۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
قاضی شریح

حوزہ/قاضی شریح اپنے دور کا فقیہ، مفسر، ماہر انساب، عالم اور قاضی تھا، لیکن اخلاقی خصوصیات کے لحاظ سے مصلحت پسند، فرصت طلب اور مقام و منصب کا دلدادہ تھا۔

تحریر: عون نقوی

حوزہ نیوز ایجنسیl تاریخ کربلا سے مربوط بہت سی شخصیات ہیں جن سے ہم شدید نفرت کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے، لیکن ہمیں ان کی درست شناخت نہیں. ہم ان کی تاریخ پڑھنے کے لائق نہیں سمجھتے اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم نہیں سمجھ پاتے کہ جو افراد امام حسین علیہ السلام کے خلاف آ کر کھڑے ہوئے وہ کیسے لوگ تھے؟ ان کا کردار اور شخصیت کیسی تھی؟ تاریخ کے ان اوراق پر نظر رکھنے سے ہمیں آج کے دشمنان حسین ع بھی سمجھ میں آئیں گے اور ہم اپنے آس پاس دیکھ سکیں گے کہ آج کا شمر کون ہے جو مقدس ہستیوں کا قتل کررہا ہے؟آج کا حرملہ کون ہے جو بچوں کو ذبح کررہا ہے، آج کا ابن زیاد کون ہے جس سے ہمارا امام برسرپیکار ہوگا؟ آج کا یزید کون ہے جو امت مسلمہ کا حقیقی دشمن ہے. ان شخصیات میں سے ایک شخصیت قاضی شریح کی ہے جو اپنے زمانے کی سیاسی و اجتماعی صورتحال میں ایک حد تک دخیل ہے، خواص میں سے ہے اور ایک بہت بڑا طبقہ اسکی پیروی کرتا ہے. وقت کا چیف جسٹس، فقیہ، مجتہد، عالم ہے لوگ اسکی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کیلئے اسکی طرف بڑھتے ہیں۔

نام شریح بن حارث بن قیس بن جھم معاویہ ہے، قبیلہ کند سے ہے. اسکے القاب میں سے ابو امیہ کندی، ابو عبدالرحمن، شریح قاضی، کاذب مشہور ترین ہیں. تاریخ ولادت کے بارے میں کسی بھی تاریخ میں اشارہ موجود نہیں، سال وفات 78 یا 80 ھجری بیان کیا گیا ہے، اسکی عمر 106 یا 110 سال بیان ہوئی ہے. اصالتاً یمنی ہے اور وہاں سے حجاز کی طرف ہجرت کرتا ہے. قاضی شریح کے صحابی یا تابعی ہونے میں مورخین نے اختلاف کیا ہے، بعض مورخین کے مطابق وہ تابعی تھا، ابن حجر کے مطابق رسول اللہ ص سے اسکی ملاقات ثابت ہے لیکن ذھبی اس بات کو رد کرتے ہیں. مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قاضی شریح اپنے دور کی بااثر شخصیات میں سے تھا جس نے اپنی زندگی بڑے بڑے صحابیوں کے ساتھ گزاری۔

قاضی شریح خلیفہ اول کے زمانے میں تازہ مسلمان شدہ افراد میں سے تھا، اس وجہ سے اس دور میں قاضی شریح کا کوئی خاص مقام نہیں تھا اور نہ ہی زیادہ معروف تھا. خلیفہ دوم کی خلافت کے اوائل میں اس شخص کو کوئی خاص منصب نہیں ملتا لیکن جلد ہی فتوحات مسلمین کے بعد مختلف علاقوں میں والی و قضاة بھیجنے کی ضرورت پیش آنے پر قاضی شریح جیسے افراد کو موقع ملتا ہے. خلیفہ دوم کی خلافت میں قاضی شریح کا شمار مدینہ کے پڑھے لکھے افراد میں سے ہونے لگتا ہے جو شاعر اور علم انساب کو بخوبی جانتا ہے، ان خصوصیات کو دیکھتے ہوئے خلیفہ دوم قاضی شریح کو کوفہ کی جانب بھیجتے ہیں اس وقت قاضی شریح کی عمر 40 سال ہے. بعض منابع میں وارد ہوا ہے کہ کوفہ کے قاضی ہونے کی جہت سے ماہانہ سو درہم وصول کرتا تھا.خلیفہ سوم کی خلافت کے دوران بھی قاضی شریح اپنے منصب پر فائز رہتا ہے اور اس 12 بارہ سالہ خلافت عثمان کے دوران ان کا اور خلیفہ کا تعلق خوشگوار رہتا ہے.

