لٹکوا دیا جو چار سال تک سولی پر لٹکا رہا۔ خدا جناب زید کے قاتل اور انکی توہین کرنے والے پر لعنت کرے۔ (امالی صدوق، صفحہ ۳۵۱؛ امالی طوسیؒ، صفحہ۶۵۴؛ بحارالانوار، جلد۴۶، صفحہ ۱۷۳)

کناسہ میں موجود جناب زید ؒ سے منسوب روضہ آپؒ کو سولی دئیے جانےوالی جگہ کی جانب اشارہ ہے۔

’’وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا‘‘ (سورہ مریم، آیت ۱۵)
ان پر ہمار اسلام جس دن پیدا ہوئے اور جس دن انہیں موت آئی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .