حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بمناسبت ولادت با سعادت ثانی زہراء حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا 5 جمادی الاولی 1447 بروز پیر مدرسہ علمیہ ثقلین قم میں ایک علمی نشست بعنوان: «حضرت زینب (س) پیکر صبر و استقامت» منعقد ہوئی؛ جس میں ثانی زہراء حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی عظمت، صبر و استقامت کے مختلف گوشوں کو بیان کیا گیا۔
جناب مولانا علی خضر صاحب نے اپنی تقریر میں ولادت حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اور حاضرین کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتے ہوئے سوال قائم کیا کہ بی بی کو زینب کیوں کہا جاتا ہے؟ لغوی اعتبار سے زینب یعنی باپ کے لئے زینت،یعنی بی بی اپنے باپ علی مرتضی کے لئے باعث زینت تھیں، بی بی کی عظمت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ جو ذات، کائنات کے لئے زینت ہو اس کے لئے جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا زینت ہیں، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کے لیے صعصعہ بن صوحان نے کہا: واللہ! يا أمير المؤمنين! قد زينت الخلافة و ما زانتك، یا علی! بخدا! خلافت نے آپ کو زینت نہیں بخشی ہے بلکہ آپ نے خلافت کو زینت بخشی ہے۔
مولانا نے اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ ہمارے معاشرہ میں صبر کے غلط معنی کئے جاتے، صبر کرو، یعنی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہواورکچھ بھی نہ کرو، جبکہ یہ معنی غلط ہیں، بلکہ صبر کے معنی جیسا کہ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بیان کرتے ہوئے فرمایا: صبر، یعنی استقامت، پائیداری، خود کو تھکا ہارا نہ سمجھنا، خود کو بند گلی میں نہ دیکھنا، لہٰذا مشکلات کو تحمل کرنے کا نام صبر نہیں ہے، بلکہ مشکلات پر غلبہ پانے کا نام صبر ہے۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا نے کس طرح مشکلات کا ڈٹ کا مقابلہ کیا، کربلا میں اتنی مشکلات تھیں کہ اگر وہ پہاڑ پر آتیں تو وہ بھی چکنا چورہوجاتا، لیکن جناب زینب گھبرائی نہیں، بلکہ مشکلات سے اس طرح مقابلہ کیا کہ جلتے خیموں سے خود ہی نہیں نکلی، بلکہ حضرت سید سجاد علیہ السلام کو بھی خیموں سے نکال لیا، کیونکہ اب جناب زینب سلام اللہ علیہا کی ذمہ داری بڑھ گئی تھی۔
نقیب فتح شہہ مشرقین بن کے اٹھی
نہ تھے حسین تو زینب حسین بن کے اٹھی
مولانا علی خضر صاحب نے اس اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا کی ایک خصوصیت، مدافع امامت و ولایت ہونا تھا، جیسا حضر ت آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی نے فرمایا: کہ امامت کربلا میں ختم ہوجاتی اگر زینب کبری سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں؛ لہٰذا جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا کی زندگی کے اہم درس: حق کی راہ میں صبر و استقامت سے کام لینا یعنی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور ولایت کا دفاع کرنا ہے۔
علمی نشست کے دوسرے مقرر جناب مولانا محمد سجاد صاحب نے بھی جناب زینب سلام اللہ علیہا کے صبر و استقامت پر روشنی ڈالی اور قرآن کی روشنی میں جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا کو صبر و استقامت کا نمونہ قرار دیا، اور سورہ فصلت کی آیت نمبر 30: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْہمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ، کے پیش نظر ایمان، استقامت اور پائیداری کی اہمیت کو بیان کیا۔
مولانا نے بیان کیا کہ حتی کفار بھی اللہ ہی کو خالق مانتے ہیں، جیسا کہ سورہ زخرف آیت نمبر 87 میں ارشاد ہوتا ہے: «وَلَئِن سَأَلۡتَہم مَّنۡ خَلَقَہمۡ لَيَقُولُنَّ ٱللَّہ»، لیکن کفار و مشرکین خدا کو رب، یعنی تدبیر کرنے والا نہیں مانتے تھے، یہ تو مومنین کی صفت ہے کہ وہ اللہ ہی کو رب مانتے ہیں اور اسی کی ربوبیت کا عقیدہ رکھتے ہوئے اس پر استقامت و پائیداری کرتے ہیں، اور یہ چیز دشمنان اسلام کو برداشت نہیں ہے، کیونکہ وہ خود اپنے کو رب منوانا چاہتے ہیں اور لوگوں کے امور کو خود اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں، جبکہ مومنین صرف اللہ کی ربوبیت اور اس کی تدبیر پر عقیدہ رکھتے ہوئے اس پر ڈٹے رہتے ہیں جو کہ دشمن کی آنکھ کا کانٹا بنا ہوا ہے۔
مولانا محمد سجاد صاحب نے مذکورہ آیت کا واضح نمونہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس شیر خدا کی بیٹی نے بھی کربلا کے بعد ایسے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا کہ دشمن کو ذلیل و رسوا کردیا، اور ابن زیاد کو منہ توڑ جواب دیا: مارائیت الا جمیلا، میں نے کربلا میں خوبصورتی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، یا دربار شام میں یزید کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «فَکِد کَیْدک وَاسْعَ سَعْیک و ناصِبْ جُہدَک فواللہ لا تمحُو ذکرنا و لا تُمیتُ وَحْیَنا» تو چاہے جتنی کوشش کرلے بخدا ہمارے ذکر کو نہیں مٹا سکتا۔
یہ جناب زینب سلام اللہ کی پیشن گوئی تھی جسے آج پورا ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ذکر امام حسین علیہ السلام اور ذکر اہل بیت علیہم السلام دنیا بھر میں ہورہا ہے اور یہ ذکر کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس نشست علمی کا آغاز جناب مؤمن علی صاحب نے تلاوت کلام پاک سے کیا، جس کے بعد بہترین ترنم میں نعت پاک جناب ضرغام عباس صاحب نے پڑھی اور جناب عون علی صاحب نے مدح بی بی میں اشعار پیش کئے۔
پروگرام کا اختتام دعائے سلامتی امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف پر ہوا اور حاضرین کی خدمت میں شیرینی تقسیم کی گئی۔









آپ کا تبصرہ