تحریر: مولانا عقیل رضا ترابی (سربراہ مدرسہ بنت الہدیٰ (رجسٹرڈ) ہریانہ، الہند)
آغازِ نور
کربلا کی تاریخ جب ایمان و ایثار کے چراغوں سے روشن ہوتی ہے تو ایک نام اپنی تمام تر عظمت کے ساتھ تابندہ نظر آتا ہے؛ حضرت زینبؑ بنتِ امیرالمؤمنینؑ، یہ وہ ہستی ہیں جن کی ولادت فقط ایک بیٹی کی آمد نہیں، بلکہ صبر، علم، عفت، حیا اور معرفت کے عہدِ دوام کی ابتدا تھی۔
مدینہ کی فضاؤں میں پانچ جمادی الاوّل کی وہ روشن صبح جب زینبؑ تشریف لائیں، فرشتوں نے مسرت کے نغمے چھیڑ دیے، اور کائنات نے گویا کہا: "یہ وہ بیٹی ہے جو مصائب کے مقابل وقار کا پہاڑ اور معرفت کا مینار بنے گی۔"
نورِ ولایت کی ولادت
حضرت زینبؑ، علیؑ ابنِ ابی طالبؑ اور فاطمہ زہراؑ کی وہ دختر ہیں جنہوں نے نورِ امامت اور عصمتِ طہارت دونوں کی کرنوں سے اپنی شخصیت تراشی۔
آپؑ کی ولادت اُس گھر میں ہوئی جہاں قرآن کی تلاوت صبح و شام گونجتی تھی، جہاں وحی کے نغمے سنائی دیتے تھے اور جہاں بندگی اپنی کامل ترین صورت میں جلوہ گر تھی۔
حضرت زینبؑ کی پہلی مسکراہٹ پر علیؑ کا تبسم اور فاطمہؑ کی آنکھوں کا نور گویا اعلان کر رہا تھا کہ یہ بیٹی ایمان و صبر کی آنے والی علامت ہے۔
تربیتِ وحی کے سائے میں
زینبؑ نے اُس آغوش میں پرورش پائی جہاں گفتارِ علیؑ درسِ عدل تھی، سکوتِ زہراؑ تفسیرِ عبادت تھا اور برادرانِ کریمین حسنؑ و حسینؑ حلم و کردار کے آئینے تھے۔
اسی تربیت نے زینبؑ کی زبان میں علیؑ کی بلاغت، نگاہ میں فاطمہؑ کی حیا اور دل میں حسینؑ کی غیرت بھر دی۔
روایت میں آیا ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ولادتِ زینبؑ پر فرمایا: "میری امت کی عورتوں میں زینبؑ صبر و استقامت کی نشانی ہوں گی۔
علم و بصیرت کی وارثہ
زینبؑ صرف امامؑ کی بہن نہیں بلکہ علمِ ولایت کی ترجمان اور معرفتِ الٰہی کی وارثہ تھیں۔
ان کے فہم و ادراک کی بلندی کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ
امام زین العابدینؑ نے فرمایا: "اَنْتِ بِحَمْدِ اللّٰہِ عَالِمَةٌ غَيْرُ مُعَلَّمَةٍ، فَهِمَةٌ غَيْرُ مُفَهَّمَةٍ۔"(آپ علم والی ہیں جنہیں کسی نے سکھایا نہیں، فہم والی ہیں جنہیں کسی نے سمجھایا نہیں۔)
یہ جملہ فقط تعریف نہیں، بلکہ روحانی علم کی معراج کا اعتراف ہے۔
زینبؑ کے خطبات، قرآن و ولایت کی تفسیر اور عقل و وجدان کا حسین امتزاج ہیں۔
صبر کی جلوہ گاہ
کربلا کے تپتے ریگزار میں جب خیموں پر شعلے بلند تھے،جب حسینؑ کی پیکرِ اطہر خاک و خون میں تڑپ رہی تھی اور جب اسیرانِ حرم پیاس و غم سے نڈھال تھے۔
تب زینبؑ نے آسمانِ صبر پر استقامت کا پرچم بلند رکھا۔
انہوں نے مصائبِ حسینؑ کو فقط برداشت نہیں کیا، بلکہ انہیں شعورِ بیداری میں بدل دیا۔