بعض مورخین کے مطابق امام علی علیہ السلام کی خلافت ظاہری کے شروع ہونے کے بعد تین لوگ اپنے اپنے منصب پر باقی رہے جن میں سے ایک قاضی شریح تھا، درحقیقت امام علی علیہ السلام کی حکومت میں بھی قاضی شریح اپنے منصب قضاوت پر براجمان رہا، امام علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران قاضی شریح کی کچھ غلط قضاوتوں سے امام ع اس پر برہم ہوۓ، اس دوران قاضی شریح نے 80 دینار کا مجلل و مرفہ گھر خریدا جس پر امام علیہ السلام نے اسکا مواخذہ کیا کہ جسکی تفصیل کتاب نھج البلاغہ میں بھی وارد ہوئی ہے، ظاہرا امام علی علیہ السلام کی شہادت کے وقت مسند قضاوت کوفہ پر موجود تھا. امام حسن علیہ السلام کی مختصر خلافت کے دورانیہ میں بھی یہ شخص اپنے مسند پر فائز رہا، اور اسکے بعد امیر شام کی 20 سالہ حکومت کے دوران بھی اس نے اپنے عہدے کو ہاتھ سے نہ جانے دیا.

قاضی شریح نے پہلی بار نہضت کربلا سے خود کو اس وقت مربوط کیا جب 70 بزرگان کوفہ نے جن میں حبیب ابن مظاہر، محمد بن اشعث، مختار ثقفی، عمر بن سعد وغیرہ شامل تھے، نے قاضی شریح کی موجودگی میں امام حسین علیہ السلام کو کوفہ دعوت دینے کی تحریک چلائی، اس اکٹھ کے بعد جب ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوا تو یہ شخص بغیر کسی شرم و عار و اپنے تعہد پر باقی رہنے کے فورا دارالامارہ چلا جاتا ہے اور عبیداللہ بن زیاد کا مشاور بن جاتا ہے، چونکہ ابن زیاد کو بھی اس جیسے مقدس مآب، فقیہ اور عالم کی ضرورت تھی اس نے گرمجوشی سے اسکا استقبال کیا. ھانی کی شہادت کے بعد ھانی کے قبیلے والوں کو پراکندہ کرنے کے لیے ابن زیاد نے قاضی شریح کو استعمال کیا، ھانی کے قبیلے والوں نے جب دیکھا کہ ایک بزرگ و فقیہ گواہی دے رہا ہے کہ ھانی ٹھیک ہیں تو وہ خاموش ہو کر چلے گئے. یہاں پر قاضی شریح کا ایسا کردار ادا کرنا بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی و دفاعی اقدام تھا اگر قاضی شریح نے یہ قدم نہ بڑھایا ہوتا تو شاید اسی وقت ھانی کے قبیلے والے کہ جنہوں نے دارالامارہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا ابن زیاد کو ھانی کے قتل کے جرم میں مار دیتے اور کوفہ کی حکومت کا رخ ہی بدل جاتا.

قاضی شریح نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا فتوی جاری کیا تھا یا نہیں؟ اس واقعیت پر مضبوط سند موجود نہیں ہے لیکن بعض محققین کے مطابق یہ فتوی جاری کیا گیا جس نے کوفہ اور شام کے لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر آمادہ کیا، جب لوگوں نے دیکھا کہ ایک فقیہ، مجتہد، مفسر، اور خلفاء راشدین کا مقرر شدہ قاضی یہ فتوی دے رہا ہے تو درست ہی کہہ رہا ہوگا، اس پر شواہد موجود ہیں جو اس فتوی کے موجود ہونے کی تصدیق کرتے ہیں.
١: قاضی شریح کا ہر وقت کے حاکم کے ساتھ سازگار ہونا اور افکار و نظریات میں انکا موافق ہونا۔
٢: ابن زیاد کی قدرت کو درک کرتے ہی قاضی شریح کا اسکے ساتھ ملحق ہوجانا، اور اسکے ہاتھوں مختلف مواقع پر استعمال ہونا.
٣: ضعف نفس، بے حد محتاط اور ڈرپوک ہونا۔
٤: اگر مان لیا جائے کہ صریح اور واضح طور پر فتوی نہیں جاری کیا گیا تھا تو یہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح سے قاضی شریح اور ابن زیاد کا تعلق تھا اور پھر قاضی شریح نے ابن زیاد کے آگے ڈرپوکی، عافیت طلبی، ریاکاری، دو پہلو باتیں کرنا، اور جھوٹ کا رویہ اختیار کیا ہوا تھا اور اسی طرح سے ابن زیاد کا قاضی شریح کے جھوٹے دستخط اور مہر کا استعمال کرنا، اسکی کلی باتوں سے نتیجہ گیری اور غلط قیاس کا سمجھنا، یا قاضی شریح کا کلی طور پر امام حسین علیہ السلام کے قیام پر سوالات اٹھانا ابن زیاد کے لیے کافی تھا کہ وہ لوگوں کو نواسہ پیغمبر کے قتل کے لیے تیار کرے۔

سانحہ کربلا کے بعد کوفہ کے حالات خراب ہوجانے اور مختلف قیام اور تحریکوں کے اٹھنے کی وجہ سے قاضی شریح تقریبا 9 سال تک اپنے عہدے سے کنارہ گیر رہے مورخین نے اسکی وجہ عافیت طلبی اور عدم امنیت بیان کی ہے، ابن خلدون کے بقول مختار ثقفی نے کوفہ پر تسلط حاصل کرنے کے بعد قاضی شریح کو کوفہ کے منصب قضاوت کے لیے مقرر کیا، لیکن مختار کے سپاہیوں نے اس پر اعتراض کیا، قاضی شریح بھی ان اعتراضات کو سن کر خوفزدہ ہوا اور بیماری کا بہانہ بنا کر خانہ نشین ہوگئے، مختار بھی ان اعتراضات کے نتیجے میں قاضی شریح کو معزول کرنے پر مجبور ہوگیا. یہ شخص جانتا تھا کہ یہ قیام عارضی ہیں اور ان میں مداخلت خطرناک ہے، کوفہ میں مختلف حکومتیں و شورشیں ہوتی رہیں لیکن یہ کسی کا بھی حصہ نہیں بنا بعد میں عبدالملک بن مروان کی حکومت میں دوبارہ کوفہ کا قاضی مقرر ہوا. اس دوران عبدالملک بن مروان نے حجاج کو کوفہ کا گورنر بنایا اور قاضی شریح اس وقت نا صرف کوفہ کا چیف جسٹس تھا بلکہ حجاج کے مشاورین میں سے شمار ہونے لگا۔

قاضی شریح نے کوفہ میں کتنے سال قضاوت کی اس بارے میں اختلاف ہے کیونکہ اسکے وفات کے سال پر بھی مورخین نے اختلاف کیا ہے، 53 سے 75 سال تک کا عدد موجود ہے، ابن ابی الحدید نے بیان کیا ہے کہ قاضی شریح نے 57 سال قضاوت کی. قاضی شریح کی عمر کے بارے میں قوی قول یہ ہے کہ اسکی عمر 106 یا 110 سال تھی. مختلف منابع نے سال 72 ھجری یا سال 99 ھجری کو اسکی وفات کا سال قرار دیا ہے. نتیجے کے طور پر آخر میں کہا جاسکتا ہے کہ قاضی شریح اپنے دور کا فقیہ، مفسر، ماہر انساب، عالم اور قاضی تھا، لیکن اخلاقی خصوصیات کے لحاظ سے مصلحت پسند، فرصت طلب اور مقام و منصب کا دلدادہ تھا۔ اسکا مذہب و نظریہ یہ تھا کہ کوئی بھی حکومت ہو، علوی ہو یا شامی، یزیدی ہو یا حسینی، کسی بھی نظریے کے حاکم کے ساتھ خود کو ملحق کرنا ہے اور منصب لینا ہے. حقیقت کو اپنی ذاتی مصلحت پر فدا کرنا پڑے تو کوئی مسئلہ نہیں، ہمیشہ گول مول بات کرنی ہے جس سے حق بھی چھپ جاۓ اور باطل بھی واضح نہ ہو۔

➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖ ➖

منابع:
١. ابن اثیر جزری, عزالدین اسدالغابه فی معرفه الصحابه، (بیروت دارالکتب العلمیه).
٢. الکامل فی التاریخ، فارسی ترجمه دکتر روحانی، (چاپ اول، تهران، انتشارات اساطیر، ١٣٧٣شمسی).
٣. ابن ایبک الصفدی، صلاح الدین خلیل، الوافی بالوفیات، (بیروت، دارإحیا، ١٤٠٢ھجری).
٤. ابن جوزی، جمال الدین ابی الفرج، صفه الصفوه، (چاپ اول، بیروت، دارالکتب العلمیه، ١٤٠٣ھجری).
٥. ابن حبان، محمد بن أحمد، مشاهیر علمإ الامصار و إعلام فقها القطار، (چاپ اول، بیروت، موسسه الکتب الثقافیه، ١٤٠٨ھجری).
٦. ابن حجر عسقلانی، شهاب الدین، تهذیب التهذیب، (بیروت دارإحیاء).
٧. ابن حزم اندلسی، ابی محمد، جمهره الانساب العرب، (چاپ اول، بیروت، دارالکتب العلمیه، ١٤٠٣ھجری).
٨. ابن خلدون، عبدالرحمن، مقدمه، فارسی ترجمه محمدپروین گنابادی، (تهران، بنگاه ترجمه و نشر کتاب، ١٣٣٦شمسی).
٩. ابن خلکان، احمدبن محمدبن ابراهیم، وفیات الاعیان و انبا الابنا الزمان، (بیروت، دارصادر، بی تا).
١٠. ابن سعد، محمد، طبقات کبری، (بیروت، دارصادر، بی تا).
١١. ابن عبدربه اندلسی، احمدبن محمد، العقد الفريد، (بیروت، دارالکتب العلمیه، بی تا).
١٢. ابن عساکر، ابی القاسم علی بن حسن شافعی، تاریخ مدینه دمشق، (بیروت، دارالفکر، ١٤١٥ھجری).
١٣. ابن قنفذ، احمدبن خطیب، الوفیات، چاپ چهارم، (بیروت، دارالافاق الجدیده، ١٤٠٣ھجری).
١٤. ابن کثیر، ابی الفدإ، البدایه و النهایه، (چاپ پنجم، بیروت، دارالکتب العلمیه، ١٤٠٩ھجری).
١٥. ابن منظور، لسان العرب، چاپ دوم، (بیروت، دارإحیا ١٤١٢ھجری).
١٦. ابن وکیع، محمدبن خلف بن حیان، اخبار القضاه، (بیروت، عالم الکتب، بی تا).
١٧. اصفهانی، ابونعیم احمدبن عبدالله، حلیه الاولیإ و طبقات الاصفیإ، (بی جا، مطبعه السعاده، ١٣٩٤ھجری).
١٨. ابن حجر،الاصابه فی تمییز الصحابه، چاپ اول، (بیروت، دارالکتب العلمیه، ١٤١٥ھجری).
١٩. الراوی، ثابت اسماعیل، العراق فی العصر الاموی، (چاپ دوم، بغداد، منشورات مکتبه الأندلس، ١٩٧٠عیسوی).
٢٠. بخاری جعفی، ابی عبدالله اسماعیل بن ابراهیم، تاریخ الکبیر، (بیروت، دارالکتب العلمیه، بی تا).
٢١. ذهبی شمس الدین محمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، (چاپ دوم، بی جا، دارالکتب العربی، ١٤١٨ھجری).
٢٢. ذهبی، شمس الدین محمد، سیر اعلام النبلإ، (چاپ هفتم، بیروت، موسسه الرساله، ١٤١٠ھجری).
٢٣. شیخ مفید، الإرشاد، فارسی ترجمه رسولی محلاتی، (چاپ چهارم، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، ١٣٧٨شسمی).
٢٤. طبری،محمدبن جریر، تاریخ الطبری، (بیروت دارالتراث، بی تا).
٢٥. طبری، محمدبن جریر، تاریخ طبری، ترجمه ابوالقاسم پاینده، (تهران انتشارات بنیاد فرهنگ ایران، ١٣٥٣شسی).
٢٦. مسعودی، ابوالحسن علی بن حسین، التنبیه و الاشراف، (بی جا، دارالصاوی، بی تا).


بشکریہ: البِرّ اسلامی فڪـرى مرڪـز

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .