حوزہ نیوز ایجنسی I تیرہ محرم سن 61 ہجری کو عبیداللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ خاندانِ رسولؐ کے اسیر کو اس کے محل میں پیش کیا جائے۔ اس نے چاہا کہ سب کے سامنے حضرت امام حسینؑ کا مقدس سر رکھوا کر اپنی طاقت اور فتح کا مظاہرہ کرے۔
خاندانِ رسولؐ کے اسیر، جن میں امام سجادؑ اور حضرت زینب کبریٰؑ شامل تھے، ہاتھ بندھے ہوئے عبیداللہ کے دربار میں داخل کیے گئے۔
حضرت زینب سلاماللہ علیہا کا عبیداللہ کے دربار میں خطاب
حضرت زینبؑ پورے وقار اور حوصلے کے ساتھ عبیداللہ کے دربار میں داخل ہوئیں۔ اہل حرم کی عورتیں ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھیں۔ ابن زیاد نے جب حضرت زینبؑ کو دیکھا تو ان کی طرف توجہ کی، مگر پہچانا نہیں۔ اس نے پوچھا: "یہ عورت کون ہے؟" حضرت زینبؑ نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر ابن زیاد نے دوبارہ پوچھا، تو اس کے ایک خادمہ نے کہا: "یہ زینب ہیں، علی ابن ابی طالبؑ کی بیٹی اور رسول خدا ص کی نواسی!"
ابن زیاد نے گستاخی سے کہا: "اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہارے خاندان کو رسوا کیا، تمہارے مردوں کو قتل کیا، اور ثابت کیا کہ تم جو کچھ کہتے تھے وہ جھوٹ تھا!"
حضرت زینبؑ نے جواب دیا: "اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اپنے نبیؐ کے ذریعے عزت دی اور ہر ناپاکی سے پاک فرمایا۔ رسوائی تو صرف فاسق کا نصیب ہے، اور جھوٹا وہی ہوتا ہے جو بدکردار ہو، ہم نہ رسوا ہیں نہ جھوٹے، بلکہ تم اور تمہارے پیروکار ہو۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں!"
ابن زیاد نے کہا: "کیا تم نے دیکھا کہ اللہ نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟"
حضرت زینبؑ نے بے مثال حوصلے سے فرمایا: «ما رأیت الا جمیلا "میں نے سوائے حسن و جمال کے کچھ نہیں دیکھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی شہادت اللہ نے مقدر کر رکھی تھی، اور وہ اس پر راضی ہو کر اپنے مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ عنقریب اللہ تمہیں ان سے روبرو کرے گا، اور وہ تمہارے خلاف اللہ کی بارگاہ میں فریاد کریں گے۔ پھر دیکھ لینا کہ فیصلہ کس کے حق میں ہوگا! اے مرجانہ کے بیٹے، تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے!"
ابن زیاد اس جرأت بھرے خطاب سے کانپ گیا اور غصے میں آ کر حضرت زینبؑ کو قتل کرنا چاہا، مگر اس کے ایک ساتھی نے اسے ایسا کرنے سے روکا۔
عبیداللہ نے کہا: "اللہ نے میرے دل کو تیرے نافرمان بھائی حسینؑ اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر کے ٹھنڈا کر دیا!"
حضرت زینبؑ نے کہا: "اللہ کی قسم! تم نے ہمارے بزرگ کو قتل کیا، ہمارا شجر کاٹ دیا، اور ہماری جڑیں اکھاڑ دیں۔ اگر یہی تمہارے لیے تسکین ہے تو جان لو کہ تم تسکین پا چکے ہو!"
ابن زیاد نے پھر گستاخی کی اور حضرت علیؑ کی نسبت سے حضرت زینبؑ کی فصاحت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: "یہ بھی اپنے باپ علیؑ کی طرح بہت فصیح ہے، علیؑ بھی شاعر تھا اور مسجع باتیں کرتا تھا!"
حضرت زینبؑ نے فرمایا:"مجھے قافیہ بندی سے کیا کام؟ جو کچھ میری زبان پر آیا وہ میرے دل کے درد کی ترجمانی تھی!"
خاندانِ رسولؐ کے اسیر کا کوفہ کے زندان میں داخل ہونا
عبیداللہ بن زیاد، حضرت زینبؑ کی باتوں سے لاجواب اور شرمندہ ہو چکا تھا، چنانچہ اس نے تمام اہل بیتؑ کے اسیران کو کوفہ کے قیدخانے میں ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے یزید کو ایک خط لکھا تاکہ اس کے حکم کا انتظار کرے۔ کچھ دن بعد دمشق سے قاصد آیا اور یزید کا حکم عبیداللہ کو پہنچایا: "اسیران کو امام حسینؑ کے سروں کے ساتھ شام روانہ کر دو!"
عبد اللہ بن عفیف کی شہادت
عبد اللہ بن عفیف کوفی حضرت علیؑ کے جانثار صحابی تھے۔ وہ جنگ جمل اور صفین میں امام علیؑ کے لشکر میں شریک رہے، اور ان دونوں جنگوں میں اپنی دونوں آنکھیں کھو چکے تھے۔ اسی وجہ سے وہ عاشورا میں شریک نہ ہو سکے۔
تیرہ محرم کو جب وہ ابن زیاد کی گستاخانہ گفتگو سن رہے تھے، تو برداشت نہ کر سکے اور بلند آواز سے بولے:
"چپ ہو جا، اے مرجانہ کے بیٹے! جھوٹا تو اور تیرا باپ ہے جس نے تجھے یہ مقام دیا۔ اے دشمنِ خدا! تُو رسولؐ کے بیٹوں کو قتل کرتا ہے اور مؤمنین کے منبر پر بیٹھ کر ایسی باتیں کرتا ہے؟"
ابن زیاد کے سپاہی اسے گرفتار کرنے آئے، لیکن وہ اپنے قبیلے اور بیٹی کی مدد سے گھر واپس پہنچ گیا۔ کچھ دیر بعد فوج نے اس کا گھر گھیر لیا۔ عبد اللہ بن عفیف، جو نابینا تھے، پھر بھی اپنی بیٹی کی مدد سے بڑی بہادری سے لڑے، مگر بالآخر گرفتار ہو گئے۔
ابن زیاد نے کہا: "اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں ذلیل کر دیا!"
عبد اللہ نے کہا: "اے دشمنِ خدا! مجھے کس بات پر ذلیل کیا؟ اگر میری آنکھیں سلامت ہوتیں تو تم پر میدان تنگ کر دیتا!"
عبیداللہ نے پوچھا: "عثمان بن عفان کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟"
عبداللہ نے جواب دیا: "اے بنیعلاج کے غلام! اے مرجانہ کے بیٹے! تجھے عثمان سے کیا؟ وہ اچھا ہو یا برا، اللہ خود اس کے ساتھ انصاف کرے گا۔ تم اپنے اور یزید و اس کے باپ کے بارے میں سوال کرو!"
ابن زیاد نے کہا: "اب میں تجھ سے کچھ نہیں پوچھوں گا، بس تجھے موت کا مزہ چکھاؤں گا!"
عبد اللہ نے کہا: "اللہ کا شکر ہے، میں نے بہت پہلے دعا کی تھی کہ میں اللہ کے سب سے زیادہ مغضوب بندے کے ہاتھوں شہید ہو جاؤں۔ جب میری بینائی چلی گئی تو مایوس ہو گیا تھا، لیکن آج اللہ نے میری دعا قبول کر لی!"
آخرکار ابن زیاد کے حکم پر عبد اللہ بن عفیف کو قتل کر دیا گیا اور ان کی لاش کو کوفہ کے مقام "سبخہ" میں سولی پر چڑھا دیا گیا۔
یہ واقعہ حضرت زینبؑ کی شجاعت، امام سجادؑ کے صبر، اور اہل بیتؑ کی عزت و وقار کی روشن تصویر ہے، جو اسیری کے عالم میں بھی ذلت کو قبول نہ کر سکے، بلکہ ظلم کے ایوانوں میں حق کی آواز بن کر گونجے۔
منابع:
مقتل لهوف سید بن طاووس
ارشاد شیخ مفید
نفس المهموم محدث قمی
نورالعین فی مشهد الحسین علیه السلام
دانشنامه امام حسین علیه السلام محمدی ری شهری









آپ کا تبصرہ