حوزہ نیوز ایجنسی I عاشورہ کا واقعہ اپنی عظیم تاریخی اہمیت اور انسانی ضمیر پر گہرے اثرات کے باعث ہمیشہ تحقیق کا مرکز رہا ہے۔ اس واقعے کے عددی و شماریاتی پہلو، جیسے روز شمارِ کربلا، امام حسینؑ کے ساتھیوں کی تعداد، شہداء کی گنتی اور دشمن کے ہلاک شدگان وغیرہ، اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کے لیے نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔
اہلِ کوفہ کے خطوط اور بیعت کرنے والوں کی تعداد
تاریخی روایات کے مطابق، امام حسینؑ کو مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران کوفہ سے جو خطوط موصول ہوئے، ان کی تعداد مختلف مورخین نے مختلف بیان کی ہے:
طبری کے مطابق: تقریباً 53 خطوط
بلاذری: 50 خطوط
دینوری: 100 خطوط
عمادالدین طبری: 400 خطوط
کاشفی (نقل از نور الائمہ): 120 خطوط
سید بن طاووس: ایک دن میں 600 خطوط، مجموعی طور پر 12 ہزار خطوط
ابن سعد کے مطابق: 18 ہزار افراد نے خطوط لکھے۔
تاہم پرانے تاریخی مآخذ کے مطابق، بیعت کرنے والوں کی تعداد 12 یا 18 ہزار بیان کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض مورخین نے خط لکھنے والوں اور بیعت کرنے والوں کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھا یا تاریخ کے تسلسل میں یہ دونوں باتیں باہم خلط ہو گئیں۔
امامؑ کو یہ خطوط جن افراد کے ذریعے موصول ہوئے، ان میں نمایاں نام یہ ہیں:
عبدالله بن مسمع (سبع) همدانی، عبدالله بن وال تمیمی، قیس بن مسهر صیداوی، عبدالرحمن بن عبدالله ارحبی، عماره بن عُبَید سلولی۔
ایک طرف امامؑ پر بنیامیہ کا شدید دباؤ تھا کہ وہ یزید کی بیعت کریں اور دوسری طرف حرمِ مکہ میں بھی ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ ایسے میں کوفہ سے آئے ہزاروں خطوط امامؑ کو دعوتِ قیام دے رہے تھے۔ ان کا انداز کچھ یوں تھا: "جلدی آؤ، لوگ تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں، سوائے تمہارے کسی اور کو قبول نہیں کرتے۔ جلدی کرو، بہت جلدی!"
حضرت مسلم بن عقیل کے ہاتھوں بیعت کرنے والوں کی تعداد
مورخین کے مطابق، حضرت مسلمؑ سے بیعت کرنے والوں کی تعداد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے:
بعض نے 12 ہزار،امام محمد باقرؑ سے منقول روایت میں 20 ہزار، ابن اعثم، خوارزمی: 20 ہزار سے زائد، ابن شہر آشوب: 25 ہزار، ابن قتیبہ، ابن عبدربه: 30 ہزار سے زائد
ابن عساکر، ابن نما حلی، ابن کثیر (نقل از شعبی): 40 ہزار
زید بن علی بن الحسینؑ سے منقول ہے کہ: 80 ہزار افراد نے امام حسینؑ کی بیعت کی۔
حضرت مسلمؑ نے کوفہ میں بیعت کے بعد امام کو ایک خط لکھا، جو شہادت سے 27 دن قبل یعنی اواخر ماہ ذیقعدہ امام کو موصول ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمؑ نے تقریباً 37 دن کوفہ کے حالات کا جائزہ لیا اور پھر امامؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔
طبری کے مطابق، اس خط میں درج تھا: "بعد از سلام، قوم کا نمائندہ اپنی قوم سے جھوٹ نہیں بولتا۔ کوفہ کے 18 ہزار افراد نے میری بیعت کی ہے۔ جب یہ خط ملے، فوراً کوفہ روانہ ہو جائیں، سب لوگ آپ ساتھ ہیں اور خاندان بنیامیہ سے بیزار ہیں۔"
شیخ مفید کے مطابق، کوفہ والوں نے اپنے ساتھ ایک اور خط بھی بھیجا، جس میں لکھا: "یہاں ایک لاکھ تلوار بردار آپ کا انتظار کر رہے ہیں، دیر مت کریں!"
لیکن ابن زیاد نے جاسوسی کا منظم نظام قائم کر کے، خوف و دھونس، لالچ اور قبیلہ جاتی سرداروں کو خرید کر ایسا ماحول بنایا کہ کوفہ والوں کی مہمان نوازی کی مثال، مہمان کشی کی صورت اختیار کر گئی۔ اور صرف 100 سپاہیوں کے ذریعے، امامؑ کے نمائندے حضرت مسلمؑ کو زخمی، پیاسا اور تنہا شہید کر دیا گیا اور کوفہ تاریخ میں بدنام ہو گیا۔
کربلا کی جانب کاروانِ حسینی کی تعداد، تاریخی اعداد و شمار کی روشنی میں
مدینہ سے روانگی کے وقت تعداد
تاریخی روایات میں امام حسینؑ کے مدینہ سے روانگی کے وقت ساتھیوں کی درست تعداد کا ذکر نہیں ملتا۔ امامؑ نے ماہ رجب کی آخری تاریخ سے دو دن پہلے، اتوار کی شب اپنے اہلِ بیتؑ، بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں اور دیگر قریبی افراد (سوائے محمد بن حنفیہ) کے ساتھ مکہ کی طرف ہجرت کی۔ بعض روایات میں خاص طور پر ام کلثوم، حضرت زینبؑ اور ان کے بھائیوں جیسے ابوبکر، جعفر، اور حضرت عباسؑ کے نام درج ہوئے ہیں۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق، امامؑ کے ساتھ مدینہ سے نکلنے والے افراد کی تعداد تقریباً 300 تھی، لیکن ان میں سے بہت سے صرف حج کی نیت سے کاروان میں شامل ہوئے تھے۔
مکہ سے کربلا کی طرف روانگی کے وقت تعداد
کربلا کی طرف روانگی کے وقت امامؑ کے ہمراہ بنی ہاشم کے 19 مرد، خواتین، بچے اور 60 اصحاب موجود تھے۔ بعض روایات کے مطابق 8 ذوالحجہ (یومِ ترویہ) کو امامؑ نے 82 افراد کے ساتھ مکہ سے عراق کی جانب سفر شروع کیا۔
حضرت امام محمد باقرؑ سے ایک روایت کے مطابق: "جب امام حسینؑ کربلا پہنچے تو ان کے ہمراہ 45 سوار اور 100 پیادہ افراد تھے، یعنی مجموعی طور پر 145 افراد۔"
البتہ کچھ روایات میں یہ تعداد روز عاشورہ کی بتائی گئی ہے۔ مختلف مورخین نے اصحابِ امامؑ اور اہلِ بیتؑ کی تعداد 62، 72 یا 82 افراد بیان کی ہے۔ بعض روایات میں یہ تعداد 32 سوار اور 40 پیادہ یعنی مجموعی طور پر 72 افراد بتائی گئی ہے، جس سے مراد ممکنہ طور پر روز عاشورہ کی تعداد ہے۔
مشہور مورخ سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب تذکرۃ الخواص میں لکھا ہے کہ دشمن کے 20 افراد بھی امام حسینؑ کی حق گوئی اور خطبوں سے متاثر ہو کر ان کے لشکر میں شامل ہو گئے۔
ان سب روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کربلا پہنچنے کے وقت امامؑ کے ساتھیوں کی تعداد 70 سے 90 افراد کے درمیان تھی۔
امامؑ کے ساتھیوں اور دشمن کی فوج کی تعداد
روز عاشورہ امام حسینؑ کے ساتھیوں کی سب سے معروف اور مستند تعداد 72 افراد بیان کی گئی ہے۔
ابومخنف نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی سے نقل کیا کہ امامؑ کے لشکر میں 32 سوار اور 40 پیادہ افراد تھے۔
حصین بن عبدالرحمن کے مطابق لشکر کی تعداد 100 کے قریب تھی۔ قاضی نعمان مغربی نے 70 سے کم افراد لکھے۔
مسعودی (صاحبِ اثبات الوصیہ) نے 61 افراد اور ابن حجر ہیتمی نے 80 سے زائد افراد کی تعداد بیان کی ہے۔
اگرچہ روایات میں فرق ہے، لیکن 72 افراد کی تعداد روایتاً، قدمتاً اور راویوں کی کثرت کے اعتبار سے سب سے معتبر سمجھی جاتی ہے۔
دشمن کے لشکر کی تعداد
یزیدی لشکر کی تعداد بھی مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے:کچھ روایات میں 22 ہزار
شیخ صدوق نے امام صادقؑ اور امام سجادؑ سے دو روایتوں کی بنیاد پر 30 ہزار لکھا۔ مسعودی نے 28 ہزار، طبری نے 14 ہزار
ابن شہرآشوب نے 35 ہزار، مگر تفصیلی کمانڈروں کی فہرست میں 25 ہزار درج کی ہے۔
بعض روایات کے مطابق چھ محرم تک دشمن کی تعداد 20 ہزار ہو چکی تھی۔
شیخ صدوق کی روایت کے مطابق 30 ہزار کا عدد زیادہ قابلِ قبول ہے، کیونکہ جعل و تحریف کا احتمال کم ہے اور اہلِ بیتؑ سے مروی روایات پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
دشمن کے مقتولین کا تخمینہ
شیخ صدوق اور بعد میں محمد بن فتال نیشاپوری نے بعض شہداء کے ہاتھوں دشمن کے مقتولین کی تعداد کچھ یوں لکھی:
دشمن کے مقتولین جنہیں شہدائے کربلا نے واصل جہنم کیا
حر بن یزید 18
زہیر بن قین 19
حبیب بن مظاہر 31
عبداللہ بن ابی عروہ 20
بریر بن خضیر 30
مالک بن انس 18
یزید بن زیاد (ابوالشعثاء) 9
وہب بن وہب یا عبداللہ بن عمیر 7 یا 8
نافع بن ہلال 13
عبداللہ بن مسلم 3
علی اکبرؑ 54
قاسم بن حسنؑ 3
کل: تقریباً 225 یا 226 مقتولین
ابن شہر آشوب نے یہ اعداد مزید بڑھا کر لکھے:
زہیر بن قین: 120
حبیب بن مظاہر: 62
حر: 40 سے زائد
عون بن عبداللہ: 21
علی اکبرؑ: 70
حجاج بن مسروق: 25
(یہ اعداد امامؑ اور حضرت عباسؑ کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے علاوہ ہیں)
کربلا کے شہداء کی مجموعی تعداد
سب سے مشہور روایت 72 شہداء کی ہے۔
فضیل بن زبیر نے 106 شہداء (20 بنی ہاشم اور 86 اصحاب) لکھے۔
ابومخنف نے 78 اور دوسرے مورخین نے 32، 70، 77، 82 اور 88 بھی ذکر کیے ہیں۔
بلخی اور مسعودی کے مطابق تعداد 87 تھی۔
یورشِ اول میں صرف تیروں سے 50 سے زائد افراد شہید ہو گئے تھے۔
بنی ہاشم کے شہداء
شہداء بنی ہاشم کی تعداد روایات میں 9 سے 30 تک بتائی گئی ہے،لیکن مشہور ترین عدد 17 ہے۔
کچھ پرانی روایات اور زیارتِ ناحیہ مقدسہ میں 20 افراد (بشمول مسلمؑ اور امام حسینؑ) بیان کیے گئے ہیں۔
8 شہداء کی مائیں عاشورا کے دن کربلا میں موجود تھیں:
حضرت رباب (والدہ علی اصغرؑ)
حضرت زینبؑ (والدہ عون بن عبداللہ)
حضرت رملہ (والدہ قاسم بن حسنؑ)
بنت شلیل الجلیلیہ (والدہ عبداللہ بن حسنؑ)
رقیہ بنت علیؑ (والدہ عبداللہ بن مسلمؑ)
عبده بنت عمرو (والدہ محمد بن ابی سعید)
ام وہب (والدہ وہب)
بعض روایات کے مطابق حضرت لیلیؑ (والدہ علی اکبرؑ) بھی کربلا میں تھیں، مگر اس پر اختلاف ہے۔
بدنِ امام حسینؑ پر زخموں کی تعداد
تاریخی روایات میں امام حسین علیہ السلام کے جسمِ اطہر پر لگنے والے زخموں کی تعداد مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے:
1. امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا: امام حسینؑ کے جسم پر 33 نیزے کے زخم اور 34 تلوار کے وار تھے۔ ایک اور روایت میں آپؑ نے فرمایا: 33 نیزے کے زخم، 44 تیر و تلوار کے زخم تھے، اور ایک اور روایت کے مطابق صرف تلوار کے ستر سے زیادہ وار تھے۔
2. امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام حسینؑ کے جسم پر 320 سے زائد زخم تھے، جبکہ ایک اور روایت میں 63 زخم چاہے وہ تلوار، نیزے یا تیر کے ہوں نقل کیے گئے ہیں۔
3. امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ امام حسینؑ کے جسم پر 40 تلوار اور نیزے کے زخم تھے۔
4. بعض تاریخی منابع کے مطابق امامؑ کے جسم یا لباس پر تیر، نیزے اور تلوار کے وار سے 110 سے زائد چیر پھاڑ ہوئی تھی۔
5. کچھ منابع میں 120 تلوار، تیر اور پتھر کے زخموں کا ذکر ملتا ہے۔
6. مشہور مؤرخ ابن سعد کے مطابق امامؑ کے جسم پر 33 زخم تھے۔
7. علی بن محمد عمری اور ابن عنبہ (وفات 828 ہجری) نے 70 زخموں کا ذکر کیا ہے، جبکہ سید ابن طاووس نے 72 زخموں کا ذکر کیا ہے۔
ان مختلف روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام حسینؑ کے جسمِ مبارک پر زخموں کی تعداد 100 سے زیادہ تھی۔ ان روایات کی تائید اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ "اتنے تیر امامؑ کے جسم پر لگے تھے کہ پورا جسم تیر سے ڈھک گیا تھا۔"
واحد زخمی جو زندہ بچ گئے: تاریخی روایت کے مطابق، کربلا کے معرکے میں صرف ایک زخمی ایسا تھا جو زندہ بچ گیا، اور وہ تھے حسن بن حسن بن علی علیہم السلام (جنہیں "حسن مُثنّیٰ" کہا جاتا ہے)۔
جبکہ ایسے افراد جنہیں زخمی ہونے کے بعد شہادت نصیب ہوئی، وہ تین تھے:
1. سوار بن حمیر جابری
2. عمرو بن عبداللہ ہمدانی
3. مُرَقّع بن ثمامہ اسدی
کربلا کے شہداء کے سرِ مبارک
کربلا کے شہداء کے وہ پاک سَر جو لشکرِ عمر بن سعد نے جسموں سے جدا کیے، ان کی تعداد کے بارے میں تاریخی منابع میں یکسانی نہیں پائی جاتی:
بلاذری، دینوری، طبری، شیخ مفید، خوارزمی اور ابن نما کے مطابق شہداء کے ۷۲ سر، امام حسینؑ کے سر مبارک کے علاوہ، جدا کیے گئے۔
دینوری کے مطابق جب ان سروں کو مختلف قبیلوں میں تقسیم کیا گیا تو ان کی تعداد ۷۵ تھی، جبکہ بلاذری نے ابو مخنف کے حوالے سے ۸۲ سر نقل کیے ہیں۔
سبط ابن جوزی نے هشام کلبی سے نقل کیا ہے کہ یہ تعداد ۹۲ تھی۔
سید ابن طاؤس اور محمد بن ابی طالب موسوی نے ۷۸ سر لکھے ہیں۔
طبری اور ابن شہر آشوب نے ابو مخنف اور ابن صباغ مالکی کے حوالے سے ۷۰ سروں کا ذکر کیا ہے جو ابن زیاد کے پاس لے جائے گئے۔
بعض اقوال، خصوصاً جو ابتدائی مورخین سے منقول ہیں، ان کی تاریخی حیثیت زیادہ معتبر سمجھی جاتی ہے۔ شہداء کے سروں کو قبیلوں میں درج ذیل ترتیب سے تقسیم کیا گیا:
قیس بن اشعث، رئیس قبیلہ کِندہ: ۱۳ سر
شمر بن ذی الجوشن: ۱۲ سر
قبیلہ بنی تمیم: ۱۷ سر
قبیلہ بنی اسد: ۱۷ سر
قبیلہ مذحج: ۶ سر
دیگر قبائل کے افراد: ۱۳ سر
یہ لوگ ان سروں کو غنیمت سمجھ کر لے گئے تاکہ ابن زیاد کو پیش کر کے انعام حاصل کریں۔
اسیران و زندہ بچ جانے والے افراد
قدیم منابع کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد مردوں میں مندرجہ ذیل افراد زندہ بچے:
1. امام زین العابدینؑ
2. امام محمد باقرؑ
3. عمر بن حسین
4. محمد بن حسین بن علی
5. زید بن حسن
6. عمرو بن حسن
7. محمد بن عمرو بن حسن
8. حضرت جعفر کے دو فرزند
9. عبداللہ بن عباس بن علی
10. قاسم بن عبداللہ بن جعفر
11. قاسم بن محمد بن جعفر
12. محمد بن عقیل اصغر
13. عقبہ بن سمعان (حضرت رباب کا غلام)
14. عبدالرحمن بن عبد ربہ انصاری کا غلام
15. مسلم بن رباح (حضرت علیؑ کا غلام)
16. علی بن عثمان مغربی
زنان اہل بیت جو اسیر ہوئیں ان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں:
ابن سعد کے مطابق: ۶ خواتین
قاضی نعمان مغربی کے مطابق: ۴ خواتین
ابوالفرج اصفہانی کے مطابق: ۳ خواتین
انکے اسمائے مبارکہ یہ ہیں:حضرت علیؑ کی بیٹیاں: حضرت زینب کبریؑ اور حضرت ام کلثومؑ، امام حسینؑ کی بیٹیاں: سکینہؑ، فاطمہؑ صغری، اور فاطمہؑ، اہل حرم میں: حضرت ربابؑ (امام حسینؑ کی زوجہ اور حضرت سکینہ و علی اصغرؑ کی والدہ)،حضرت ام محمدؑ (امام حسنؑ کی بیٹی اور امام سجادؑ کی زوجہ، جو امام محمد باقرؑ کی والدہ ہیں)
کربلا میں ایک خاتون بھی امام حسینؑ کے ہمراہ شہید ہوئیں: ام وہب، جو عبداللہ بن عمیر کلبی کی زوجہ تھیں۔
کوفہ سے شام کا سفر
اسیری کے دوران کوفہ سے شام کے راستے میں ۱۴ منزلیں تھیں، جہاں اہل بیتؑ کو ٹھہرایا گیا۔
1. ابن اعثم، شیخ مفید اور شیخ طبرسی جیسے علما نے ان منزلوں کی مدت کو مختصر طور پر "چند دن" قرار دیا ہے۔
2. ابن سعد، طبری، خوارزمی (ابو مخنف کے حوالے سے)، ابن عساکر، سبط ابن جوزی، ابن کثیر اور علامہ مجلسی کے مطابق اہل بیتؑ اور خاندانِ معاویہ کی خواتین نے ۳ دن شام میں عزاداری کی۔
3. قاضی نعمان مغربی (وفات: ۳۶۳ھ) کے مطابق، ۴۵ دن شام میں قیام رہا۔
4. سید ابن طاووس (وفات: ۶۶۴ھ) کے مطابق، ایک مہینہ شام میں قیام ہوا۔
5. عمادالدین طبری اور علامہ مجلسی (ایک اور روایت میں) لکھتے ہیں کہ اہل بیتؑ نے ۷ دن شام میں عزاداری کی، اور آٹھویں دن یزید نے انھیں بلایا، ان سے نرمی اور ہمدردی کا اظہار کیا اور واپسی کا بندوبست کیا۔
ایک مہینے یا ۴۵ دن کی قیام کی روایت کو اتنی قوت حاصل نہیں کیونکہ اس کے قائلین منفرد ہیں۔ روایات کے مطابق، جب شام کی عورتوں نے اہل بیتؑ کی عزاداری دیکھی، تو وہ ان کی حقانیت سے متأثر ہوئیں اور پانچویں دن سے ان کے ساتھ مل کر عزاداری کرنے لگیں۔
لہٰذا، مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اہل بیتؑ کا شام میں قیام ۱۰ دن سے زیادہ نہیں تھا۔ اس کے بعد انھیں عزت و احترام کے ساتھ مدینہ واپس روانہ کیا گیا، اور ۲۰ صفر کو، یومِ اربعین کے دن کربلا پہنچے۔
منابع:
ارشاد شیخ مفید (ره)
مناقب ابن شهرآشوب (ره)
انساب الاشراف بلاذری
ویکی فقه
دانشنامه اسلامی
مقتل جامع سیدالشهداء استاد مهدی پیشوایی
مقاتل الطالبین ابوالفرج اصفهانی
منتهی الامال شیخ عباس قمی









آپ کا تبصرہ