اتوار 20 جولائی 2025 - 17:45
داستان کربلا | تاریخی ابہام کا ازالہ: نافع بن ہلال کون؟ ہلال بن نافع کون؟

حوزہ/ کربلا کے واقعے میں موجود دو افراد کے مشابہ ناموں، یعنی "نافع بن ہلال" اور "ہلال بن نافع" نے بعض قارئین اور عوام الناس کو مغالطے میں ڈال دیا ہے۔ ان میں سے ایک جناب نافع بن ہلال ہیں جو امام حسینؑ کے اصحاب اور شہدائے کربلا میں سے تھے، جبکہ دوسرا شخص "ہلال بن نافع" ہے جو لشکر عمر سعد کا سپاہی تھا۔ ان دونوں کی شخصیتوں کے فرق کو واضح کرنا ضروری ہے تاکہ تاریخی الجھن دور ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی | کربلا کے واقعے میں موجود دو افراد کے مشابہ ناموں، یعنی "نافع بن ہلال" اور "ہلال بن نافع" نے بعض قارئین اور عوام الناس کو مغالطے میں ڈال دیا ہے۔ ان میں سے ایک جناب نافع بن ہلال ہیں جو امام حسینؑ کے اصحاب اور شہدائے کربلا میں سے تھے، جبکہ دوسرا شخص "ہلال بن نافع" ہے جو لشکر عمر سعد کا سپاہی تھا۔ ان دونوں کی شخصیتوں کے فرق کو واضح کرنا ضروری ہے تاکہ تاریخی الجھن دور ہو۔

ہلال بن نافع:

ہلال بن نافع لشکر عمر سعد سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے واقعہ کربلا کے بعض مشاہدات کو قلم بند کیا۔ اس لحاظ سے وہ حمید بن مسلم (لشکر یزید کا ایک اور راوی) اور عقبة بن سمعان (کاروان حسینی کے ایک راوی) کی طرح، واقعہ عاشورہ کا بیان کرنے والوں میں شامل ہے۔

روز عاشورہ میں ہلال بن نافع کے کردار کے متعلق بہت تفصیل نہیں ملتی، لیکن اس کا ایک اہم بیان ہمیں امام حسینؑ کی شہادت کے وقت کے حالات پر ملتا ہے۔

ابن اثیر کی کتاب الکامل میں ایک روایت ہے کہ جب امام حسینؑ کربلا کی طرف جا رہے تھے تو راستے میں کچھ سواروں سے ملاقات ہوئی جو کوفہ سے آ رہے تھے۔ ان میں ہلال بن نافع اور عمرو بن خالد بھی شامل تھے۔ انہوں نے امامؑ کو جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر دی اور مشہور جملہ کہا: "دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں آپ کے خلاف۔" لیکن اس کے باوجود وہ امامؑ کے قافلے میں شامل نہ ہوئے اور لشکر عمر سعد کی طرف چلے گئے۔

ہلال کی روایت شہادت امام حسینؑ کے بارے میں:

سید ابن طاووس کی کتاب لہوف کے مطابق، ہلال بن نافع نے امام حسینؑ کی شہادت کے وقت کا ایک چشم دید منظر بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے: "میں عمر سعد کے لشکر کے ساتھ کھڑا تھا کہ اچانک کسی کی آواز سنی جو چیخ کر کہہ رہا تھا: 'اے امیر! مبارک ہو، شمر بن ذی الجوشن نے حسین کو قتل کر دیا!' میں لشکر کے دونوں صفوں کے درمیان آیا اور امامؑ کے سرہانے کھڑا ہوا۔ اس وقت وہ جان کنی کی حالت میں تھے۔

خدا کی قسم! میں نے آج تک کسی خون میں لت پت شہید کو اتنا خوبصورت، نورانی چہرہ لیے نہیں دیکھا جتنا حسینؑ کا تھا۔ ان کا حسن و جمال اس قدر شاندار تھا کہ میں قتل کی کیفیت کو سوچ بھی نہ سکا۔

امامؑ شدت پیاس سے پانی مانگ رہے تھے۔ میں نے سنا کہ ایک بے دین شخص نے بے ادبی سے کہا:'خدا کی قسم! تم پانی نہ پی سکو گے جب تک دوزخ میں نہ جاؤ اور جہنم کا گرم پانی نہ پیو۔'

امام حسینؑ نے جواب میں فرمایا: 'تجھے برباد کرے خدا! میں ہرگز دوزخ میں نہیں جاؤں گا اور نہ جہنم کا پانی پیوں گا۔ بلکہ میں اپنے نانا رسول اللہؐ کے پاس جاؤں گا، ان کے ساتھ جنت کے عالی مقام میں رہوں گا، جہاں میں پاکیزہ اور خوش ذائقہ پانی پیوں گا جس کی خدا نے قرآن میں تعریف فرمائی ہے۔ اور میں ان پر، جنہوں نے میرا خون بہایا اور ظلم کیا، اپنے نانا سے شکایت کروں گا۔' پھر ہلال کہتا ہے: 'ان کافروں کے دلوں میں ذرا بھی رحم نہ تھا، سب غضبناک ہو گئے اور اس قدر درندگی کا مظاہرہ کیا کہ نور نظر علیؑ اور جگر گوشہ رسولؐ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ لعنهم الله و خذلهم الله...خدا کی لعنت اور خذلان ان پر ہو! میں ان کی اس بے رحمی پر حیران رہ گیا اور قسم کھائی کہ آئندہ کسی معاملے میں ان کے ساتھ شریک نہ ہوں گا۔'"

نافع بن ہلال بجلی مرادی کون تھے؟

نافع بن ہلال جنہیں تاریخی منابع میں جَملی، بجلی، مرادی یا بجلی مرادی کے القابات سے بھی یاد کیا گیا ہے، امام علیؑ کے اصحاب میں سے تھے اور امام حسینؑ کے وفادار ساتھیوں میں شامل تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ مذحج کی ایک شاخ "جمل" سے تھا اور ان کا اصل وطن یمن تھا۔ نافع نے امام علیؑ کے ساتھ جنگ جمل، صفین اور نہروان میں شرکت کی۔ بعض روایات کے مطابق، نافع کو امیرالمؤمنینؑ نے خود جنگ کا طریقہ سکھایا تھا۔ وہ ایک دلیر اور ماہر تیرانداز تھے۔

کوفہ سے روانگی اور امام حسینؑ سے ملاقات

مسلم بن عقیل کی شہادت سے پہلے، نافع بن ہلال کوفہ سے نکلے اور منزل عذیب الہجانات میں امام حسینؑ کے قافلے سے آ ملے۔ وہ ان چار افراد میں شامل تھے جنہوں نے وہاں امامؑ سے ملاقات کی۔ جب امام حسینؑ نے ان سے اہلِ کوفہ کے حالات دریافت کیے تو انہوں نے کہا: ’’کوفہ کے اشراف اور سردار، رشوتیں لے کر آپ کے مخالف ہو چکے ہیں،اور عام لوگ دل سے آپ کے ساتھ ہیں، لیکن تلواریں آپ کے خلاف کھنچی ہوئی ہیں۔‘‘

کچھ تاریخی متون میں ان کی جگہ جابر بن حارث سلمانی کا نام بھی آیا ہے۔

وفاداری کا اظہار

جب امام حسینؑ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے گفتگو فرمائی، تو اصحاب ایک ایک کر کے اپنی وفاداری اور بیعت کی تجدید کے لیے اٹھے۔ نافع بن ہلال، زہیر بن قین کے بعد کھڑے ہوئے اور امامؑ کے حق میں پرجوش حمایت کا اعلان کیا۔

پانی لانے کے مشن میں شرکت

جب عمر بن سعد کے حکم پر شریعه فرات کا پانی بند کر دیا گیا، تو امام حسینؑ نے حضرت عباسؑ کو ۳۰ سواروں اور ۲۰ پیادوں کے ساتھ پانی لانے کے لیے روانہ کیا، جن میں نافع بھی شامل تھے۔ نافع سب سے آگے چل رہے تھے، یہاں تک کہ شریعه فرات تک پہنچ گئے اور کچھ پانی خیموں میں لے آئے۔

اسی رات، ان کی عمرو بن حجاج زبیدی سے گفتگو ہوئی، جو فرات پر مامور تھا۔ جب عمرو نے پوچھا: تم کون ہو؟نافع نے کہا: "میں تمہارا رشتہ دار ہوں۔ ہم صرف پانی لینے آئے ہیں جس سے ہمیں روکا گیا ہے۔"

عمرو نے کہا: "خود پی لو، لیکن حسینؑ کے لیے نہ لے جانا۔"

نافع نے جواب دیا: "خدا کی قسم! جب تک حسینؑ، ان کا خاندان اور ساتھی پیاسے ہیں، میں ایک قطرہ بھی پانی نہیں پیوں گا۔"

شب عاشورہ اور زینب کبریٰؑ کی تسلی

عاشورہ کی رات، جب امام حسینؑ خیموں سے نکل کر اردگرد کا معائنہ کر رہے تھے، تو نافع ان کے پیچھے پیچھے چپکے چپکے چلے تاکہ حفاظت کریں۔

