حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حضرت امام محمد تقی، جواد الائمہ علیہ السلام کی مبارک ولادت نہ صرف شیعوں کی پریشانیوں کے خاتمے اور واقفیہ فرقے سمیت دیگر دشمنوں کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کا باعث بنی بلکہ تاریخ تشیع میں ایک نئے باب کا آغاز بھی تھی۔
شیعہ یہ تصور کر رہے تھے کہ چونکہ امام رضا علیہ السلام کی کوئی اولاد نہیں، جس کی وجہ سے امامت کا مستقبل غیر یقینی معلوم ہو رہا تھا۔ تاہم امام جواد علیہ السلام کی ولادت کے اعلان کے ساتھ ہی یہ شبہات ختم ہو گئے۔ امام رضا علیہ السلام نے اپنے فرزند ابوجعفر محمد بن علی الجواد کی ولادت کے بارے میں فرمایا: «هذا لمولود الذی لم یولد مولود اعظم علی شیعتنا برکة منه» یعنی "یہ وہ مولود ہے کہ جس سے بڑھ کر ہماری شیعت کے لیے کوئی بابرکت مولود نہیں۔"
امام جواد علیہ السلام کی زندگی کا بچپن ہی سے خاص اہمیت کا حامل تھا۔ وہ پہلے ایسے امام تھے جو کم عمری میں منصب امامت پر فائز ہوئے، جو اُس وقت کے فکری اور سیاسی حالات کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ بچپن کے دوران ہی امام جواد علیہ السلام نے علمی میدان میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔ آپ کے عباسی دربار کے بڑے علماء کے ساتھ متعدد علمی مناظرے آپ کے گہرے علم اور حکمت کی گواہی دیتے ہیں۔
سیاسی دباؤ اور سخت نگرانی کے باوجود امام جواد علیہ السلام نے بہت سے شاگردوں کی تربیت کی۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں مدرسہ امامت اور علمِ اہل بیت علیہم السلام کو پہچان ملی۔
اپنی مختصر عمر کے دوران، امام تقی علیہ السلام نے تقریباً 110 شاگردوں کو تعلیم دی اور اسی طرح ان سے 250 سے زائد احادیث روایت کی گئی ہیں۔
آپ کا تبصرہ