حوزہ نیوز ایجنسی I تاریخی منابع کے مطابق روز عاشورہ کربلا میں شہید ہونے والوں میں ایک ایرانی شخصیت "اسلم بن عمرو ترکی دیلمی قزوینی" بھی شامل تھے۔ وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی آغوش میں شہید ہوئے۔ اسلم کا تعلق قزوین سے تھا، جو اُس وقت ترکستان، بحر خزر، دیلمان اور زنجان جیسے وسیع علاقوں پر مشتمل تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہای نے سن 2003ء میں قزوین کے دورے کے موقع پر اس علاقے کی وسعت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: "جب ابھی کئی بڑے شہر وجود میں نہیں آئے تھے یا محض چھوٹے دیہات ہوا کرتے تھے، اُس وقت قزوین ایک عظیم اور وسیع علاقہ تھا۔"
اسلم کی کوفہ اور مدینہ میں زندگی
مورخین کے مطابق اسلم بن عمرو امام حسین علیہ السلام کے غلام تھے۔ بعض متاخرہ تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے انہیں امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد خریدا اور بعد ازاں اپنے بیٹے امام زین العابدین علیہ السلام کو بخش دیا۔
بعض قزوینی خاندانوں نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی محبت میں، جو غیر عرب فدائیوں اور قرآن و ولایت کے چاہنے والوں کے قدردان تھے، شمالی ایران سے ہجرت کرکے کوفہ میں سکونت اختیار کی تھی۔ اسلم بھی ان ہی میں سے ایک تھے۔ وہ پہلے امام علی علیہ السلام کے خدمت گزار رہے، اور اُن کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آ گئے۔ بعد ازاں مدینہ میں امام حسین علیہ السلام کی تربیت میں پروان چڑھے۔
اسلم نے کوفہ میں امام علی کی دس سال اور مدینہ میں امام حسن اور امام حسین کی بیس سال خدمت کی۔ اس بنیاد پر ان کی عمر شہادت کے وقت چالیس سے پچاس سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
زبان دانی اور کتابت کی مہارت
روایات کے مطابق اسلم قرآن کے قاری، فارسی، ترکی اور عربی زبانوں کے ماہر، اور امام حسین علیہ السلام کے کاتب بھی تھے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ اور پھر کربلا کی جانب ہجرت کی، اسلم پورے سفر میں ان کے ساتھ تھے۔
عاشورہ کا دن اور اسلم کی شہادت
معروف شیعہ محدث شیخ محمد سماوی نے اسلم کا رجز نقل کیا ہے:
أَمیری حُسَیْن وَنِعْمَ الْأمیر
سُرورُ فُؤادَ البَشیرِ النَّذیر
"میرا سردار حسین ہے، اور وہ بہترین سردار ہے۔ وہ رسول خدا کے دل کی خوشی ہے۔"
عاشورہ کے دن، اسلم نے نہایت بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور کئی افراد کو واصلِ جہنم کیا۔ آخرکار وہ زخمی ہو کر زمین پر گرے۔ ان کے جسم میں جان باقی تھی تو امام حسین علیہ السلام خود ان کے پاس آئے، ان کے گلے میں ہاتھ ڈالا، اور اپنا رخسار اسلم کے رخسار پر رکھ دیا۔
اسلم نے آنکھ کھول کر امام حسین کو دیکھا، تبسم کیا اور کہا: "میرے جیسا خوش قسمت کون ہے جس کے رخسار پر فرزندِ رسول نے اپنا چہرہ رکھ دیا!"
اس کے بعد انہوں نے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
بعض منابع کے مطابق اسلم نے دشمن کے لشکر سے 70 افراد کو قتل کیا تھا۔
تحقیقی آثار
"کیست مثل من؟" (میرے جیسا کون؟) کے عنوان سے ایک کتاب جناب اسلم کی زندگی پر لکھی گئی ہے۔ مصنف "محمد رضا عبدالامیر انصاری" اور مترجم "احمد امیری شادمہری" ہیں۔ اس میں اسلم بن عمرو کی سوانح اور کربلا میں ان کے کردار کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
مستند منابع:
مناقب ابن شہر آشوبؒ
بحارالانوار از علامہ مجلسیؒ
مقتل الحسینؑ از خوارزمی
ابصار العین فی انصار الحسینؑ از شیخ محمد سماوی
ویکی فقه
پایگاه اینترنتی ره یافته









آپ کا تبصرہ