جب امامؑ نے ان سے کہا: "کیا تم نہیں چاہتے کہ اس تاریک رات میں پہاڑوں کے درمیان سے نکل جاؤ اور اپنی جان بچا لو؟" تو نافع زمین پر گر پڑے اور عرض کیا: ’’میرے پاس ایک تلوار ہے جو ہزار درہم کی ہے، اور ایک گھوڑا ہے جو اتنے ہی کا ہے،اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب تک میری تلوار کاٹتی رہے گی،میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا۔‘‘

بعد میں جب جناب زینبؑ کو اصحاب کی وفاداری پر تشویش ہوئی، تو نافع اور حبیب بن مظاہر نے تمام اصحاب کو خیمہ زینبؑ کے قریب جمع کیا، جہاں انہوں نے اپنی پختہ وفاداری کا اعلان کیا، جس پر بی بی زینبؑ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔

نافع کا ازدواج اور فداکاری

ناسخ التواریخ کے مطابق، نافع بن ہلال نے عاشورا سے کچھ پہلے ہی شادی کی تھی۔ جب وہ میدان میں جانے لگے تو ان کی بیوی نے روکا۔ لیکن نافع نے امام کی نصرت پر اصرار کیا۔ امام حسینؑ نے جب یہ سنا تو فرمایا: "تمہاری بیوی پریشان ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم دونوں جدا ہو جاؤ۔

اگر چاہو تو چلے جاؤ۔" نافع نے کہا: "اے رسولؐ خدا کے نواسے! اگر میں آپ کو مشکل میں چھوڑ کر خوشی کی زندگی کی طرف جاؤں،تو کل قیامت کو آپ کے نانا کو کیا جواب دوں گا؟"

میدانِ جنگ اور رجز خوانی

عاشورا کے دن، نافع نے دشمن پر تیر برسائے اور ۱۲ افراد کو ہلاک اور کئی کو زخمی کیا۔

جب تیر ختم ہو گئے تو شمشیر ہاتھ میں لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور یہ رجز پڑھتے گئے: "أرمی بِها مُعلَّماً أفواقُها مَسمومةً تَجری بها أخفاقُها- لَتَملََأَنَّ أرضَها رِشاقُها وَالنَّفسُ لایَنفَعُها إشفاقُها"

"میں تیر چلاتا ہوں جن پر میرا نام لکھا ہے، جو زہرآلود اور تیز رفتاری سے دشمن پر گرتے ہیں، زمین کو تیر سے بھر دوں گا، اور جان کو بچانے کی کوئی امید فائدہ نہیں دے گی۔"

ایک اور رجز میں کہا: "أنَا الغُلامُ الیَمَنِیُّ الجَمَلِی(البجلی) دینی عَلی‏ دینِ حُسَینٍ وعَلِی‏ إن اُقتَلِ الیَومَ فَهذا أمَلی فَذاکَ رَأیی واُلاقی عَمَلی‏"

"میں یمنی جَملی جوان ہوں، میرا دین، دینِ حسینؑ و علیؑ ہے،ںاگر آج شہید ہو جاؤں تو یہی میری تمنا ہے، یہی میرا عقیدہ ہے، اور اسی پر عمل کر رہا ہوں۔" دشمن کا ایک سپاہی مزاحم بن حریث بولا:ں"ہم عثمان کے دین پر ہیں!" نافع نے جواب دیا:"تم شیطان کے دین پر ہو!" اور پھر اسے واصل جہنم کر دیا۔

گرفتاری اور شہادت

آخرکار، دشمنوں نے ان پر حملہ کیا، پتھر برسائے، ان کے بازو توڑ دیے، اور انہیں گرفتار کر کے شمر کے ذریعے عمر بن سعد کے پاس لے گئے۔ عمر بن سعد نے کہا: "نافع! افسوس ہے، تم نے یہ سب کیوں کیا؟" نافع نے خون آلود چہرے کے ساتھ جواب دیا: "میرا رب میرے ارادے سے باخبر ہے۔ میں نے تمہارے ۱۲ افراد قتل کیے اور بہت سوں کو زخمی کیا، اگر میرے بازو سلامت ہوتے تو تم مجھے گرفتار نہ کر سکتے!"

عمر بن سعد نے شمر کو نافع کے قتل کا حکم دیا۔

نافع نے شمر سے کہا: "اگر تو مسلمان ہے، تو یہ خون لے کر خدا سے ملاقات تیرے لیے سخت ہو گی۔ لیکن میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اپنے بدترین دشمن کے ہاتھوں شہید کیا!" پھر شمر نے انہیں شہید کر دیا۔

زیارات میں ذکر

نافع بن ہلال بجلی مرادی کا نام "زیارت رجبیہ" اور زیارت ناحیہ مقدسہ میں آیا ہے،جہاں امام زمانؑ ان پر سلام بھیجتے ہیں:

"سلام ہو نافع بن ہلال بن نافع بجلی مرادی پر!"

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha