حوزہ نیوز ایجنسی| مذہب کے اصولوں میں سے ایک ' عدل و انصاف' کو عالمی سطح پر رائج (Prevalent) کرنے میں امام حسین کامیاب رہے۔ جب کہ، اس دور میں، سنہ 680 میں، اس اصول کے پیروکار بہت کم تھے۔ پھر بھی حسین نے اس اخلاقی تصوّر (Concept) کو ترتیب (formulate) دیا، جس کا اثر آج تک، 1345 سالوں کے بعد بھی دیکھا جا سکتا ہے! مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا جیسے عظیم شخصیات نے صدیوں بعد حسین سے ایسا کیا پیغام حاصل کیا؟ ایسے سوالات کا سامنا کرتے ہوئے ڈاکٹر کریسا ہگس اپنی کتاب "Hussain and the Struggle for Justice" میں لکھتی ہیں:
"ایک شہید کی صورت میں حسین نے صداقت کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کو انصاف، فیصلہ، وقار اور احترام کے ساتھ جینے کے لیے ترغیب دی۔"
اس وقت سلطنت کا حکمران 'یزید' جابرانہ آمریت کے نظام سے آدھی دنیا پر قابض تھا۔ یزید کی سماجی، مذہبی اور سیاسی پالیسیوں سے انسانی قدریں پامال ہو رہی تھیں۔ 'سچ' کو کچلا جا رہا تھا اور جھوٹے پروپیگنڈے کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ کمزور لوگ اپنا وجود بچانے کے لیے جدو جہد کر رہے تھے، لیکن اُنہیں دبایا جا رہا تھا۔ عوام الجھن، گمراہی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ایسے میں امام حسین عوام کی بھلائی کے لیے اچھائیوں کو فروغ دینے اور برائیوں کو روکنے کی مہم چلا رہے تھے۔ جب 'یزید' نے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ (پیغمبر کا نمائندہ) قرار دے دیا، تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔
تو 'یزید' نے ان کی مخالفت کو اپنی حکومت کے زور پر کچل دیا ، مگر حسین نے اپنی مخالفت جاری رکھی۔ عوام کے تئیں اپنی ذمہ داری سمجھ کر، لوگوں کی زندگی میں توحید کے اصولوں کو پروان چڑھانے, لوگوں کو انصاف دلانے اور عزت کے ساتھ جینے کا حق دلوانے کے لیے 'یزید' مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ۔حسین کی بے نظیر سیاسی بصیرت اور آپ کی کامیابی کے بارے میں آج تک دنیا غور کر رہی ہے۔ آج بھی، دنیا کے متعدد دانش مند حسین کو الگ الگ نظر سے دیکھتے ہیں ۔
ایک سیاسی نابغہ کی صورت میں حسین کو دیکھا جاتا ہے۔ حسین صرف زمینی سطح پر یزید کی تباہی نہیں چاہتے تھے، بلکہ 'یزید' کے جھوٹی اور ظالمانہ پالیسیوں کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ تلواریں نیزے اور تیروں سے ظالم یزید کی فوج کو تو ختم کر سکتے تھے، مگر اس کی حکومت کے ظالمانہ نظریات کو نہیں۔ اسی لیے حسین نے، 'یزید' کی فوج کا مقابلہ اسلحوں سے نہیں بلکہ اس کی ظالمانہ پالیسیوں کو رد کر کے کیا۔ حسین انسانی اقدار کی گہری سمجھ رکھتے تھے، اس لیے حسین نے 'یزید' کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگ کا نیا طریقہ — سچائی کی تحریک ستیہاگرا — کے طور پر اپنایا، جو دنیا نے پہلے نہ سوچا تھا اور نہ دیکھا تھا۔ کربلا میں حسین کے تحریکی محاذ پر، 'یزید' کی فوج نے حملہ کیا، جس میں حسین اور ان کے 72 ساتھی اپنا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ حسین کی شہادت نے لوگوں کے مردہ ضمیر کو زندہ کر دیا۔ لوگوں میں بیداری آئی، ظالم 'یزید' کا خوف ختم ہوا، لوگ صداقت اور انصاف کے لیے 'یزید' کے خلاف کھڑے ہو گئے۔
حسینی انقلاب نے 'یزید' کی حکومت جوکہ آدھی دنیا پھیلی ہوئی تھی، دو سال کی مدت میں حکومت کے بستر کو سمیٹ دیا —
لوک مانیا تلک جی نے کہا:
" حسین دنیا کے پہلے انقلابی ہیں!"
دنیا میں بہت سارے انقلابات آئے ان میں سے کچھ ہی کامیاب رہے , وه بھی کچھ عرصے تک ـ مگر حسینی انقلاب ایسا کامیاب ہوا جو آج بھی دنیا کو روشنی دے رہا ہے۔ اس لیے کہ حسینی انقلاب سچائی عدل و انصاف آزادی اور عزت کے ساتھ جینے کی ترغیب دلاتا بے _ اور یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ میں 'حسین' ہی ایک ایسے فاتح ہیں، جنہوں نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے شہید ہو کر اپنا مقصد حاصل کیا۔ ' حسين کی تحریک اور انقلاب ظالم کے لیے تنبیہ ہے اور مظلوم کے لیے حوصلہ افزائی ہے ۔
اگرچہ یزید مسلم حکمران تھا پھر بھی یزیدی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کی مخالفت میں حسینؑ کا قیام کرنا آپ کی غیر فرقہ وارانہ سوچ کا ثبوت ہے، کیونکہ یزیدی سلطنت میں مسلمان، یہودی، عیسائی اور دیگر اقلیتی فرقوں کی آبادی بھی تھی۔
حسینؑ کو انسانیت کا ‘مسیحا’ سمجھا جاتا ہے۔ حسینؑ وہ پہلے شہید ہیں جنہوں نے دنیا کو انسانیت کی ڈور میں پرویا۔ حسینؑ نے جنگ کی تباہی کے مدنظر ,انسانی اقدار کی حفاظت کی خاطر یزیدی ظالم حکومت سے مقابلے کے لیےانقلاب کا راستہ اختیار کیا۔ حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کو کربلا کے راستے میں یزید کی فوج نے روک لیا۔ اس وقت یزیدی سپاہی پیاسے تھے، ایسے میں حسینؑ نے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہیں پانی پلایا، اور دنیا کو عملی پیغام دیا:
"میرے دشمن سپاہی پیاسے تھے، اگر میں ان کو اپنے پاس سے پانی نہ پلاتا ، تو وه مر جاتے ، مگر میں نے دشمن سپاہیوں کو پانی پلایا کر اپنے خدا کی مخلوق کی حفاظت کی ۔ میں دنیا سے یہی چاہتا ہوں کہ: ‘ لوگ آپس میں اختلافات کے باوجود انسانیت کو فراموش نہ کرے ، اور ایک دوسرے کے ساتھ انسانی ہمدردی کرنے میں تعصب( بھید بھاؤ) نہ کرے’۔"
مخالف فوج کے ساتھ امام حسینؑ کا یہ قدم ہر زمانے میں انسانی ہمدردی مضبوط کرنے کے لیے کافی ہے ۔ سانے گروجی نے اپنی کتاب"بھارتی سنسکرتی" لکھا ہے: "جہاں قربانی ہے، وہیں دین ہے!"
حسینؑ اور ان کے 72 ساتھیوں نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قربانیاں دی , ان میں سے 18 حسین کے خاندان سے تھے ۔ اب دنیا غور و فکر کریں سے غور و فکر کریں...!
حسینؑ کئی کرداروں میں اپنے زمانے کے نمائندہ تھے۔ ان کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اپنے وقت کی ضرورت کو پہچانا، جو انسانیت کی بھلائی میں ضروری تھا، اسے انجام دیا۔
حسینؑ کی بندگی اور لوگوں کے تئی ان کا ایثار برابری اور بھائی چارے کو مضبوط بناتا ہے مشہور مصنف" منشی پریم چند جی لکھتے ہیں:
"دنیا جس برابری اور بھائی چارے کی گتھی سلجھانے کی کوشش (آج)کر رہی ہے، اسے حسینؑ نے اپنی تحریک اور انقلاب کے ذریعہ ساتویں صدی عیسوی میں سلجھا دیا تھا ."
اسی لئے کربلا میں حسین کی شہادت دنیا کا سب سے عظیم, سچا اور تاریخ ساز واقعہ ہے.
کربلا میں حسینؑ کی شہادت کا واقعہ صرف ایک درد بھری داستان نہیں ہے، بلکہ اس واقعے میں انسانی طرز زندگی کا _ ڈی این اے _(DNA) ہے، اسی لیے دنیا میں حسین کی شہادت و کامیابی کی چرچا ہوتی رہی ہے ۔
یادِ حسینؑ!









آپ کا تبصرہ