کوفہ و شام کے درباروں میں زینبؑ کا لہجہ لرزہ بن گیا۔
یزیدیت کے ایوان ہل گئے جب یہ صدائے حق بلند ہوئی: "فَواللّٰہِ لا تَمْحُو ذِكْرَنَا، وَلا تُميتُ وَحْيَنَا۔"(خدا کی قسم! تو ہمارے ذکر کو مٹا نہیں سکتا، نہ ہمارے وحی کے چراغ کو بجھا سکتا ہے۔)
زینبؑ: صبر نہیں، شعور کا نام
زینبؑ نے دنیا کو یہ بتایا کہ صبر کمزوری نہیں بلکہ حق کے عرفان کے بعد عمل کی استقامت ہے۔
انہوں نے عورت کے مقام کو اتنا بلند کیا کہ وہ اسلام کی محافظ، ولایت کی مبلغ، اور تاریخ کی مؤرخہ بن گئیں۔
زینبؑ نے یہ ثابت کیا کہ جب ایمان کے ساتھ شعور ہو تو قید بھی منبر بن جاتی ہے اور زنجیر بھی پیغام کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
کوفہ و شام کے منبر
جب اسیرانِ کربلا کو کوفہ و شام کے درباروں میں لایا گیا، لوگ سمجھتے تھے کہ حسینؑ کا کارواں شکست کھا گیا ہے۔
مگر زینبؑ کے خطبات نے اعلان کیا کہ حسینؑ مٹے نہیں، حسینؑ نے زمانے کو بدل دیا۔
یزید کے تخت پر لرزہ طاری ہوا، کیونکہ زینبؑ نے حق کی وہ صدا بلند کی جسے وقت خاموش نہ کر سکا۔
انہوں نے زہراؑ کی تربیت اور علیؑ کی غیرت کا حق ادا کر دیا۔
زینبؑ چراغِ معرفت
اگر علیؑ علم کا شہر ہیں تو زینبؑ اُس شہر کا سب سے بلند مینار ہیں۔
ان کے اقوال، دعائیں، اور خطبات قرآنِ ناطق کی عملی تفسیر ہیں۔
زینبؑ نے سکھایا کہ دین کی حفاظت صرف میدانِ جنگ میں نہیں،
بلکہ فکر و شعور اور علم کے میدان میں بھی کی جاتی ہے۔
پیغامِ ولادت
حضرت زینبؑ کی ولادت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ
ایمان کی بنیاد علم پر ہے، اور علم کی معراج صبر پر قائم ہے۔
یہ دن اہلِ ایمان کے لیے عہدِ وفا کی تجدید کا دن ہے۔
آئیے اس میلادِ پُرانوار پر ہم یہ عہد کریں کہ اپنے کردار میں زینبؑ کی حیا، اپنے دل میں زینبؑ کا صبر اور اپنی زبان میں زینبؑ کی صداقت پیدا کریں۔
سلام ہو اُس زینبؑ پر جو علیؑ کی جرأت، فاطمہؑ کی حیا، حسنؑ کا حلم، حسینؑ کی غیرت اپنے وجود میں سمیٹے ہوئے تھیں۔
سلام ہو اُس ہستی پر جس نے اسیری کے لباس میں قیادت کا تاج پہنا اور جس کے کلمات نے ظلم کے ایوانوں کو زمین بوس کر دیا۔
زینبؑ وہ صدا ہے جو ہر عہد میں حق کو زندہ رکھتی ہے اور ہر ظلم کے مقابل ایمان کا چراغ روشن کرتی ہے۔
حضرت زینبؑ ۔صبر کی جلوہ گاہ، معرفت کا چراغ، ولایت کا تسلسل، اور ایمان کی ابدی نشانی۔
ان کی ولادت نہ صرف ایک روحانی واقعہ، بلکہ انسانی وقار اور الہیٰ شعور کی تجدید ہے۔
ان کی یاد ہمیں بتاتی ہے کہ حق کی راہ میں دکھ، قید، اور قربانی سب حسینؑ کے کارواں کے نشانِ عزت ہیں اور جناب زینبؑ ان نشانوں کی محافظہ ہیں۔









آپ کا تبصرہ