پیر 7 جولائی 2025 - 14:29
گیارہویں محرم کے واقعات، اسارت کی مصیبت شہادت سے بھی زیادہ دردناک!

حوزہ/ حضرت امام حسین بن علی علیہ السلام اور کربلا کے دیگر شہداء کی دل سوز شہادت کے بعد اگرچہ ظاہری طور پر عاشورا کے واقعات ختم ہو چکے تھے، لیکن اصل مصیبتوں کا سلسلہ ابھی شروع ہوا تھا یعنی اہلِ بیتِ رسول ص کی اسارت کا دردناک مرحلہ۔

حوزہ نیوز ایجنسی I حضرت امام حسین بن علی علیہ السلام اور کربلا کے دیگر شہداء کی دل سوز شہادت کے بعد اگرچہ ظاہری طور پر عاشورا کے واقعات ختم ہو چکے تھے، لیکن اصل مصیبتوں کا سلسلہ ابھی شروع ہوا تھا یعنی اہلِ بیتِ رسول ص کی اسارت کا دردناک مرحلہ۔

عاشورا کی شام اور شامِ غریباں:

اموی لشکر کے سپاہیوں نے ظلم و بربریت کی تمام حدیں پار کر دیں۔ شہداء کے جسموں سے کپڑے اتار لیے گئے، امام حسینؑ اور دیگر شہداء کے پاکیزہ جسموں پر گھوڑے دوڑائے گئے، خیمے لوٹ لیے گئے، جلائے گئے، اور امام حسینؑ کا سر مبارک کوفہ روانہ کر دیا گیا۔ ان ظالمانہ حرکتوں کے ساتھ یزیدی فوج نے اپنی سفاکیت کی سیاہ تاریخ مکمل کر لی۔

گیارہویں محرم کے المناک واقعات:

عمر بن سعد اور اس کے ساتھی گیارہویں محرم کی دوپہر تک کربلا میں ٹھہرے رہے تاکہ اپنے مقتولین کو دفن کریں۔لیکن امام حسینؑ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کے بے سر جسموں کو بے کفن، تپتے ہوئے میدان میں چھوڑ دیا۔ پھر کوچ کا اعلان کیا گیا۔

عورتوں و بچوں کو "جو رسول خدا ص کی امانتیں تھیں" کھلے سر، چادریں چھینی ہوئی، زخمی دلوں اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ ہزاروں دشمنوں کے سامنے ننگے کجاوے والے اونٹوں پر سوار کر کے کوفہ روانہ کیا گیا، بالکل اسیرانِ جنگ کی طرح، جیسے ترک یا رومی قیدیوں کو لے جایا جاتا ہے۔ اس کارواں پر شدید غم و اندوہ کے سائے چھائے ہوئے تھے۔

سروں کی بے حرمتی اور تقسیم:

عمر بن سعد نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ دیگر شہداء کے سر بھی تن سے جدا کیے جائیں۔

پھر ان سروں کو میدانِ جنگ میں شریک قبیلوں میں اس طرح تقسیم کیا گیا تاکہ وہ ان سر مبارکوں کو یزید بن معاویہ کے دربار میں بطور تحفہ لے جا کر انعام حاصل کر سکیں۔ کسی قبیلے کی کربلا میں شرکت جتنی زیادہ تھی، اسے اتنے ہی سر دیے گئے۔ خولی بن یزید اور حمید بن مسلم (جو واقعاتِ کربلا کے راوی بھی ہیں) نے امام حسینؑ کا سر مبارک علیحدہ طور پر رات کی تاریکی میں کوفہ لے جانے کی ذمہ داری لی۔

جبکہ باقی شہداء کے سر شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث، اور عمرو بن حجاج نے کوفہ روانہ کیے۔

ان سب ملا کر شہداء کے سروں کی تعداد ۷۲ بنتی ہے، جنہیں درج ذیل قبیلوں میں تقسیم کیا گیا:

سروں کی تقسیم قبیلوں کے حساب سے:

1. قبیلہ کندہ (قیس بن اشعث کی سربراہی میں) — 13 سر

2. قبیلہ ہوازن (شمر بن ذی الجوشن کی قیادت میں) — 12 سر

3. قبیلہ تمیم — 17 سر

4. قبیلہ بنی اسد — 9 سر

5. قبیلہ مذحج — 7 سر

6. دیگر قبائل — 13 سر

یہ مظالم محض جنگی اقدامات نہ تھے بلکہ اہلِ بیتِ رسول ﷺ کی حرمت شکنی، انسانیت کی توہین، اور ظلم کی وہ سیاہ تاریخ تھی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔

گیارہویں محرم کا دن، کربلا کے خونی منظر کے بعد، ایک نئی المناک داستان کا آغاز تھا جسے ہم "اسارت" کے نام سے جانتے ہیں، اور جو شہادت سے بھی زیادہ دل سوز باب ہے۔

اسیرانِ کربلا کا قتلگاہ سے گزرنا

عمر بن سعد کے حکم پر کوفہ کے لشکر نے اسیرانِ اہل بیتؑ کے قافلے کو قتلگاہ یعنی شہداء کے لاشوں کے درمیان سے گزارا۔ (اگرچہ بعض تاریخی روایات میں آیا ہے کہ یہ گزرنا بعض اسیران کی درخواست پر تھا۔) لیکن اس منظر نے اہلِ بیتِ رسول ص کے دلوں کے زخم پھر سے ہرے کر دیے۔ ان کی آہ و زاری، گریہ و فریاد آسمان تک جا پہنچی۔

ایک چشم دید گواہ کی روایت:

قرہ بن قیس تمیمی (اور بعض روایات میں راوی کا نام محمد بن مسلم آیا ہے) جو خود عمر بن سعد کے سپاہی اور کربلا کے چشم دید گواہ تھے، روایت کرتے ہیں:

"جب اسیرانِ اہل بیت کو قتلگاہ سے گزارا گیا، تو میں نے خواتینِ اہل بیت کو دیکھا کہ جب وہ امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کے لاشوں کے قریب پہنچیں، تو رونا پیٹنا شروع کر دیا، اپنے چہروں پر طمانچے مارے۔ میں اپنے گھوڑے پر سوار ان کے قریب سے گزرا…

میں زندگی میں اگر سب کچھ بھول بھی جاؤں، تو زینبؑ بنتِ فاطمہؑ کے وہ جملے نہیں بھول سکتا، جو انہوں نے اپنے بھائی حسینؑ کے لاشے کے پاس کہے۔ وہ کہہ رہی تھیں: «یا مُحَمّداه ، صَلّی‌ عَلَیکَ مَلیکُ السَّماءِ ، هذا حُسَینٌ بِالعَراءِ ، مُزَمَّلٌ‌ بِالدِّماءِ ، مُعَفَّرٌ بِالتُّرابِ ، مُقَطَّعُ الأَعضاءِ ، یا مُحَمَّداه ! بَناتُکَ فِی العَسکَرِ سَبایا ، وذُرِّیَّتُکَ قَتلی‌ تَسفی عَلَیهِمُ الصَّبا ، هذَا ابنُکَ مَحزُوزُ الرَّأسِ مِنَ القَفا ، لا هُوَ غائِبٌ فَیُرجی‌ ولا جَریحٌ فَیُداوی‌» "وا محمداه! اے محمدؐ، فرشتگانِ آسمان تجھ پر درود بھیج رہے ہیں! یہ تیرا حسینؑ ہے جو بے گورو کفن، خون میں لت پت، خاک میں آلودہ، اور اعضا بریدہ ہو کر میدان میں پڑا ہے! اے محمدؐ! تیری بیٹیاں اسیر بنائی جا رہی ہیں، اور تیری نسل قتل کر دی گئی ہے، جن پر ہوا خاک اڑا رہی ہے! یہ تیرا فرزند ہے جس کا سر پشت گردن سے جدا کر دیا گیا ہے، نہ وہ لاپتا ہے جس کے واپس آنے کی امید ہو، اور نہ زخمی ہے کہ جس کا علاج کیا جائے!"

زینبؑ یہ کلمات مسلسل دہراتی رہیں یہاں تک کہ اللہ کی قسم! دوست و دشمن سب رو پڑے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کئی سپاہیوں کے آنسو دیکھے جو ان کے گھوڑوں کے سُموں تک ٹپک رہے تھے۔"

حضرت سکینہؑ کا پدرِ بزرگوار سے الوداع

پھر امام حسینؑ کی بیٹی حضرت سکینہؑ آگے بڑھیں اور اپنے بابا کے لاشے سے لپٹ گئیں، اور گریہ و ماتم کرنے لگیں۔ وہ مسلسل اپنے والد سے باتیں کرتی رہیں اور گریہ کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ عمر بن سعد کے کچھ سپاہی آگے بڑھے اور زبردستی انہیں بابا کے جسمِ مبارک سے الگ کیا اور گھسیٹتے ہوئے انہیں باقی اسیران کے پاس لے گئے۔

دعائے وداع:

"شیخ کفعمی" نقل کرتے ہیں کہ حضرت سکینہؑ فرماتی ہیں: "جب میں نے بابا کے جسم کو گلے لگایا، تو مجھ پر غشی طاری ہو گئی۔ اسی حالت میں میں نے سنا کہ میرے بابا کہہ رہے ہیں: "اے میرے شیعو! جب بھی ٹھنڈا پانی پیو تو مجھے یاد کرنا، اور جب کسی مسافر یا شہید کی خبر سنو، تو میرے غم میں نوحہ کرنا!"

حضرت امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کی تدفین

شیعہ و سنی تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ گیارہ محرم کو عمر بن سعد کا لشکر جب کوفہ کی جانب روانہ ہوا، تو قبیلہ بنی اسد کے لوگ، جو غاضریہ کے قریب رہتے تھے، میدان کربلا آئے اور امام زین العابدینؑ کی موجودگی میں شہدائے کربلا کی تدفین انجام دی۔

تدفین کا طریقہ:

حضرت زین العابدینؑ کی رہنمائی میں امام حسینؑ کو اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں آج ان کی قبرِ مبارک ہے حضرت علی اصغرؑ کو امام حسینؑ کے سینے کے قریب دفن کیا گیا۔ حضرت علی اکبرؑ کو امام حسینؑ کے قدموں کے پاس دفن کیا گیا۔ باقی شہدائے کربلا کو چاہے وہ بنی ہاشم میں سے ہوں یا نہ ہوں امام حسینؑ کے قدموں کے نیچے ایک اجتماعی قبر میں دفن کیا گیا۔

حضرت عباسؑ کی تدفین:

پھر وہ حضرت عباس بن علیؑ کے جسدِ مطہر کے پاس آئے اور انہیں غاضریہ کے راستے میں، وہیں دفن کیا جہاں آپؑ نے جامِ شہادت نوش کیا تھا یعنی وہی مقام جو آج آپؑ کی روضۂ اقدس ہے۔

قافلۂ اسرا کی کوفہ آمد

یہ مظلوم اور داغ دیدہ قافلہ شام کے قریب کوفہ پہنچا لیکن کوفہ کے دروازے بند تھے، چنانچہ ان محترم خواتین اور بچوں کو پوری رات دروازے کے باہر رُکے رہنا پڑا۔

صبح کے وقت عمر بن سعد ملعون کوفہ سے نکلا، اور ایک فاتح سپہ سالار کی طرح، خوشی کے عالم میں اسیران کے ہمراہ ابن زیاد کے دربار میں داخل ہوا…

منابع:

ارشاد شیخ مفید ره

مقتل الحسین علیه السلام خوارزمی

مقتل لهوف سیدبن طاووس ره

پایگاه ویکی فقه

مناقب ابن شهر آشوب ره

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha