حوزہ نیوز ایجنسی I جس وقت اہل بیتؑ کو قید کرکے کوفہ لے جایا گیا، اُسی دوران ابن زیاد نے 13 محرم کو یزید (جو شام میں تھا) اور عمرو بن سعید (جو مدینہ کا گورنر تھا) کو خط لکھا اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر دی۔ پھر 14 محرم کو شام سے حکم آیا کہ اسیرانِ اہل بیتؑ کو تیار کیا جائے اور شہداء کربلا کے مبارک سروں کے ساتھ یزید کے پاس دمشق بھیجا جائے۔
مدینہ میں شہادت کی خبر کا اعلان
شہادت کی خبر پہنچنے والے ابتدائی مقامات میں مدینہ منورہ بھی شامل تھا۔ چونکہ مدینہ، امام حسینؑ کا وطن تھا اور وہاں بنی ہاشم کے کئی افراد رہتے تھے، اس لیے جب یہ خبر وہاں پہنچی تو جذباتی اور شدید ردِ عمل سامنے آیا۔
مدینہ کا حاکم عمرو بن سعید تھا۔ اس نے حکم دیا کہ امام حسینؑ کی شہادت کی خبر عام طور پر لوگوں میں پھیلائی جائے۔ اُس نے اپنے قریبی ساتھی عبدالملک بن ابی حارث سلمی کو یہ ذمے داری سونپی۔
جب عمرو بن سعید نے عبدالملک سے سوال کیا کہ کیا خبر لائے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا: "امیر! حسین بن علی قتل ہو چکے ہیں۔" اس پر فوراً عمرو بن سعید نے حکم دیا کہ اس خبر کو سب میں اعلان کرو۔ چنانچہ عبدالملک لوگوں کے درمیان چلایا: "حسین بن علی قتل ہو گئے!"
یہ خبر جیسے ہی عام ہوئی، مدینہ میں بنی ہاشم کی خواتین اپنے گھروں میں ماتم کرنے لگیں۔ گریہ و زاری کی صدائیں پورے مدینہ میں گونجنے لگیں۔
کوفہ کی تاریخ اور دارالامارہ
کوفہ ایک ایسا علاقہ ہے جو اسلام سے پہلے آباد تھا، پھر ویران ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی کشتی اسی جگہ تیار کی تھی۔ قومِ نوح نے یہاں بت رکھے ہوئے تھے۔ اس بستی کا پرانا نام "سورستان" تھا۔ اسلامی دور میں اسے دوبارہ بسایا گیا۔
اسلامی فتوحات کے دوران یہاں مسلمانوں کا مستقل فوجی کیمپ قائم ہوا۔ خلیفہ دوم عمر بن خطاب نے اپنے کمانڈر سعد بن ابی وقاص کو حکم دیا کہ سال 15، 17 یا 19 ہجری میں مسلمانوں کے لیے یہاں اقامت گاہ بنائے۔ چنانچہ کوفہ، دریائے فرات کے مغرب میں نصف فرسخ اور حیرہ کے شمال مشرق میں ایک فرسخ کے فاصلے پر آباد کیا گیا۔ اس کے شمال میں "نخیلہ" دو فرسخ کے فاصلے پر اور کربلا آٹھ فرسخ دور واقع تھا۔
سعد بن ابی وقاص نے کوفہ کی تعمیر کے دوران سب سے پہلے مسجد کوفہ اور دارالامارہ تعمیر کروایا۔ یہ مقام تاریخ میں کئی عبرتناک واقعات کا گواہ رہا ہے۔
دارالامارہ کی عبرت انگیز تباہی
اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے 71 ہجری میں دارالامارہ کو منہدم کروایا۔ اس کے پس منظر میں ایک حیران کن واقعہ تاریخ میں محفوظ ہے:
عبدالملک نے جب مصعب بن زبیر کو قتل کیا، تو اس کا سر دارالامارہ میں اپنے سامنے رکھوا دیا۔ وہاں عبدالملک بن عمیر بھی موجود تھا۔ اس نے کہا: "اے امیرالمؤمنین! میں اس جگہ اُس وقت بھی موجود تھا جب عبیداللہ بن زیاد کے سامنے امام حسینؑ کا سر رکھا گیا تھا۔ پھر میں اور مختار ثقفی یہاں بیٹھے تھے اور ہمارے سامنے عبیداللہ بن زیاد کا سر تھا۔ بعد میں میں اور مصعب یہاں موجود تھے اور مختار کا سر ہمارے سامنے تھا۔ اور اب میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں اور مصعب کا سر سامنے ہے۔ میں آپ سے اس جگہ کے شر سے پناہ مانگتا ہوں!" یہ سن کر عبدالملک کانپ اٹھا، فوراً اٹھا اور حکم دیا کہ اس محل کو گرا دیا جائے۔
کوفہ کی زوال پذیری
بعد کے حکمرانوں جیسے آل بویہ اور سلجوقیوں نے بھی کوفہ کی تعمیرِ نو میں کوئی دلچسپی نہ لی، خاص طور پر اس لیے کہ کوفہ کی سیاسی، عسکری، اقتصادی اور مذہبی حیثیت ختم ہو چکی تھی۔ ان تمام اہمیتوں کو عباسی خلیفہ منصور کے دور میں 145 ہجری میں بننے والے شہر بغداد کو منتقل کر دیا گیا۔









آپ کا تبصرہ