بدھ 16 جولائی 2025 - 14:47
داستان کربلا | نوبہ سے کربلا تک؛ عاشورا کے دن جون نے کیا کردار ادا کیا؟

حوزہ/ سن ۶۱ ہجری کی ۲۰ محرم کو، امام حسینؑ اور اُن کے وفادار ساتھیوں کی شہادت کے ۱۰ دن بعد، قبیلہ بنی اسد جب شہداء کی تدفین کے لیے صحرائے کربلا پہنچا، تو امام حسینؑ کے ایک خدمتگار "جون" کا بدن بھی وہاں پایا گیا، جسے انہوں نے دفن کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی I سن ۶۱ ہجری کی ۲۰ محرم کو، امام حسینؑ اور اُن کے وفادار ساتھیوں کی شہادت کے ۱۰ دن بعد، قبیلہ بنی اسد جب شہداء کی تدفین کے لیے صحرائے کربلا پہنچا، تو امام حسینؑ کے ایک خدمتگار "جون" کا بدن بھی وہاں پایا گیا، جسے انہوں نے دفن کیا۔

جون کربلا کے شہداء میں سے تھے۔ وہ نوبہ (افریقا کے ایک علاقے) کے سیاہ فام باشندے تھے، اور حضرت فضل بن عباس بن عبدالمطلب کے غلام تھے۔ امام علیؑ نے اُنہیں ۱۵۰ دینار میں خریدا اور حضرت ابوذر کو ہدیہ کر دیا۔ جون حضرت ابوذر کی وفات (۳۲ ہجری) تک ربذہ میں ان کے ساتھ رہے، پھر حضرت علیؑ کے پاس آ گئے اور اہل بیتؑ کے ہمراہ زندگی گزاری۔

روایات کے مطابق، جون کو اسلحہ مرمت کرنے میں مہارت حاصل تھی، اور امام سجادؑ سے منقول ہے کہ شبِ عاشورا وہ امام حسینؑ کے خیمے میں موجود تھے اور ان کی تلوار درست کر رہے تھے۔

عاشورا کے دن جون کی رجزخوانی اور شہادت

جون نے میدانِ کربلا میں دشمن کے مقابلے میں جاتے ہوئے یہ رجز پڑھا:

«کیف یری الفجار ضرب الأسود بالسیف صلتا عن بنی محمد

أذب عنهم باللسان و الید أرجو بذلک الفوز عند المورد»

ترجمہ: بدکار لوگ کیسا منظر دیکھ رہے ہیں کہ ایک سیاہ فام غلام، محمدؐ کی اولاد کے دفاع میں ننگی تلوار سے حملہ آور ہے!

میں زبان اور ہاتھ دونوں سے ان کا دفاع کر رہا ہوں، اور امید رکھتا ہوں کہ اسی کوشش کے ذریعے قیامت کے دن نجات و کامیابی حاصل کروں گا۔

روایات کے مطابق، جب جون زخمی ہو کر زمین پر گرے تو امام حسینؑ خود ان کے سرہانے تشریف لائے اور ان کے لیے دعا کی:«اللّهُمَّ بَیِّض وَجهَهُ، وَ طَیِّب ریحَهُ، وَ احشُرهُ مَعَ الأبرارِ، وَ عَرِّف بَینَهُ وَ بَینَ مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّدٍ»

ترجمہ:اے اللہ! اس کے چہرے کو روشن فرما، اس کے بدن کو خوشبو عطا فرما، اسے نیکوکاروں کے ساتھ محشور فرما، اور اسے محمدؐ و آلِ محمدؐ کے درمیان مشہور و معروف بنا دے۔

اس کے جسدِ مطہر کو امام حسینؑ کے قدموں کی جانب دیگر شہداء کے ساتھ دفن کیا گیا۔

علامہ مجلسی نے امام محمد باقرؑ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جون کا بدن دس دن بعد میدانِ کربلا میں پایا گیا، اور اس سے خوشبو کی مہک آ رہی تھی۔

اگرچہ جون ایک بوڑھے غلام تھے، مگر اہل بیتؑ کے بچوں سے ان کا بڑا مانوس تعلق تھا۔ جب وہ خیموں کے قریب الوداع کرنے آئے تو بچوں کے رونے کی آواز بلند ہو گئی اور سب ان کے گرد جمع ہو گئے۔

جون نے ہر بچے کو محبت سے چپ کرایا اور انہیں نرمی سے خیموں میں واپس بھیج دیا۔

روایات میں ہے کہ جون نے عمرو بن قرظه کے بعد، اور بعض کے مطابق نماز جماعت کے بعد، امام حسینؑ سے میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت مانگی۔ وہ ۲۵ دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔

کتب میں ان کا نام مختلف صورتوں میں ذکر ہوا ہے: جون، جوَین، حُوی، جوین بن ابی مالک اور جوین مولی ابوذر۔ زیارت ناحیہ غیر مشہورہ میں بھی اسی نام سے ان پر سلام کیا گیا ہے۔

جب روز عاشورا جنگ شدید ہوئی، تو جون امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میدان میں جانے اور دفاعِ ولایت و امامت کی اجازت چاہی۔

امامؑ نے فرمایا: "تم ہمارے اس سفر میں صرف سلامتی کی امید پر ساتھ آئے تھے، اب تم خود کو ہماری خاطر مصیبت میں نہ ڈالو۔"

جون امام حسینؑ کے قدموں میں گر پڑے، ان کے پاؤں چومے اور عرض کیا: "اے فرزند رسول! جب آپ آرام و راحت میں تھے، میں آپ کا خادم تھا، تو کیا اب جب آپ مصیبت میں ہیں، میں آپ کو چھوڑ دوں؟"

علامہ ابوالحسن شعرانی نے کتاب دمع السجوم (نفس المهموم کا فارسی ترجمہ) میں لکھا ہے: امامؑ نے فرمایا: "میں تمہیں آزاد کرتا ہوں، کیونکہ تم صرف ہماری سلامتی کی نیت سے ہمارے ساتھ آئے تھے۔ جاؤ تاکہ تمہیں کوئی گزند نہ پہنچے۔"

جون نے عرض کیا: "یا ابن رسول اللہ! کیا میں خوشیوں میں آپ کے دسترخوان کا نمک کھاؤں، اور جب سختی آئے تو آپ کا ساتھ چھوڑ دوں؟"

شہید مطہری فرماتے ہیں کہ امام حسینؑ نے جون کے لہجے سے محسوس کیا کہ اگر اُنہیں روکا گیا تو وہ احساسِ حقارت میں مبتلا ہو جائیں گے، لہٰذا امامؑ نے فرمایا: "اگر تم میدان میں جانا چاہتے ہو تو جاؤ، میں مانع نہیں۔" اور یوں امامؑ نے واضح کر دیا کہ جون کی بیعت کو اٹھانا ان کی کمزوری کی بنا پر نہ تھا بلکہ محض اس لیے کہ انہوں نے عمر بھر اہل بیتؑ کی خدمت کی تھی، اس لیے وہ اس مرحلے پر آزاد تھے اور اُن پر کوئی شرعی ذمہ داری نہ تھی۔

جون نے عرض کیا: "آقا! میرا بدن بدبو دار ہے، نہ کوئی خاندانی شرافت ہے اور میرا رنگ بھی سیاہ ہے۔ یا اباعبدالله! آپ کرم فرمائیں اور مجھے جنتی بنا دیں تاکہ میری خوشبو اچھی ہو، مجھے شرافت ملے اور میں روسفید ہو جاؤں۔ میرے مولا! میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا جب تک میرا سیاہ خون آپ اہل بیتؑ کے خون کے ساتھ نہ مل جائے۔"

جون یہ کہتے جاتے تھے اور شدت سے گریہ کرتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ امام حسینؑ کی آنکھوں سے بھی اشک جاری ہوئے اور آپؑ نے انہیں اجازت دے دی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha