حوزہ نیوز ایجنسی | عمرو بن عاص کی جانب سے فتحِ مصر کے بعد تعمیر کی گئی تاریخی مسجد "سادات قریش" نہ صرف مصر بلکہ پوری افریقہ کی قدیم ترین اسلامی عمارت ہے، جس کی عظمت کا ایک سبب حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا اور کاروانِ اسیرانِ کربلا کا ایک ماہ تک یہاں قیام ہے۔
قاہرہ کے نزدیک واقع شہر بلبیس میں موجود مسجد ساداتِ قریش کو عام طور پر مصر اور افریقہ کی پہلی مسجد مانا جاتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پہلی مسجد "عمرو بن عاص" ہے، لیکن تاریخی دستاویزات بتاتی ہیں کہ "ساداتِ قریش" کی تعمیر اس سے دو سال قبل، سنہ ۱۸ ہجری میں، عمرو بن عاص کے حکم پر رومیوں پر فتح کے بعد مکمل ہوئی تھی۔
یہ مسجد صحابہ کرام کی قربانیوں کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی اور اس کے پہلو میں چالیس صحابہ رسول (ص) مدفون ہیں جنہوں نے جنگِ بلبیس میں جامِ شہادت نوش کیا۔
شیخ صبحی عبدالصمد، سربراہِ اوقاف بلبیس، کے مطابق شہر میں چھ تاریخی مساجد ہیں مگر مسجد سادات قریش ان سب میں قدیم ترین ہے اور رمضان المبارک میں یہاں مختلف دینی و قرآنی پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔
تاریخی حوالوں کے مطابق، جنگِ بلبیس میں چار ہزار مسلمان سپاہی، چھتیس ہزار رومی فوج کے مقابلے میں لڑے اور فتح حاصل کی۔ اسی معرکے میں دو سو پچاس مسلمان شہید ہوئے جن میں چالیس اصحابِ رسول (ص) شامل تھے۔
شیخ ہانی حسین الزبلاوی، امامِ مسجد ساداتِ قریش، کا کہنا ہے کہ یہ مسجد "مساجدِ مادر" کے طور پر معروف ہے اور اس کا محراب، مسجدِ نبوی (ص) کے محراب سے مشابہت رکھتا ہے۔ اسی لیے یہاں وزارتِ اوقاف کی زیر نگرانی قرآنی دروس اور علمی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں۔
حضرت زینبؑ اور کاروانِ کربلا کا قیام:
یہ مسجد اپنی تاریخی اور روحانی حیثیت کے ساتھ ساتھ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی آمد سے بھی متبرک ہے۔ روایات کے مطابق، سنہ ۶۱ ہجری میں کاروانِ اسیرانِ کربلا جب شام کی جانب روانہ ہوا تو بلبیس کے گورنر نے حضرت زینبؑ اور دیگر اسیران کا استقبال کیا، اور وہ ایک ماہ تک اسی مسجد میں مقیم رہے۔
اس دوران کاروان کے ایک رکن کے انتقال پر اسے مسجد کے قریب دفن کیا گیا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ مسجد کا نام "سادات قریش" دراصل حضرت زینبؑ اور اہلبیتؑ کے قیام کی نسبت سے رکھا گیا، نہ کہ صرف شہدائے بلبیس کی یاد میں۔
تاریخی و معماری خصوصیات:
مشہور مورخ تقی الدین المقریزی کے مطابق، یہ مسجد تقریباً ۳۰۰۰ مربع میٹر پر مشتمل ہے اور مستطیل طرزِ تعمیر میں چار راہداریوں پر مشتمل ہے جنہیں ستونوں کے ذریعے جدا کیا گیا ہے۔ ستونوں میں قبطی، قرنتی اور اسلامی طرز کے سنگ تراش استعمال ہوئے ہیں۔
بعد ازاں عثمانی دور میں مصر کے سابق امیر احمد الکاشف نے اس مسجد کی مرمت کی اور اس میں مینار تعمیر کیا۔ مسجد کی مغربی سمت میں کچھ فراعنہ کے آثار بھی شامل ہیں جو آج شیشے کے دریچوں سے نظر آتے ہیں۔
یہ مسجد آج بھی بلبیس کے عوام کے لیے عبادت، درسِ قرآن اور روحانیت کا مرکز بنی ہوئی ہے اور دنیا کی پندرہ مشہور تاریخی مساجد میں شمار کی جاتی ہے۔









آپ کا تبصرہ