راقم الحروف: مولانا حسین مہدی کاظمی،نزیل نجف اشرف
حوزہ نیوز ایجنسی | صفحہ تاریخ پر ایسا خونچکاں منظر کسی نگاہ نے نہیں دیکھا جیسا سر زمین کربلا پر ٦١ ھ میں رونما ہوا جہاں حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی باطل نے حق کا سر کاٹ غم لیا مگر جھکا نہ سکا ، حق نے سر کٹوا لیا مگر حق کو جھکنے نہیں دیا۔ایک پورا سلسلہ ہے جو وادی بے آب و گیاہ میں ظھور پذیر ہوا ۔
واقعہ کربلا اور تحریک عاشورا دو مرحلوں پر مشتمل ہے جس کا پہلا مرحلہ، جھاد و جانبازی ، جاں نثاری و فداکاری شجاعت و شھادت ، اور دفاع اسلام و شریعت کے لئے قربانی دینے کا مرحلہ تھا۔
دوسرا مرحلہ اس قیام و انقلاب کو استحکام و دوام بخشنے ، تحریک کی پیغام رسانی ، مقصد کربلا کی ترجمانی اھداف حسینی کی نشر و اشاعت ، امت مسلمہ کے شعور کی بیداری ، علمی و تہذیبی کوششیں ، اور اس واقعہ کی یاد کو ہمیشہ کے لئے زندہ و پائندہ رکھنے اور اس کے اھداف کی تشریح کرنے کا مرحلہ تھا۔ اس تحریک کے پہلے مرحلہ کی ذمہ داری امام حسین علیہ السلام اور ان کے جاں نثار اصحاب کی تھی اور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ یزید کی ظالمانہ حکومت اور اس کے ظلم و بربریت کے سامنے ثابت قدم رہے اور ڈٹ کر مقابلہ کرکے اس راہ میں شهيد ہو گئے ۔
اور اس تحریک کے دوسرے مرحلہ کی ذمہ داری حسینی انقلاب کے پاسبان سید الساجدین امام زین العابدین ع کی تھی۔
کون سید سجاد جو عبادتوں کی زینت ، بندگی اور بندہ نوازی کی آبرو ، دعا و مناجات کی جان ، خضوع و خشوع اور خاکساری و فروتنی کی روح امام ساجد جن کی خلقت ہی توکل اور معرفت کے ضمیر سے ہوئی۔
اگر امام سجاد کے صبر و استقلال اور شکر و سجدہ الھی کا مظاہرہ کیا جائے تو آپ ہی وہ ہیں جو در حقیقت ساجد ہیں-
روز عاشور کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار پر نیزہ و شمشیر , سنان و تیر کی بارش میں امام حسین ع کے اصحاب و انصار اور بنی ھاشم جام شھادت نوش فرما رہے تھے اور سید الشھداء ع لاشوں پہ لاشے اٹھا رہے تھے اس وقت وہ کون تھا جس نے سارا منظر اپنی نگاہوں سے دیکھا برابر کے بھائی کے کلیجہ پہ برچھی کا پھل دیکھا ، قاسم ع کی لاش کے ٹکرے دیکھے ، دو ننھے پھول عون و محمد کی شھادت دیکھی ، چچا کے کٹے ہوئے بازو دیکھے ، یہاں تک کہ حسین مظلوم کا سر نوک نیزہ پہ بلند دیکھا اور ساری شھادتوں کے بعد بھی لب پہ شکوہ نہیں لایا بلکہ شھادتوں پہ شکر خدا کرتا ہوا مظر آیا -
ہاں یہ وہی ساجد تھا
عصر عاشور کا ہنگام تھا جب سب قربانی پیش کرکے جام شھادت نوش فرما چکے اس کے بعد سید الشھداء امام حسین ع میدان کارزار میں آئے اور جنگ کرنا شروع کی اور لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہوئے بالآخر شمر ملعون نے کند خنجر سے امام حسین ع کے سر و تن میں جدائی کرکے شہید کر دیا فضا میں آواز گونجی قد قتل الحسین بکربلاء فرات کا پانی نیزوں اچھلنے لگا ، سیاہ آندھیاں چلنے لگیں ، گھٹا توپ اندھیرا چھانے لگا ، سید الشھداء ع کا سر نوک نیزہ پہ بلند ہوا تاریخ سے اگر پوچھا جائے آخر وہ کون سی شخصیت تھی جس نے یہ منظر دیکھا اور تڑپ کے فرمایا -السلام عليك يا ابا عبد الله- کہنے کے بعد سر کو سجدۂ خالق میں رکھ دیا
جو ان ہولناک حالات میں بھی سجدۂ شکر کر رہا تھا آخر وہ کون تھا۔
ہاں یہ وہی ساجد تھا
ایک وقت وہ بھی آیا جب کربلا کے بن میں ایک شام ایسی آئی جسے شام غریباں کہا گیا اسیروں , یتیموں اور مظلوموں کی شام جس میں ہر طرف ہولناک سناٹا چاروں طرف لاشے بکھرے ہوئے تھے خیمے جلا دیئے گئے تھے بیبیوں کے سروں سے چادریں چھین لی گئی تھیں سکینہ کے کان زخمی کر دیئے گئے تھے مال و اسباب لوٹا جا چکا تھا بیت نبوت اجاڑا جا چکا تھا شمع امامت گل کی جا چکی تھی پنچتن کی آخری کڑی لہو لہان کی جا چکی تھی سب کچھ بظاھر لٹ چکا تھا مگر سب کچھ لٹنے کے بعد بھی وہ کون تھا جو جلے ہوئے خیموں کی قناتوں پہ یتیم بچوں اور بیواؤں کو ساتھ لئے ہوئے بیٹھا تھا چادروں سے محروم ماؤں،بہنوں کی آہ و فریاد کے بیچ باپ کے بریدہ سر کے سامنے بار بار سجدہ میں گرکے شکر رب کئے جا رہا تھا۔
ہاں یہ وہی ساجد تھا
جلی ہوئی خیموں کی قناتوں پر سجدہ کیا ریگزار گرم پر سجدہ ریز ہوئے چلچلاتی ہوئی دھوپ عرب کے جھلستے ہوئے صحراؤں میں لوہے کی گرم شدہ ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے بعد بھی جس کے ثبات قدم میں لغزش نہ آئی ہو جبکہ
غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے خون کے رشتہ لہو لہان ہو چکے تھے اجساد طاہرہ بکھرے ہوئے تھے نوک نیزہ پر کٹا ہوا سر دیکھا رسن بستہ بیبیاں دیکھیں مگر الله رے معرفت رب ذو الجلال لبوں پہ شکر کے کلمے تھے شکوہ کا گذر بھی نہیں تھا آخر یہ کون تھا -
ہاں یہ وہی ساجد تھا
صبر و سکون کی منزلمیں استقامت ہےارتعاش نہیں ، لب و لہجہ سے اس کی کبریائی کا اعلان ہے اپنے مقاصد کی ترجمانی میں طوق کو ہار بنا کر پہن لیا کیوں کہ ارباب اقتدار جسے شکست سمجھ کر دھوکہ کھا رہے تھے ا وہ خود انھیں شکست دے رہا تھا ۔
پاؤں کے آبلوں نے آنسو بہائے ہیں مگر امامت کے عزم و حوصلہ میں کمی نہیں ہے کمسن بہن کی مظلومیت شہزادیوں کی بے بسی طمانچوں ، دروں اور تازیانوں کی اذیتیں مصائب کا پورا لشکر جس ذات پر حملہ آور ہو پھر بھی وہ لب پہ شکر رب رکھتا ہو تو اسے بندگی کی معراج کیونکر عطانہ ہو جو
کبھی اگر خیمہ کی قنات کے سایہ میں جاکر تکبیرة الاحرام کہہ کے نماز کا آغاز کیا تو تکفیری مزاج مسلمان نما مسلمان آگے بڑھا اور نہ تکبیر کا احترام کیا نہ ہی نمازی کا خیال بلکہ سایہ سے نمازی کو ہٹا کے دھوپ کی شدت اور تمازت آفتاب میں ڈھکیل دیا جو اس سائے میں تکبیر کہہ رہا تھا اور سجدہ کی آبرو بچا رہا تھا وہ کون تھا-
ہاں یہ وہی ساجد تھا
گیارہ محرم الحرام اہل حرم کو اسیر کرکے گلوں کو رسن میں باندھ کر بے کجاوہ اونٹوں پہ سوار کیا گیا
قافلہ کو مقتل سے گذار کر کوفہ و شام کے بازار میں لایا گیا جھاں نبی ص کی نواسیاں علی ع کی بیٹیاں بے مقنع و چادر تھیں تماشائیوں کا ہجوم تھا چھتوں سے آگ و پتھر برسائے جا رہے تھے جب خاندان رسول کا لٹا ہوا قافلہ دربار یزید میں پہونچا تو جس نے اپنے خطبوں کی ذوالفقار سے یزیدی حکومت کے بام و در لرزا دئیے اور دربار یزید میں انقلاب برپا کر دیا وہ کون تھا-
ہاں یہ وہی ساجد تھا
واقعہ کربلا کے بعد وہ کون سی شخصیت ہے جس نےشھدائے کربلا کی یاد تازہ رکھنے کے کوشش کی دنوں کو روزے رکھے اور راتوں کو عبادت خداوندی میں گذارا افطار کے وقت جب خادم کھانا اور پانی پیش کرتا تو جو اپنے بابا کی بھوک و پیاس اور غربت کو یاد کرکے گریہ و زاری کرتا ؛ اور یہ کہتا : میں کیسے کھانا کھا لوں جبکہ میرا بابا بھوکا و پیاسا کربلا میں شھید کردیا گیا۔
آخر وہ کون تھا؟
ہاں یہ وہی ساجد تھا
آج ہم اہل مودت شھدائے کربلا کی شھادت اور سید سجاد ع کے صبر و تحمل اور آپ کی مظلومی کو یاد کرکے گریہ و بکا کرتے ہیں اور مجلسوں ، جلوسوں ، نوحہ و ماتم و سینہ زنی کے ذریعہ مصروف عزاء ہوکے شھزادی کونین کی خدمت میں انکے لال کا پرسہ پیش کرتے ہیں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