تحریر: حجۃ الاسلام مہدی پیشوائی
ترجمہ: مولانا فیروز علی بنارسی
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روز عاشورا سردار قیام کربلا امام حسین علیہ السلام کی شہادت اس واقعہ کی جانسوزی اور ماتم و سوگواری کا اوج ہے، اس طرح کہ قلم واقعہ کربلا کے اس حصہ کو لکھنے کا یارا نہیں رکھتا۔
بعض مورخین اور مقتل نویسوں نے امام حسین علیہ السلام کی جنگ اور شہادت کی کیفیت کو بطور اختصار اور بعض نے بالتفصیل بیان کیا ہے اور مجموعی طور پر کچھ اختلاف اور فرق کے ساتھ لکھا ہے۔ لیکن کسی نے بھی اس واقعہ کے جزئیات کی دقیق، صاف و شفاف ، منظم اور منطقی تصویر کشی نہیں کی ہے؛ اسی لئے امام حسین علیہ السلام کے میدان میں جانے ، جنگ کرنے اور آخرکار درجۂ شہادت پر فائز ہونے کی کیفیت کی واضح تصویر کشی کے لئے اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ متعدد روایتوں کو ایک ساتھ قرار دیا جائے اور منطقی طور پر ان کی تنظیم و تدوین کی جائے تاکہ حتی الامکان اس جانسوز واقعہ کی صحیح اور دقیق تصویر کشی ہو سکے۔
ودائع امامت سپرد کرنا
امام حسین علیہ السلام نے میدان جنگ میں جانے سے پہلے جو اہم کام انجام دیئے ان میں سے ایک ودائع اور امانت امامت اور میراث رسول اکرم ﷺکو اپنے بعد والے امام ، امام زین العابدین علیہ السلام کے سپرد کرنا تھا۔
ابوالجارود نے اس بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
جب شہادت امام حسین علیہ السلام کا وقت آپہونچا تو آپ نے اپنی بیٹی فاطمہؑ کو بلایا اور ایک لپیٹی ہوئی تحریر جو ظاہراً وصیت تھی ان کے حوالہ کیا۔ علی ابن الحسین علیہ السلام (امام سجاد علیہ السلام) اس وقت بیمار تھے اور لوگ سوچ رہے تھے کہ وہ اس بیماری سے شفایاب نہ ہوں گے۔
(جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے تو) فاطمہ نے اس تحریر کو علی ابن الحسین علیہ السلام کے حوالہ کردیا۔
اس کے بعد امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا:
خدا کی قسم وہ نامہ ہمارے پاس ہے۔
(اصول الکافی، ج۱،ص۲۴۱)
اہل حرم سے الوداع
لشکر عمر سعد کے پیدل سپاہیوں نے امام حسین علیہ السلام کے بچے سپاہیوں پر داہنے اور بائیں جانب سے حملہ کیا اور ان کو شہید کر ڈالا، یہاں تک کہ امام علیہ السلام کے ساتھ تین یا چار آدمیوں کے علاوہ کوئی نہ بچا۔ جب امام علیہ السلام نے یہ حالت دیکھی تو بدن پر موجود لباس کے علاوہ ایک یمنی شلوار طلب کی جو آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی ۔ اسے جگہ جگہ سے چاک کیا تاکہ بعد شہادت دشمن اسے آپ کے بدن سے غارت نہ کر لے جائیں، اسے آپ نے پہنا۔
الارشاد،ج۲،ص۱۱۱
اس کے بعد امام علیہ السلام نے اہل حرم سے وداع کیا ۔ اس وقت جناب سکینہ نالہ و فریاد کر رہی تھیں ، آپ نے انھیں سینہ سے لگایا اور فرمایا:
سَیَطُولُ بَعدِی یَا سَکِینَۃُ فَاعْلَمِی
مِنْکِ الْبُکائُ اِذَا الْحَمَامُ دَھَانِی
لا تُحرِقِی قَلْبِی بِدَمْعِکِ حَسْرَۃً
مَادَامَ مِنِّی الرُّوحُ فِی جِثْمَانِی
وَ اِذَا قُتِلْتُ فَاَنْتِ اَوْلیٰ بِالَّذِی
تَاتِیْنَہ یَا خَیْرَۃَ النِّسْوَان
اے سکینہ ! جان لو کہ جب میری شہادت ہو جائے گی تو میرے بعد تمہارا گریہ طولانی ہوجائے گا۔ جب تک میرے بدن میں روح ہے اشک حسرت سے میرے دل میں آگ نہ لگاؤ ۔
اے عورتوں میں سب سے برتر! جب میں قتل کردیا جاؤں تو تم اس کام (گریہ و زاری) کیلئے زیادہ اولیٰ اور حقدار ہو۔
امام حسین علیہ السلام میدان جنگ میں
اس کے بعد آپ دشمن کے لشکر کے سامنے آئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کی ابتداء اس طرح کی:
یَا اَہْلَ الْکُوْفَۃ! قُبْحاً لَکُم وَ تَرْحاً وَ بُؤساً وَ تَعْساً ، اِسْتَصْرَخْتُمُونَا وَالِہِینَ فَاَتَیْنَاکُم مُوجِبِیْنَ فَشَحَذْتُمْ عَلَیْنَا سَیفاً کَانَ فِی اَیْمَانَنَا۔
(الفتوح، ج۵،ص۱۴۶)
اے اہل کوفہ! تمہارے لئے ہلاکت اور غم و اندوہ ہو، حیرانی و سرگردانی ہو۔ تم نے ہمیں اپنی فریاد رسی کے لئے بلایا اور ہم تیزی سے اور تیار ہو کر تمہاری مدد کے لئے آئے اور اسی وقت تم نے ہماری مدد اور دفاع کے لئے تلوار اٹھانے کے بجائے ہمارے خلاف ہی تلوار کھینچ رکھی ہے۔
اس کے بعد آپ گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرمایا:
اَنَا ابْنُ عَلِیِّ الْخَیْرِ مِن آلِ ہَاشِم
آپ نے دشمن کے میمنہ پر حملہ کیا اور اس طرح رجز پڑھا:
اَلْمَوْتُ خَیْرٌ (اَوْلیٰ) مِنْ رُکُوبِ النَّارِ
وَ الْعَارُ اَوْلیٰ مِنْ دُخُولِ النَّارِ
مناقب آل ابی طالب، ج۴،ص۷۶
موت ذلت سے بہتر ہے اور ذلت جہنم میں جانے سے بہتر ہے۔
پھر آپ نے میسرہ پر حملہ کیا اور فرمایا:
اَنَا الْحُسَینُ بْنُ عَلِی
اَحْمیٰ عَیَالاتِ اَبِی
آلَیْتُ اَن لا اَنْثَنِی
اَمْضِی عَلیٰ دِیْنِ النَّبِی
میں حسین ابن علی ہوں، میں اپنے والد کے خاندان کی حمایت کرتا ہوں۔
میں نے قسم کھائی ہے کہ سر تسلیم خم نہ کروں اور دین نبی ؐ کیلئے جان دے دوں۔
(مناقب ابن شہر آشوب،ج۴،ص۱۱۹)
جہاد کے لئے عزم امام سجاد علیہ السلام
ادھر امام زین العابدین علیہ السلام خیمہ سے باہر آئے وہ اس وقت بیمار تھے اور تلوار اٹھانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ ام کلثوم نے پیچھے سے آواز دی: بیٹا ! واپس پلٹ آ۔
آپ نے فرمایا: اے پھوپھی! مجھے چھوڑ دیجئے تاکہ میں فرزند رسول ؐ کے رکاب میں جنگ کروں (اور ان کی مدد کروں)
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
اے ام کلثوم! انھیں روکو اور خیمہ میں واپس لے جاؤ اس لئے کہ زمین کو اہل بیت محمدؐ کی نسل سے خالی نہیں ہونا چاہئے۔
(مقتل خوارزمی،ج۲،ص۳۲)
جنگ کا آغاز اور نصرت طلب کرنا
امام حسین علیہ السلا م طفل شیر خوار کو دفن کرنے کے بعد اٹھے ، گھوڑے پر سوار ہوئے ، لشکر یزیدی کے سامنے آئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد اس حالت میں کہ شمشیر ہاتھ میں لئے شہادت کا قصد کئے ہوئے تھے فرمایا:
اَنَا ابْنُ عَلِیِّ الْخَیْرِ مِن آلِ ہَاشِم
کَفَانِیْ بِھٰذَا مَفْخَراً حِینَ اَفْخَرُ
وَ جَدِّی رَسُولُ اللّٰہِ اَکْرَمُ مَن
وَ نَحْنُ سِرَاجُ اللّٰہِ فِی الْخَلْقِ نَزْہَرُ
وَ فَاطِمُ اُمِّی مِنْ سُلَالَۃِ اَحْمَدَ
وَ عَمِّی یُدْعیٰ ذَا الْجَنَاحَینِ جَعْفَرُ
وَ فِیْنَا کِتَابُ اللّٰہِ اُنْزِلَ صَادِقاً
وَ فِیْنَا الْھُدَیٰ وَ الْوَحْی بِالْخَیْر
وَ نَحْنُ اَمَانُ الْاَرْضِ لِلنَّاس
نَصُولُ بِھٰذا فِی الْاَنَامِ وَ نَفْخَرُ
وَ نَحْنُ وُلاۃُ الْحَوْضِ نَسْقِی
بِکَأْسِ رَسُولِ اللّٰہِ مَا لَیْسَ
وَ شِیْعَتُنَا فِی النَّاسِ اَکْرَمُ شِیْعَۃٍ
وَ مُبْغِضُنَا یَومَ الْقِیَامَۃِ یَخْسَرُ
میں فرزند علی وہ بزرگ مرد، خاندان ہاشم سے ہوں۔ میں جب بھی فخر کروں میرے لئے یہی فخر کافی ہے۔
میرے جد رسول خدا ﷺ گذشتہ لوگوں میںسب سے بہتر و برتر ہیں اور ہم لوگوں کے درمیان خدا کے روشن چراغ ہیں۔
میری ماں فاطمہ ہیں نسل احمد سے، میرے چچا جو جنت میں دو پروالے ہیں انھیں جعفر کہا جاتا ہے۔
بے شک ہمارے گھر میں خدا کی کتاب نازل ہوئی ہے اور ہدایت و وحی کو وہاں خیر کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔
ہم تمام انسانوں کے لئے زمین کے امن و امان کا باعث ہیں ۔ہم (دشمن پر) حملہ کرتے ہیں اور لوگوں کے درمیان اس بات پر فخر کرتے ہیں۔
ہم حوض کوثر کے مالک ہیں کہ اپنے دوستداروں کو رسول اکرم ؐ کے جام سے سیراب کریں گے اور یہ بات ناقابل انکار ہے۔
لوگوں کے درمیان ہمارے پیروکار بہترین پیروکار ہیں اور ہمارے دشمن روز قیامت گھاٹا اٹھائیں گے۔
ایک روایت کے مطابق اس وقت امام حسین علیہ السلام نے ان بے نظیر اشعار کو بھی ارشاد فرمایا:
فَاِنْ تَکُنِ الدُّنْیَا تُعَدُّ نَفِیسَۃً
فَدَارُ ثَوَابِ اللّٰہِ اَعْلیٰ وَ اَنْبَل
وَ اِنْ تَکُنِ الْاَبْدَانُ لِلْمَوْتِ اُنْشِئَتْ
فَقَتْلُ امْرَئٍ فِی اللّٰہِ بِالسَّیْفِ
وَ اِنْ تَکُنِ الْاَرْزَاقُ قِسْماً مُقَدَّراً
فَقِلَّۃُ حِرْصِ الْمَرْئِ فِی الْکَسْبِ
وَ اِنْ تَکُنِ الْاَمْوَالُ لِلتَّرْکِ جَمْعُھَا
فَمَا بَالُ مَتْرُوکٍ بِہِ الْمَرْئُ یَبْخَلُ
سَاَمْضِیْ وَ مَا بِالْقَتْلِ عَارٌ عَلَیَّ
اِذَا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ یَمْضِی وَ یُقْتَل
(مقتل خوارزمی،ج۲،ص۳۳)
اگر دنیا زیادہ ارزشمند اور قیمتی شمار کی جائے تو انعام الٰہی کا گھر زیادہ بلند و قیمتی ہے۔
اگر بدن موت کے لئے پیدا ہوئے ہیں تو انسان کا راہ خدا میں قتل ہوجانا برتر ہے۔
اگر روزی تقسیم اور لکھ دی گئی ہے تو انسان کا مال حاصل کرنے کی راہ میں کم لالچ و طمع کرنا زیادہ خوبصورت ہے۔
اگر مال و ثروت کا جمع کرنا چھوڑ کر جانے کے لئے ہے تو انسان کیوں اس چھوڑ کر جانے والی چیز میں کنجوسی سے کام لے۔
میں چلا جاؤں گا اور موت جو اں مرد کے لئے ذلت و رسوائی نہیں ہے وہ بھی اس وقت جب راہ خدا میں جانا اور شہید ہونا ہو۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے دشمن کو جنگ کے لئے بلایا ۔ دشمن کا جو بھی نامور اور جانا پہچانا سپاہی آپ کے قریب آتا اسے تہ تیغ کر دیتے تھے ۔ اس طرح آپ نے دشمن کے بہت سے سپاہیوں کو واصل جہنم کیا۔
یہاں تک کہ مالک بن نسیر بدی کندی آپ کے مقابلہ کے لئے آیا او ر اس نے آپ کے سر مبارک پر ایک ایسی تلوار ماری کہ تلوار آپ کے کلاہ دار جبہ کو کاٹتی ہوئی آپ کے سر تک پہونچ گئی اور آپ کا سر زخمی ہوگیا اور آپ کی ٹوپی خون سے بھر گئی۔
آپ نے اس شقی سے فرمایا: تو اس ہاتھ سے کبھی بھی نہ کھائے اور نہ ہی پیئے اور خدا تجھے ستمگروں کے ساتھ محشور کرے۔
(خوارزمی نے لکھا ہے کہ جب امام علیہ السلام نے اس ٹوپی کو پھینک دیا اور سر پر عمامہ باندھا تو وہ ملعون آیا اور اسے اٹھا لیا۔ جنگ کے خاتمے پر وہ اس ٹوپی کو اپنے گھر لایا اور اپنی بیوی کو دیا تاکہ اسے دھو دے تو اس کی بیوی نے کہا: کیا تو بنت رسول ؐ کے فرزند کی ٹوپی کو گھر لایا ہے؟ میرے پاس سے نکل جا ، خدا تیری قبر کو آگ سے بھر دے۔
اس ملعون کے دوست نقل کرتے ہیں کہ اس کے دونوںہاتھ خشک ہوگئے اور وہ فقیری اور بدبختی کی زندگی گزارنے لگااور آخر کار اسی حالت میں واصل جہنم ہوا۔
(مقتل خوارزمی،ج۲،ص۳۵)
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے کلاہ دار جبہ کو ایک کنارے ڈالا اور ایک ٹوپی پہنی اور اس پر عمامہ باندھا ۔ یہ سب اس حالت میں ہوا کہ آپ ناتوان اور تھک چکے تھے۔
(تاریخ طبری،ج۵،ص۴۴۸)
امام علیہ السلام نے سر پر عمامہ باندھنے کے بعد دائیں بائیں نظر ڈالی ، لیکن کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد سر کو آسمان کی طرف بلند کیا اور بارگاہ خدا میں عرض کی :
خدایا! تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ تیرے رسول ؐ کے فرزند کے ساتھ کیسا برتاؤ کر رہے ہیں۔
اسی اثنا میں شمر بن ذی الجوشن اپنے سپاہیوں کے ساتھ آگے بڑھا ۔ امام علیہ السلام نے ان سب سے جنگ کی اور دشمن آنحضرت اور خیمہ گاہ کے درمیان حائل ہوگئے اور خیام کی طرف بڑھنے لگے ، وہ خیموں پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔{ FR 61 }
( انساب الاشراف، ج۳،ص۴۰۷)
یہ دیکھ منظر دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے بلند آواز میں ان ظالموں کو للکارا اور فرمایا:
وَیْحَکُمْ یَا شِیْعَۃَ آلِ اَبِی سُفْیَانَ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَکُمْ دِیْنٌ وَ کُنْتُمْ لا تَخَافُوْنَ الْمَعَادَ فَکُونُوا اَحْرَاراً فِی دُنْیَاکُمْ ھَذِہٖ وَ ارْجِعُوا اِلیٰ اَحْسَابِکُمْ اِنْ کُنْتُمْ عَرَباً کَمَا تَزْعَمُونَ۔{ FR 62 }
(الفتوح، ج۵،ص۱۱۷)
لعنت ہو تم پر اے خاندان ابو سفیان کے پیروکارو! اگر تمہارے پاس دین نہیں اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں تو آزاد رہو اور اپنے عربی شرف و اقدار کی طرف پلٹ جاؤ جیسا کہ تم گمان کرتے ہو کہ عرب ہو۔
یہ سن کر شمر ملعون چلایا:
اے حسین ! کیا کہہ رہے ہو؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:
یہ میں ہوں جو تم سے جنگ کر رہا ہوں اور تم لوگ مجھ سے جنگ کر رہے ہو ، اس میں عورتوں کی کوئی خطا نہیں ہے جب تک میں زندہ ہوں اپنے طاغیوں، سرکشوں ، ظالموں اور جاہلوں کو میرے اہل حرم پر زیادتی سے دور رکھ۔
شمر نے کہا:
اے فرزند فاطمہؐ! تمہاری بات صحیح ہے، ہم مانتے ہیں۔
اس کے بعد شمر نے اپنے ساتھیوں سے چلا کر کہا:
اس آدمی کے اہل حرم سے دور ہو جاؤ اور خود اس کی طرف جاؤ۔ میری جان کی قسم کہ وہ کریم اور بزرگوار مد مقابل ہے۔ { FR 63 }
(الفتوح،ج۵،ص۱۱۷)
کوفیوں نے ہر طرف سے امام علیہ السلام پر حملہ کردیا ان میں سے بعض ملاعین یہ تھے:
ابولجنوب عبدالرحمٰن جعفی، قشعم بن عمرو بن یزید جعفی، صالح بن وہب یرنی، سنان بن انس نخعی اور خولی بن یزید اصبحی۔
شمر اپنے سپاہیوں کی تشویق و ترغیب کرتا جاتا تھاکہ وہ امام مظلوم پر حملہ کریں ۔ ابولجنوب جو ہتھیار میں ڈوبا ہوا تھاجب شمر اس کے پاس سے گذرا تو اس سے کہا: حملہ کر۔ اس نے کہا:
تو کیوں مجھ سے کہہ رہا ہے؟
دونوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں۔ ابوالجنوب جو ایک جسور آدمی تھا شمر سے بولا:
خد اکی قسم میں چاہتا ہوں کہ اس نیزہ کو تیری آنکھ میں ڈال دوں اور اسے کاسہ سے نکال لوں۔ شمر اس کے پاس سے یہ کہتے ہوئے ہٹ گیا کہ اگر میں تجھے کوئی نقصان پہونچا سکتا تو یقینا یہ کام کرتا۔
اس کے بعد شمر نے پیدل سپاہیوں کے ساتھ ملکر امام حسین علیہ السلام پر حملہ کیا ، امام ثابت قدم رہے اور شدید جنگ ہوتی رہی ۔امام علیہ السلام ان ظالموں پر حملہ کرتے اور وہ آپ کے اردگرد سے بھاگتے یہاں تک کہ ان ظالموں نے امام علیہ السلام کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ { FR 64 }
تاریخ طبری،ج۵،ص۴۵۰
اسی اثنا میں جناب عبد اللہ بن حسن علیہ السلام جو ابھی نابالغ (جناب قاسم علیہ السلام سے کمسن) اور خوبصورتی میں چودہویں کے چاند کے مانند تھے، خواتین کے درمیان سے باہر نکلے اور اپنے چچا حسین علیہ السلام کے پاس آکر کھڑے ہو گئے۔ جناب زینب علیہا السلام نے انھیں روکنا چاہا مگر وہ نہ رکے ، امام علیہ السلام نے اپنی بہن سے فرمایا:
اے بہن اسے روکو۔
لیکن عبداللہ نہ مانے ، اصرار کرتے رہے اور کہہ رہے تھے:
خد اکی قسم میں اپنے چچا سے جدا نہ ہوںگا۔
اسی دوران ابجر بن کعب نے امام علیہ السلام پر تلوار سے حملہ کرنا چاہا۔ جب اس کمسن نے یہ منظر دیکھا تو اس ملعون سے کہا:
یَا ابنَ الخَبِیثَۃِ! اَ تَقتُلُ عَمِّی!
اے زن بدکارہ کے بیٹے! کیا میرے چچا کو قتل کر دے گا؟
اس شقی نے امام کی جانب تلوار چلائی ادھر عبد اللہ نے اپنے دونوں ہاتھ تلوار کی طرف بڑھا دیئے ، تلوار ہاتھوں پر لگی اور ہاتھ کٹ کر کھال سے لٹک گئے۔ عبداللہ نے آواز دی : اے مادر گرامی!
امام حسین علیہ السلام نے عبد اللہ کو آغوش میں لیا اور فرمایا:
اے بھتیجے! جو مصیبت تجھ پر پڑی ہے اس پر صبر کر اور خد اسے خیر کی امید رکھ۔ خدا تجھے تیرے نیک آباء و اجداد رسول خداؐ، علی ابن ابی طالب ، حمزہ، جعفر اور حسن بن علی علیہم السلام سے ملحق کرے گا۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور بارگاہ خدا میں عرض کی:
خدایا! آسمان کی بارش کو ان پر روک دے اور انھیں زمین کی برکتوں سے محروم کردے ۔
خدایا! اگر تو انھیں کچھ دنوں تک اپنی نعمتوں سے بہرہ مند کرے تو ان کے درمیان تفرقہ اور جدائی ڈال دے اور انھیں فرقوں اور گروہوں میں باٹ دے اور سارے حکمرانوں کو اس سے ناخوش بنادے اس لئے کہ ان لوگوں نے مجھے دعوت دی تاکہ میری مدد کریں لیکن انھوں نے مجھ پر ستم روا رکھا اور ہمیں قتل کیا۔
(تاریخ طبری، ج۵،ص۴۵۱)
امام حسین علیہ السلام ان پر پے در پے حملہ کرتے اور دشمن بھی آپ پر حملہ کرتے تھے۔ اسی حالت میںآپ فرات کی جانب بھی جاتے اور جب بھی فرات سے قریب ہوتے دشمن آپ پر حملہ کرتے اور آپ کو فرات سے دور کر دیتے تھے۔ اسی اثنا میں ابولجنوب جعفی نامی شقی نے ایک تیر چلایاجو آپ کی پیشانی میں پیوست ہوگیا ۔ آپ نے تیر کو نکال کر پھینکا۔ خون چہرہ اور ریش مبارک پر جاری ہو گیا ۔ آپ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا:
خدایا! تو دیکھ رہاہے کہ میں تیرے ان نافرمان اور سرکش بندوں کے ہاتھوں کس حالت میں ہوں۔
خدایا! تو ان میں سے ایک ایک کو اپنے عذاب میں گرفتار کر اور انھیں نیست و نابود فرما اور ان میں سے کسی ایک کو بھی روئے زمین پر باقی نہ رکھ اور انھیں کبھی بھی معاف نہ فرما۔
اس کے بعد آپ نے دشمنوں پرایک غصہ ور شیر کی طرح حملہ کیا ،آپ جس کے پاس سے گذرتے اسے ایک ضربت لگاتے اور اسے زمین پر ڈھیر کر دیتے تھے۔
(مقتل خوارزمی،ج۲،ص۳۴)
شجاعت حسینی
امام حسین علیہ السلام شجاعانہ او ر بہادرانہ جنگ کر رہے تھے اور تیر اندازوں کی طرف سے بھی چوکس تھے۔ پے در پے ہر فرصت میں دشمن کی فوج پر حملہ کرتے اور فرماتے جاتے :
کیا ایک دوسرے کو میرے قتل پر ابھارتے ہو؟ میرے بعد کسی بھی بندۂ خدا کو قتل نہ کرو گے کہ خدا کو میرے قتل سے زیادہ غضبناک کرے۔ خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ تمہاری ذلت و خواری کے بدلے خدا مجھے عزت و کرامت عطا فرمائے اور پھر اس طرح کہ تم سمجھ بھی نہ پاؤ تم سے میرا انتقام لے۔ آگاہ ہوجاؤ خدا کی قسم اگر تم قتل کرو تو خدا تمہاری قوت کو تمہارے لئے وبال جان بنادے گا اور وہ تمہارے خون بہائے گا اور تمہارے لئے دہرے عذاب سے کم پر راضی نہ ہوگا۔
(مقتل خوارزمی،ج۲،ص۳۳)
حمید بن مسلم کہتا ہے:
بے شک میں نے کسی بھی ایسے مغلوب کو نہیں دیکھا کہ جس کے فرزند، گھر والے اور ساتھی مارے گئے ہوں اور وہ حسین سے زیادہ مضبوط قلب، آرام دل اور شجاع ہو ۔ جب وہ تلوار سے پیدل سپاہیوں پر حملہ کرتے تھے تووہ اس بھیڑ بکریوں کے گلے کے مانند داہنے بائیں فرار کرتے تھے جس پر بھیڑیے یا شیر نے حملہ کر دیا ہو۔
(الارشاد،ج۲،ص۱۱۱)
امام حسین علیہ السلام دشمن کی فوج پر حملہ کرتے جاتے تھے جس کی تعداد تیس ہزار تھی اور آپ انھیں ٹڈیوں کی طرح منتشر کرتے جاتے۔دشمن ان سے مقابلہ کرنےسے بھاگتے تھے۔ آپ ہربار حملہ کے بعد اپنی پہلی والی جگہ واپس آجاتے اور فرماتے :
لَا حَولَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ العَلِیِّ العَظِیم۔
(لہوف،ص۱۷۱)
آپ جنگ کرتے جاتے اور اس طرح آپ نے دشمنوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو واصل جہنم کیا۔ آپ کی شجاعت و بہادری کا یہ منظر دیکھ کر عمر سعد نے اپنی فوج سے کہا:
تم پر وائے ہو ! کیا تم جانتے ہو کہ کس سے جنگ کر رہے ہو؟! یہ شخص قَتَّالِ عَرب (عرب میں بہت زیادہ قتل کرنے والے) کا بیٹا ہے! اس پر ہر طرف سے حملہ کرو۔
اس کے بعد نیزہ برداروں اور تیزاندازوں کی ایک بہت بڑی جماعت نے آپ پر حملہ شروع کردیا۔
دشمن کا ردِّ عمل
شمر ملعون نے جب امام علیہ السلام کی شجاعت اور دلیرانہ جنگ کو دیکھا تو گھوڑسواروں سے کہا کہ تیز انداز پیدل سپاہیوں کے پیچھے آجائیں اور تیر اندازوں کو تیر چلانے کا حکم دیا۔ ان ملعونوں نے اتنے تیر برسائے کہ آپ کا بدن مبارک تیروں میں چھپ گیا۔ آپ ذرا پیچھے ہٹے اور دشمن آپ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ { FR 70 }
(الارشاد، ج۲،ص۱۱۱)
عمر سعد امام حسین علیہ السلام کے قریب آیا۔ اسی دوران جناب زینب علیہا السلام خیمہ گاہ سے باہر آگئیں اور یہ منظر دیکھ کر دلسوز انداز میں پکاریں:
اے کاش آسمان زمین پر گر پڑتا۔
اس کے بعد عمر سعد کو مخاطب کرکے فرمایا:
وَیْحَکَ یَا عُمَر اَ یُقْتَلُ اَبُوعَبْدِ اللّٰہِ وَ اَنْتَ تَنْظُرُ اِلَیْہ؟!
لعنت ہو تجھ پر اے عمر سعد ! کیا ابو عبد اللہ (حسین علیہ السلام) قتل کئے جائیں اور تو کھڑا تماشا دیکھتا رہے گا؟!
راوی کہتاہے : گویا میں ابھی بھی عمر سعد کے آنسو دیکھ رہا ہوں جو اس کے رخساروں اور داڑھی پر بہہ رہے تھے۔
یہ سن کر عمر سعد نے جناب زینبؐ کی جانب سے منھ پھیر لیا۔{ FR 71 }
(تاریخ طبری، ج۵،ص۴۵۲)
جناب زینب علیہا السلام کی فریاد بلند ہوئی:
کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں ہے؟
کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ { FR 72 }
(الارشاد ،ج۲،ص۱۱۲)
سعید بن عبیدہ نامی شخص جو کربلا میں موجود تھا وہ کہتا ہے :
اہل کوفہ کے ہمارے بزرگوں کی ایک جماعت ایک ٹیلے پر کھڑی گریہ کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی:
خداوندا! اپنی نصرت اور کامیابی کو حسین پر نازل فرما!
میں نے ان لوگوں سے کہا:
اے دشمنان خدا! کیوں تم لوگ ان کی مدد نہیں کرتے ؟! { FR 73 }
(انساب الاشراف، ج۳،ص۴۲۴)
حصول آب کی کوشش
امام حسین علیہ السلام پیاسے تھے اور تشنگی مزید بڑھ چکی تھی۔ آپ فرات کے نزدیک گئے تاکہ پانی حاصل کر سکیں۔ حصین بن نمیر نے ایک تیر مارا جو آپ کے دہن مبارک پر لگا۔ امام علیہ السلام نے دہن مبارک سے خون چلو میں لینا شروع کیا اور آسمان کی جانب پھینکنے لگے۔ اس کے بعد خدا کی حمد و ثنا کی اور اپنے ہاتھو ں کو سمیٹ کر فرمایا:
اَللّٰہُمَّ اَحْصِہِمْ عَدَداً وَ اقْتُلْہُمْ بَدَداً وَ لا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنْھُمْ اَحَداً ۔{ FR 74 }
(انساب الاشراف، ج۳،ص۴۰۷)
خدایا! انھیں نابود کردے، ان سب کو ہلاکت کے گھاٹ اتار دے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی روئے زمین پر باقی نہ رکھ۔
شہادت امام حسین علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام نے اتنی جنگ کی کہ آپ کا پورا بدن مبارک زخموں سے چور چور ہوگیا اور جنگ کرتے کرتے تھک کر ایک جگہ کھڑے ہو گئے تاکہ ذرا آرام کرلیں۔ اسی حالت میں ایک پتھر آیا اور آپ کی پیشانی مبارک پر جا لگااور پیشانی سے خون جاری ہوگیا۔ آپ نے پیراہن کے ایک گوشہ کو پکڑاتاکہ اس پیشانی کا خون صاف کر سکیں کہ اسی اثنا میں زہر میں بجھایا ہوا ایک تیر سہ شعبہ آیا اور آپ کے قلب مطہر میں در آیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:
بِسْمِ اللّٰہِ وَ بِاللّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ!
سر مبارک کو آسمان کی جانب بلند کیا اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا:
خدایا! تو جانتا ہے کہ یہ لوگ اس کو قتل کررہے ہیںکہ روئے زمین پر جس کے علاوہ کوئی فرزند رسول نہیں ہے۔
اس کے بعد آپ نے تیر کو پکڑا اور اپنی پشت کی جانب سے کھینچ کر باہر نکالا۔ تیر نکلتے ہی آپ کے سینے سے خون پرنالہ کی طرح جاری ہو گیا۔{ FR 75 }
(لہوف،ص ۱۷۲)
آپ نے دست مبارک کو زخم پر رکھا جب خون سے بھر گیا تو آسمان کی جانب پھینک دیا۔ اس خون کا ایک قطرہ بھی زمین کی طرف واپس نہیں آیا۔ دوبارہ ہاتھ کو زخم پر رکھا جب خون سے بھر گیا تو اسے اپنے سر ، چہرہ اور ریش مبارک پر مل لیا اور فرمایا:
خدا کی قسم ! میں اسی طرح خون آلود رہوں گا یہاں تک کہ اپنے جد محمدؐ سے ملاقات کروں اور عرض کروں گا:اے رسول خداؐ! فلاں فلاں نے مجھے قتل کیا ہے۔
(مقتل خوارزمی، ج۲،ص۳۴)
روایات کے مطابق روز عاشور کا کافی وقت گذر چکا تھااگر اہل کوفہ چاہتے تو آنحضرت کو قتل کر سکتے تھے لیکن وہ اس بارے میں وقت کشی اور ٹال مٹول کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ قتل امام علیہ السلام کے لئے قدم بڑھائیں۔ ایک دوسرے پر ٹال رہے تھے اور ایک گروہ چاہتا تھا کہ دوسرا گروہ اس کام کو ختم کرے۔
اسی اثنا میں شمر اپنے سپاہیوں کے درمیان چلایا: کیوں کھڑے ہوئے ہو؟ اس بارے میں کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ تیروں نے اسے مجبور کردیا ہے ، اس پر حملہ کرو، تمہاری مائیں تمہارے سوگ میں بیٹھیں!
اس فرمان کے بعد ظالموں نے ہر طرف سے حملہ کردیا اور تلواروں نے آپ کو زمین گیر کردیا۔ سب سے پہلا شقی جو امام کے پاس آیا زرعۃ بن شریک تمیمی تھا اس نے آپ کے بائیں بازو پر ضربت لگائی۔
(تاریخ طبری، ج۵، ص۴۵۳)
عمرو بن طلحہ جعفی نے بھی پیچھے سے شانے پر ایک زوردار ضربت لگائی ۔
(الفتوح،ج۵،ص۱۱۸)
سنان بن انس ملعون نے بھی آپ کے گلوئے مبارک پر ایک تیر مارا ، صالح بن وہب نے بھی امام کے پہلو پر ایک نیزہ مارا ۔ ان زخموں اور ضربتوں کی تاب نہ لاکر آپ گھوڑے سے زمین پر آئے ۔ اٹھے اور بیٹھے۔ تیرکو گلے سے باہر نکالا اور دونوں ہتھیلیوں کو ملاکر گلے کے نیچے لگایا جب ہتھیلیاںخون سے بھر جاتیں تو اپنے سرو ریش پر ملتے اور فرماتے :
میں خدا سے اسی حالت میں ملاقات کروں گا۔ اس حالت میں کہ میرا حق غصب کیا گیا ہے۔
(الفتوح،ج۵،ص۱۱۸)
اس وقت دشمن آپ کے اردگرد سے منتشر ہو گئے ۔اسی حالت میں آپ کبھی منھ کے بھل زمین پر گر پڑتے اور کبھی اٹھ جاتے تھے۔ اسی اثنا میں سنان ابن انس ملعون آپ کے قریب آیا اور ایک ایسا نیزہ مارا کہ آپ زمین پر گر پڑے ۔ اس ملعون نے خولی سے کہا: ان کا سر تن سے جدا کرلے۔
خولی نے یہ ظلم ڈھانا چاہا مگر اس کا بدن لرز اٹھا ۔ سنان ملعون نے اس کہا:
خدا تیرے بازؤوں کو کمزور اور تیرے ہاتھوں کو بدن سے جدا کرے۔
وہ یہ کہہ کر گھوڑے سے اترا اور امام کے سر مبارک کو تن سے جدا کیااور خولی کو دے دیا۔
(تاریخ طبری،ج۵،ص۴۵۳)
سنان ابن انس ایک جسور آدمی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک احمق اور سبک مغز بھی تھا۔ وہ ابن سعد کے انعام کی امید میں امام کے سر مبارک کو حاصل کرنے کے درپے تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے ابومخنف کی روایت کے مطابق وہ اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سر امام علیہ السلام اس کے ہاتھ نہ آئے کوفہ کا جو سپاہی بھی امام علیہ السلام کے نزدیک جاتا سنان اس پر حملہ کرتا اور اسے پیچھے ہٹا دیتا تھا۔ یہاں تک کہ آخرکار وہ خود امام علیہ السلام کے نزدیک آیا۔ گلوئے مبارک کو کاٹا اور سر مبارک کو تن سے جدا کیا اور خولی کو دے دیا۔
(تاریخ طبری،ج۵،ص۴۵۳)
شیخ صدوق نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
(جب امام حسین علیہ السلام کے سارے اصحاب و انصار درجۂ شہادت پر فائز ہوگئے تو) امام علیہ السلام نے دائیں بائیں دیکھا کوئی نظر نہ آیا۔ اپنے سر کو آسمان کی جانب بلند کیا اور بارگاہ پروردگار میں عرض کیا:
خدایا! تو دیکھ رہا ہے کہ تیرے رسول کے فرزند کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جارہاہے!
اسی دوران بنوکلاب کے افراد امام علیہ السلام اور پانی کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اور ایک شقی ایک تیر پھینکتا ہے جو آپ کے گلوئے مبارک پر لگتا ہے اور آپ گھوڑے سے زمین پر گر پڑتے ہیں۔ تیر کو نکال کر دور پھینکتے ہیں ۔ خون کو چلو میں لیتے ہیں جب چلو بھر جاتا ہے تو اس سے سر اور ریش مبارک کو تر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
میں اسی حالت میں مظلوم اور خون میں غلطاں پروردگار سے ملاقات کروں گا۔
اس کے بعد آپ نے بائیں رخسار کو مٹی پر رکھا دشمنان خدا سنان بن انس، شمر بن ذی الجوشن اور بہت سے دوسرے افراد شامی آگے بڑھے اور امام حسین علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ ان کا کام تمام کردو۔
اسی وقت سنان ابن انس کہ اس پر خدا کی لعنت ہو، گھوڑے سے اترا، امام حسین علیہ السلام کی ریش مبارک کو پکڑا اور آپ کے گلوئے مبارک پر تلوار مارتا جاتا اور یہ کہتا جاتا :
خدا کی قسم میں تیرے سر کو تن سے جدا کروں گا جبکہ میں جانتا ہو کہ تو رسول خدا ؐ کا فرزند اور ماں باپ کی طرف سے انسانوں میں سب سے بافضیلت اور برتر ہے۔
(امالی شیخ صدوقؒ،ص۲۲۶،مجلس۳۰)
خوارزمی کی روایت کے مطابق آخر کار امام حسین علیہ السلام کے سر مطہر کو شمر ملعون نے تن سے جدا کیا۔
خوارزمی کا بیان ہے کہ شمر اور سنان حسین علیہ السلام کے قریب آئے اس حالت میں کہ امام علیہ السلام کی چند سانسیں بچی تھیں اور پیاس کی شدت سے اپنی سوکھی زبان کو دہن مبارک میں پھرا رہے تھے۔ شمر ملعون نے کہا:
اے فرزند ابو تراب! کیا تم ہی نہ تھے کہ گمان کرتے تھے کہ تمہارے باپ حوض کوثر پر جو ان کو دوست رکھے گا اسے سیراب کریں گے؟ ! پس ذرا صبر کرو تاکہ ان کے ہاتھ سے پانی پیو!
اسی وقت سنان ملعون سے کہا:
ان کے سر کو پشت سے جدا کر۔
سنان نے کہا:
خدا کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا کہ اس کے جد میرے دشمن ہوں گے۔
شمر اس پر غصہ ہو اور خود سینہ حسین علیہ السلام پر بیٹھ گیا۔ آپ کی ریش مبارک کو پکڑا اور آپ کو قتل کرنا چاہتا تھا کہ حسین بن علی علیہ السلام نے فرمایا:
کیا تو مجھے قتل کرے گا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ میں کون ہوں؟
شمر ملعون نے اعتراف کیا کہ وہ آپ کے ماں باپ اور جد رسول خداؐ کو پہچانتا ہے ۔
ایک دوسری روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
تو وہی داغدار کوڑھی کتا ہے جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا۔
اس ملعون نے کہا:
اے پسر فاطمہ! مجھے کتے سے تشبیہ دیاہے؟!
یہ کہہ کر اس نے آپ کے گلوئے مبارک پر تلوار مارنا شروع کردیا اور یہ کہتا جاتا :
اَقْتُلُکَ الْیَوْمَ وَ نَفْسِیْ تَعْلَم
عِلْماً یَقِینًا لَیْسَ فِیْہِ مَزْعَم
وَ لا مَجَالَ لا وَ لا تَکْتُم
اَنَّ اَبَاکَ خَیْرُ مَنْ تَکَلَّم
(مقتل خوارزمی،ج۲،ص۳۶)
آج میں تمہیں قتل کروں گا اور بالکل یقین کے ساتھ جانتا ہوں ایسا یقین کہ شک و گمان کا کوئی گزر نہیں۔
پردہ پوشی کے لئے کوئی مقام و مجال نہیں کہ تمہارے باپ سب سے بہتر و برتر انسان تھے۔
اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبدِ اللّہِ وَ عَلَی الْاَرْواحِ الَّتِی حَلَّتْ بِفِنَائِکَ۔
lll
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