حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا، امام حسین علیہ السلام کی ایک بیٹی تھیں، جن کی ولادت سن ۵۷ ہجری کے مہینے شعبان کی ۱۷ یا ۲۳ تاریخ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ ان کا اصل نام فاطمہ صغری یا فاطمہ صغیرہ تھا، لیکن وہ رقیہ کے نام سے مشہور ہوئیں۔
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کا تاریخی وجود
رقیہ نام، اسلام سے پہلے بھی جزیرہ عرب میں معروف تھا۔ مثال کے طور پر، رقیہ، ہاشم (جو رسول اکرم ص کے جد امجد ہیں) کی بیٹی کا نام تھا، اور وہ حضرت عبداللہ (نبی کریم ص کے والد) کی پھوپھی تھیں۔
اسلام میں سب سے پہلے اس نام سے موسوم ہونے والی شخصیت، رسول اکرم ص اور حضرت خدیجہ کی بیٹی تھیں۔ اس کے بعد رقیہ ایک پسندیدہ اور بابرکت اسلامی نام بن گیا۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام رقیہ رکھا، جن کی شادی بعد میں حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام سے ہوئی۔ یہی سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ امام حسن مجتبی، امام حسین اور امام موسیٰ کاظم علیہم السلام کی بعض بیٹیوں کا نام بھی رقیہ رکھا گیا۔ ان میں فرق کرنے کے لیے انہیں "رقیہ" اور "رقیہ صغری" کہا جاتا تھا۔
تاریخی روایات کے مطابق، حضرت رقیہ کی والدہ ایک نیک، پرہیزگار خاتون تھیں جن کا نام "ام اسحاق بنتِ طلحه بن عبیداللہ" تھا۔ وہ پہلے امام حسن مجتبی علیہ السلام کی زوجہ تھیں۔ امام حسن نے اپنی شہادت سے پہلے وصیت کی تھی کہ ان کے بعد ان کی زوجہ خاندان بنی ہاشم سے باہر نہ جائے بلکہ امام حسین سے نکاح کرے۔ امام حسین علیہ السلام نے اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے ام اسحاق سے نکاح کیا، اور اس نکاح کا ثمر حضرت رقیہ تھیں۔
مشہور نسب شناس، ابن فندق بیہقی (متوفی ۵۶۵ ہجری)، اپنی کتاب "لباب الانساب" میں امام حسین علیہ السلام کی چار بیٹیوں کا ذکر کرتے ہیں: فاطمہ، سکینہ، زینب اور ام کلثوم۔ وہ لکھتے ہیں کہ زینب اور ام کلثوم بچپن میں وفات پا گئیں۔ لیکن ایک اور مقام پر وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں صرف زین العابدین، فاطمہ، سکینہ اور رقیہ باقی رہ گئے۔
محمد بن طلحه شافعی (متوفی ۶۵۲ ہجری) بھی امام حسین علیہ السلام کی چار بیٹیوں کا ذکر کرتے ہیں، جن میں زینب، سکینہ اور فاطمہ کے نام لیتے ہیں، لیکن چوتھی بیٹی کا نام نہیں بتاتے۔ حجۃ الاسلام نجم الدین طبسی ان روایات کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چوتھی بیٹی کا نام رقیہ تھا اور ان کی کنیت "ام کلثوم" تھی۔
حضرت رقیہ کے تاریخی وجود پر دو مضبوط شواہد
1. پہلا واقعہ وہ گفتگو ہے جو امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم کے درمیان میدان کربلا میں، امام کی شہادت کے آخری لمحات میں شمر کے سامنے جانے سے قبل ہوئی۔ امام نے خیام کی طرف منہ کر کے فرمایا: "اے زینب! اے سکینہ! اے میرے بچوں! میرے بعد تمہارے لیے کون باقی رہے گا؟ اے رقیہ اور اے ام کلثوم! تم سب میرے رب کی امانتیں ہو، اور آج وعدے کا وقت آن پہنچا ہے۔"
2. دوسرا واقعہ وہ نصیحت ہے جو امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن، زوجہ اور بیٹیوں کو فرمائی، تاکہ وہ ان کے بعد صبر کریں۔ امام نے فرمایا: "اے میری بہن ام کلثوم! اور تم اے زینب! اور تم اے رقیہ، فاطمہ اور رباب! جب میں شہید ہو جاؤں تو میرے لیے گریبان نہ چاک کرنا، چہرے نہ نوچنا اور میرے بارے میں کوئی ناروا بات زبان سے نہ نکالنا۔"
حضرت رقیہؑ کی شہادت کا واقعہ
حضرت رقیہؑ کی شہادت کو ۵ صفر، یا بعض روایات کے مطابق ۳ صفر ۶۱ ہجری کو بیان کیا گیا ہے۔
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا شام کے ویران قید خانے (خرابے) میں حضرت زینب کبریؑ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں کہ کچھ شامی بچے کھیلتے ہوئے ان کے قریب سے گزرے۔ حضرت رقیہؑ نے پوچھا: "عزیز عمہ جان! یہ بچے کہاں جا رہے ہیں؟" حضرت زینبؑ نے فرمایا: "بیٹی! یہ اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔" رقیہؑ نے معصومیت سے پوچھا: "کیا ہمارا گھر نہیں ہے؟" فرمایا: "کیوں نہیں بیٹی! ہمارا گھر مدینہ میں ہے۔" مدینہ کا نام سنتے ہی حضرت رقیہؑ کے ذہن میں اپنے بابا حسینؑ کے ساتھ گزری خوبصورت یادیں تازہ ہو گئیں۔ انہوں نے فوراً پوچھا: "عمہ! میرے بابا کہاں ہیں؟" حضرت زینبؑ نے جواب دیا: "بیٹی! وہ سفر پر گئے ہیں۔" حضرت رقیہؑ خاموش ہو گئیں، ایک کونے میں جا کر اپنے زانوؤں پر سر رکھ کر غم کے عالم میں سو گئیں۔ رات کے کسی حصے میں انہوں نے خواب میں اپنے بابا امام حسینؑ کو دیکھا۔ گھبرا کر جاگ گئیں اور دوبارہ بابا کے بارے میں سوال کرنے لگیں۔ ان کی گریہ و زاری سے سارا قید خانہ گونج اٹھا۔
یہ خبر یزید تک پہنچی۔ اس نے حکم دیا کہ حسینؑ کا سر اس بچی کے پاس لے جایا جائے۔ امام حسینؑ کا مبارک سر ایک طشت میں رکھ کر خرابی میں لایا گیا اور حضرت رقیہؑ کے سامنے رکھ دیا گیا۔
جب حضرت رقیہؑ نے طشت کا کپڑا ہٹایا تو بابا کا سر دیکھ کر اسے گود میں لے لیا، چومنے لگیں اور فریاد کرنے لگیں:
"بابا! کس نے آپ کے چہرے کو خون میں رنگین کیا؟ کس نے آپ کی گردن کو کاٹا؟ بابا! کس نے مجھے اس چھوٹی عمر میں یتیم کر دیا؟ بابا! یتیم بچی کس کا سہارا لے؟ کاش میں مٹی پر سو جاتی لیکن آپ کی داڑھی خون میں رنگی نہ دیکھتی!"
حضرت رقیہؑ اتنی درد بھری باتیں کرتی رہیں، یہاں تک کہ خاموش ہو گئیں۔ سب نے سمجھا کہ وہ سو گئی ہیں، لیکن جب قریب جا کر دیکھا تو وہ دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں۔ رات کے وقت ان کو غسل دیا گیا اور اسی خرابی میں دفن کر دیا گیا۔
حضرت رقیہؑ کے تاریخی وجود کا پہلا ماخذ
حضرت امام حسینؑ کی کم سن بیٹی کی شام میں شہادت کا سب سے پہلا تاریخی ذکر عمادالدین طبری (متوفی ۷۰۰ ہجری) نے اپنی کتاب کامل بهایی میں کیا ہے۔ انہوں نے بچی کا نام تو نہیں بتایا، لیکن اس کی عمر تقریباً چار سال اور وفات کو شام میں یزید کے محل میں باپ کا سر دیکھنے کے چند روز بعد نقل کیا ہے۔
ایک عجیب معجزہ
آیت اللہ میرزا ہاشم خراسانی (وفات: ۱۳۵۲ ھ ق) اپنی کتاب منتخب التواریخ میں ایک اہم واقعہ نقل کرتے ہیں:
شیخ محمد علی شامی جو نجف اشرف کے علماء میں سے تھے، انہوں نے فرمایا کہ میری نانیہال کے جد محترم سید ابراہیم دمشقی (جن کا نسب سید مرتضی علم الہدیٰ سے جا ملتا ہے)، وہ بہت نیک اور معزز شخص تھے اور ان کے تین بیٹیاں تھیں، بیٹا کوئی نہ تھا۔
ایک رات ان کی بڑی بیٹی نے حضرت رقیہ بنت الحسینؑ کو خواب میں دیکھا۔ حضرت نے فرمایا: "اپنے والد سے کہو، گورنر کو اطلاع دیں کہ میری قبر اور لحد کے درمیان پانی جمع ہو گیا ہے اور میں اذیت میں ہوں، آئیں اور مرمت کریں۔"
اس نے والد کو خواب سنایا، لیکن سید ابراہیم نے اہل سنت کے خوف سے کچھ نہ کیا۔ دوسری رات درمیانی بیٹی کو وہی خواب آیا، اس پر بھی عمل نہ ہوا۔ تیسری رات چھوٹی بیٹی کو خواب آیا، پھر بھی خاموشی۔ چوتھی رات خود سید ابراہیم نے حضرت رقیہؑ کو خواب میں دیکھا کہ وہ عتاب کر رہی تھیں:"تم نے گورنر کو اطلاع کیوں نہ دی؟"
صبح ہوتے ہی وہ گورنر کے پاس گئے اور خواب سنایا۔ گورنر نے حکم دیا کہ اہل سنت و اہل تشیع کے بزرگ غسل کریں، صاف لباس پہنیں اور جو بھی دروازے کا قفل کھول سکے، وہ قبر کشائی کرے۔ سب نے کوشش کی، مگر قفل صرف سید ابراہیم کے ہاتھ سے کھلا۔
جب قبر کھولی گئی تو دیکھا کہ حضرت کا کفن صحیح و سالم ہے، لیکن قبر میں پانی بھر چکا ہے۔ سید ابراہیم نے حضرت کے جسم مطہر کو اپنی گود میں لیا اور تین دن تک بغیر کھائے، پیے یا وضو کی حاجت کے مسلسل زانو پر رکھا۔ جب قبر کی مکمل مرمت ہو گئی، تو دفن کیا۔ اسی موقع پر دعا کی کہ اللہ انہیں بیٹا عطا فرمائے، چنانچہ بیٹا ہوا جس کا نام سید مصطفی رکھا گیا۔
گورنر نے اس واقعے کو سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ سلطان عبدالحمید کو لکھا، جس نے حضرت زینبؑ، حضرت رقیہؑ، حضرت ام کلثومؑ اور حضرت سکینہؑ کے روضوں کی تولیت سید ابراہیم کو سونپ دی۔ آج بھی ان کے پوتے سید عباس ان مقدس مقامات کی تولیت کے ذمہ دار ہیں۔
آیت اللہ سید ہادی خراسانی نے اپنی کتاب معجزات و کرامات میں بھی ایک واقعہ لکھا جو اوپر بیان کردہ واقعے کی تائید کرتا ہے:
ایک بار کسی کو سانپ نے کاٹ لیا، دوا اثر نہ کی۔ ایک جوان سید عبدالامیر آیا، ہاتھ رکھ کر شفا دی۔ اس نے بتایا کہ یہ کرامت ان کے جد سید ابراہیم سے انہیں وراثت میں ملی ہے، جو حضرت رقیہؑ کے جسم کو تین دن تک گود میں رکھے ہوئے تھے۔
مراجع تقلید کی رائے
بزرگ مراجع تقلید جیسے آیات عظام میرزا جواد تبریزی، آیت اللہ مکارم شیرازی، آیت اللہ نوری ہمدانی، آیت اللہ علوی گرگانی اور آیت اللہ مظاہری نے مختلف استفتاؤں کے جواب میں حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کے وجود، ان کی شام کے قیدخانے میں شہادت اور شام میں ان کے مزار کو تاریخی طور پر ثابت شدہ اور مسلم قرار دیا ہے۔ نیز ان حضرات نے حضرت رقیہؑ کے لیے نذر ماننے کو شرعی طور پر درست اور واجب الوفا قرار دیا ہے۔
کتاب کتابشناسی حضرت رقیهؑ میں حضرت رقیہؑ سے متعلق تقریباً ۱۵۰ کتابوں کی فہرست اور تعارف شامل ہے۔









آپ کا تبصرہ