حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یہ پیغام حضرت آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی کا ہے، جو امریکہ میں منعقد ہونے والے بیسویں سالانہ ’’کانفرنس آف مسلمز‘‘ کے لیے ارسال کیا گیا، جس کا عنوان تھا: «حضرت زینب کبریٰؑ؛ شجاعت، شفقت اور مزاحمت کا میراث»۔
حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا انسانیت کی ایک روشن مثال ہیں۔
سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ عورت اور مرد کی حقیقی حقیقت ایک جیسی ہے، کیونکہ روح نہ مرد ہے نہ عورت۔
جیسا کہ حکیم ابن سینا نے واضح کیا ہے کہ روح میں "مذکر" اور "مونث" ہونے کی کوئی صفت نہیں ہوتی۔
عورت یا مرد ہونا صرف بدن سے متعلق ہے، جو یا اس طرح بنا ہے یا اُس طرح۔ لیکن روح چونکہ مجرد ہے، جسمانی خصوصیات سے پاک ہے۔ البتہ چونکہ جسم مختلف ہیں، اس لیے عورت و مرد کے کچھ احکام اور ذمہ داریاں بدنی لحاظ سے مختلف ہیں؛ مگر عقائد، معارف اور بنیادی اصولِ دین دونوں کے لیے یکساں ہیں۔
لہٰذا حقیقتِ انسان کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں۔
قرآن کی نظر میں عورت و مرد برابر
قرآن کریم مرد اور عورت دونوں کو انسانی نمونہ قرار دیتا ہے۔ جب قرآن نیک انسانوں کی مثال دیتا ہے تو کہتا ہے: مریم اور آسیہ (فرعون کی بیوی) نیک لوگوں کی مثال ہیں، نہ کہ صرف نیک عورتوں کی۔
قرآن کا لفظ "ناس" (لوگ) ہے، نہ کہ "رجال" (مرد)۔ "ناس" کا مطلب ہے انسان، چاہے مرد ہو یا عورت۔ جیسے ہم کہتے ہیں: ’’لوگ ووٹ ڈالنے گئے‘‘، اس میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں۔
اسی لیے قرآن کہتا ہے: «ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِینَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ» یعنی: ’’اللہ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی‘‘۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن عورت کو بھی انسانِ کامل کی مثال بنا کر پیش کرتا ہے۔
حضرت زینبؑ کا مقامِ معرفت
اگر حضرت زینبؑ کو امامِ وقت، حضرت سجادؑ کی طرف سے خصوصی تکریم حاصل ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حقیقتِ انسانیت کو پہچانا اور اسی کے مطابق عمل کیا۔
امام سجادؑ نے فرمایا: «أَنْتِ بِحَمْدِ اللَّهِ عَالِمَةٌ غَيْرُ مُعَلَّمَةٍ، فَهِمَةٌ غَيْرُ مُفَهَّمَة» یعنی: ’’اے پھوپی جان! آپ وہ عالمہ ہیں جنہیں کسی نے تعلیم نہیں دی، اور وہ دانا ہیں جنہیں کسی نے سمجھایا نہیں۔‘‘
یعنی ان کا علم الہی عنایت سے تھا، کسی مکتب یا استاد سے حاصل نہیں ہوا تھا۔ اسی روحانی علم کی بدولت حضرت زینبؑ وہ بات کہتی ہیں جو عام فہم سے بلند ہے،
جو ہر کسی کے فہم میں نہیں آسکتی۔
حقیقتِ مرگ و حیات
قرآن کے مطابق موت کے وقت دو طرح کے انسان ہوتے ہیں: ایک پاکیزہ و نیک، دوسرے تبهکار۔
پاکیزہ انسان کے بارے میں فرمایا گیا: «الَّذِینَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِکَةُ طَیِّبِینَ» یعنی: ’’فرشتے نیک لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں اور ان پر سلام بھیجتے ہیں۔‘‘
لیکن تبهکاروں کے بارے میں فرمایا گیا: «یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبَارَهُمْ» یعنی: ’’فرشتے ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہیں۔‘‘ یہی سختیِ جان کنی ہے۔
پس انسان کی باطنی حقیقت موت کے وقت ظاہر ہوتی ہے۔
حضرت زینبؑ کی بینش: “میں نے جز خوبی کچھ نہیں دیکھا” جب ابن زیاد نے حضرت زینبؑ سے کوفہ میں تمسخر کے ساتھ پوچھا: ’’دیکھا خدا نے تمہارے بھائی اور خاندان کے ساتھ کیا کیا؟‘‘ تو بی بیؑ نے فرمایا: «مَا رَأَیْتُ إِلَّا جَمِیلًا» یعنی: ’’میں نے سوائے خوبی کے کچھ نہیں دیکھا۔‘‘
کیونکہ حضرت زینبؑ شہادت کے باطنی پہلو کو دیکھ رہی تھیں ،کہ شہادت دراصل آبِ حیات ہے۔ شہید مرتا نہیں، بلکہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔باور حضرت زینبؑ کے لیے یہ جمالِ الهی کا جلوہ تھا۔ اسی لیے فرمایا: ’’ہم نے اس سفر میں سوائے خوبی کے کچھ نہیں دیکھا۔‘‘
وہ شہادت کی حقیقت بھی دیکھ رہی تھیں اور اسارت کے معنوی باطن کو بھی۔
اسی لیے ہر حال میں خدا کے جلال و جمال کو یاد کرتیں اور فرماتیں: “ہم پر تو بڑا کرم ہوا، ہمیں خدا کی ملاقات نصیب ہوئی۔”
یہی بینش تھی جس نے دنیا کو بیدار کر دیا۔
حجاب: عورت کی عزت و جلال کا حصار
آخر میں آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں: حجاب عورت کی زینت، عزت اور جلال ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کے مقام و حرمت کے تحفظ کے لیے حجاب کا حکم دیا ہے، تاکہ اس کی وقار و عظمت باقی رہے۔
نتیجہ:
حضرت زینبؑ نے اپنے علم، بصیرت، صبر اور حجاب کے ذریعے انسانِ کامل کی وہ صورت پیش کی جو نہ صرف عورتوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنما اور معیارِ کمال ہے۔
منبع: پیام آیت الله العظمی جوادی آملی به بیستمین کنفرانس سالانه کنگره مسلمان آمریکا، ۱۹ آبان ۱۴۰۳









آپ کا تبصرہ