جمعہ 11 جولائی 2025 - 15:58
داستان کربلا | پندرہ محرم: شہدائے کربلا کے سروں کا شام روانہ کیا جانا

حوزہ/ پندرہ محرم کا دن وہ دن ہے جب یزید کے حکم پر شہدائے کربلا کے سروں کو شام روانہ کیا گیا۔ ساتھ ہی یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ اہل بیتؑ کے قافلے کو شام بھیجنے کی تیاری کرے۔ مورخین کے مطابق یہ تیاریاں انیس محرم تک جاری رہیں، اور زیادہ تر مؤرخین کا کہنا ہے کہ کوفہ سے قافلے کی روانگی انیس محرم کو ہوئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی I پندرہ محرم کا دن وہ دن ہے جب یزید کے حکم پر شہدائے کربلا کے سروں کو شام روانہ کیا گیا۔ ساتھ ہی یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ اہل بیتؑ کے قافلے کو شام بھیجنے کی تیاری کرے۔ مورخین کے مطابق یہ تیاریاں انیس محرم تک جاری رہیں، اور زیادہ تر مؤرخین کا کہنا ہے کہ کوفہ سے قافلے کی روانگی انیس محرم کو ہوئی۔

عیسائی راہب اور دیر (راہب کا عبادت خانہ) کا واقعہ

جب شہدا کے سروں کے حامل لوگ پہلے پڑاؤ پر رکے، تو انہوں نے سرِ مبارک امام حسینؑ کے ساتھ کھیل تماشہ شروع کر دیا اور رات کے کچھ حصے کو عیش و عشرت میں گزارا۔ اچانک ایک ہاتھ دیوار سے ظاہر ہوا اور ایک لوہے کے قلم سے خون سے یہ شعر لکھا: اَتَرْجُو اُمَّةٌ قَتَلَتْ حُسَیْنا شَفاعَةَ جَدِّهِ یَوْمَ الْحِسابِ

کیا وہ قوم جو حسینؑ کو قتل کر چکی، قیامت کے دن ان کے نانا (رسولؐ خدا) کی شفاعت کی امید رکھتی ہے؟

یہ منظر دیکھ کر سر لے جانے والے لوگ سخت گھبرا گئے۔ کچھ نے اس ہاتھ کو پکڑنے کی کوشش کی، لیکن وہ غائب ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ دوبارہ ظاہر ہوا اور لکھا: فَلا وَ الله لَیْسَ لَهُم شَفیع وَ هُمْ یَومَ القیامَةِ فِی الْعَذابِ

خدا کی قسم! ان کے لیے کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہو گا اور وہ قیامت کے دن عذاب میں ہوں گے۔

پھر جب لوگوں نے تیسری بار ہاتھ کو پکڑنا چاہا، تو وہ پھر غائب ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ تیسری بار ظاہر ہوا اور لکھا: وَ قَدْ قَتَلُوا الْحُسَیْنَ بِحُکْمِ جَوْرٍ وَ خَالَفُوا حُکْمَ الْکِتابِ

حسینؑ کو ظالمانہ حکم کے تحت قتل کیا گیا اور انہوں نے اللہ کی کتاب (قرآن) کے حکم کی مخالفت کی۔

ان مناظر کے بعد ان لوگوں کو سخت خوف لاحق ہو گیا، انہوں نے کھانا چھوڑ دیا اور رات بھر نہ سو سکے۔

راہب کا ایمان لانا

نصف شب کو دیر (راہب کا عبادت خانہ) میں رہنے والے راہب کو ایک عجیب آواز سنائی دی۔ وہ غور سے سننے لگا، تسبیحِ خداوندی کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں۔ جب اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو دیکھا کہ نیزے پر نصب ایک سرِ مبارک سے آسمان کی طرف نور بلند ہو رہا ہے اور فرشتے جوق در جوق آتے جا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں: السلام علیک یابن رسول الله، السلام علیک یا اباعبدالله راہب یہ منظر دیکھ کر کانپ اٹھا۔ وہ باہر آیا اور قافلے کے لوگوں سے پوچھا کہ تم میں سب سے بڑا کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ "خولی"۔ راہب خولی کے پاس گیا اور پوچھا: یہ کس کا سر ہے؟ خولی نے بےادبی سے جواب دیا: یہ ایک خارجی کا سر ہے جسے ابن زیاد نے قتل کیا۔ راہب نے پوچھا: اس کا نام؟ خولی نے کہا: حسین بن علی بن ابیطالبؑ۔

راہب نے مزید پوچھا: اس کی ماں کا نام؟ جواب ملا: فاطمہ بنت محمدؐ۔ راہب نے حیرانی سے کہا: کیا وہی محمدؐ جو تمہارا نبی ہے؟ خولی نے کہا: ہاں۔ یہ سن کر راہب چیخ پڑا: "افسوس ہے تم پر! تم نے کیا ظلم کیا ہے!" پھر راہب نے کہا: کیا یہ سر مجھے رات بھر کے لیے دے سکتے ہو؟ خولی نے انکار کیا اور کہا کہ ہم یزید سے انعام لیں گے۔ راہب نے پوچھا: انعام کتنا؟ خولی بولا: دس ہزار درہم۔ راہب نے کہا: میں دس ہزار درہم دیتا ہوں، سر مجھے دے دو۔ خولی نے رقم لے کر سرِ مبارک راہب کے حوالے کر دیا۔

راہب نے سر کو عطر لگا کر اپنی جائے عبادت میں رکھا، ساری رات گریہ کیا اور صبح ہونے پر کہنے لگا: "اے میرے آقا حسینؑ! میرے پاس کچھ نہیں، سوائے میرے آپ کے غلام ہونے کے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور میں آپ کا بندہ ہوں۔ اگر میں کربلا میں ہوتا تو اپنی جان آپ پر قربان کر دیتا۔ جب آپ اپنے نانا سے ملیں تو گواہی دیجئے کہ میں نے کلمہ پڑھا اور اسلام قبول کیا۔"

صبح ہوتے ہی اس نے سرِ مبارک واپس کیا اور خود دیر سے باہر نکل کر اہل بیتؑ کا خادم بن گیا۔

درہم کا معجزہ

ابن ہشام کہتا ہے: جب سر واپس لیا گیا اور قافلہ دمشق کے قریب پہنچا تو قافلے والوں نے درہم آپس میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یزید کو پتا نہ چلے۔ جب تھیلیاں کھولیں تو اندر درہم کی جگہ مٹی کی بنی تختیاں نکلیں جن پر لکھا تھا: "فلا حسبن الله غافلا عما یعلم الظالمون "گمان نہ کرو کہ خدا ظالموں کے اعمال سے غافل ہے۔" (سورہ ابراہیم، آیت ۴۲)

اور دوسری پر لکھا تھا: وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون "ظالموں کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ ان کا انجام کیا ہے۔" (سورہ شعراء، آیت ۲۲۷)

یہ دیکھ کر وہ بہت گھبرا گئے اور ان تختیوں کو ندی میں پھینک دیا۔ خولی نے کہا: اس بات کو راز رکھو، اور دل میں کہا: "انا للہ و انا الیہ راجعون، دنیا اور آخرت سے ڈرو!"

سرِ امام حسینؑ کے قیام کے مقامات

مشہور شیعہ عالم ابن شہر آشوب کہتے ہیں کہ امام حسینؑ کے سرِ مبارک کے جہاں جہاں قیام ہوئے، وہاں زیارتگاہیں بن گئیں، جیسے کربلا، عسقلان، موصل، نصیبین، حماہ، حمص، دمشق وغیرہ۔

موصل کے قریب جب قافلہ پہنچا تو اہل شہر نے درخواست کی کہ شہر میں داخل نہ ہوں، شہر کے باہر ہی قیام کریں۔ قافلہ نے شہر سے ایک فرسخ دور پڑاؤ کیا۔ جب سر کو ایک پتھر پر رکھا گیا تو اس سے خون ٹپکا اور ایک چشمے کی مانند جاری ہو گیا۔ محرم کے دن لوگ اس جگہ آتے اور عزاداری کرتے۔ یہ سلسلہ عبدالملک بن مروان کے زمانے تک جاری رہا، جب اس نے اس پتھر کو ہٹوا دیا، تب وہ اثر مٹ گیا، لیکن اسی جگہ بعد میں ایک گنبد بنایا گیا۔

توبہ کرنے والا قافلے کا ایک شخص

مشہور راوی "سلیمان بن مہران اعمش" کہتے ہیں: میں کعبہ کے طواف میں تھا کہ ایک شخص کو دیکھا جو رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا:اللهم اغفرلی و انا اعلم انک لا تغفر. "اے خدا! مجھے بخش دے، اگرچہ میں جانتا ہوں کہ تو مجھے نہیں بخشے گا!"

میں نے پوچھا: ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟ اس نے کہا: میں ان چالیس افراد میں سے ایک ہوں جو امام حسینؑ کا سر شام لے جا رہے تھے۔ جب ہم پہلے پڑاؤ پر پہنچے اور کھانے بیٹھے تو اچانک ایک ہاتھ نمودار ہوا اور دیوار پر یہ لکھا: "کیا وہ قوم جو حسینؑ کو قتل کر چکی ہے، نبیؐ کی شفاعت کی امید رکھتی ہے؟" ہم سب خوفزدہ ہو گئے۔ ہم میں سے ایک نے اس ہاتھ کو پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ غائب ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق، جب راہب سے پوچھا گیا تو اس نے کہا: "یہ اشعار پانچ سو سال قبل (اور بعض اقوال کے مطابق تین سو سال قبل) پیغمبر تمہارے مبعوث ہونے سے پہلے سریانی زبان میں لکھے جا چکے تھے۔"

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha