ہفتہ 5 جولائی 2025 - 20:31
کربلا، شعورِ شہادت اور فلسفہ قربانی

حوزہ/ کربلا کی سرزمین پر بہنے والا خون صرف آنکھوں سے بہنے والے جذباتی اشکوں کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ یہ انسان کے شعور، ضمیر اور وجودی سوالات کو جھنجھوڑتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے صرف اپنی جان نہیں دی بلکہ اپنے اہلِ بیت، اصحاب، حتیٰ کہ معصوم بچوں تک کو راہِ حق میں قربان کیا۔ یہ محض جنگ نہیں بلکہ قربانی کے اعلیٰ ترین شعور، اخلاقی عظمت، اور وجودی آزادی کا مظہر ہے۔

تحریر: مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی| کربلا کی سرزمین پر بہنے والا خون صرف آنکھوں سے بہنے والے جذباتی اشکوں کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ یہ انسان کے شعور، ضمیر اور وجودی سوالات کو جھنجھوڑتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے صرف اپنی جان نہیں دی بلکہ اپنے اہلِ بیت، اصحاب، حتیٰ کہ معصوم بچوں تک کو راہِ حق میں قربان کیا۔ یہ محض جنگ نہیں بلکہ قربانی کے اعلیٰ ترین شعور، اخلاقی عظمت، اور وجودی آزادی کا مظہر ہے۔ کربلا ہمیں بتاتی ہے کہ قربانی صرف جسم کی نہیں بلکہ انا، مفاد، تعلقات، اور آرام کی بھی ہوتی ہے۔ یہ شعورِ قربانی، اختیار کا ایسا آفاقی مظہر ہے جہاں ہر شہید، خواہ وہ علی اکبرؑ ہوں، قاسمؑ، حبیب بن مظاہرؓ یا حرؓ، سب نے آزاد ارادے سے موت کو گلے لگایا۔ ان کی شہادتیں فلسفۂ اختیار کی سب سے اعلیٰ مثال ہیں۔ یہ وہ عظیم انسان تھے جو دنیاوی اعتبار سے مظلوم تھے، لیکن روحانی و فکری سطح پر سب سے زیادہ آزاد۔

امام حسینؑ کے اصحاب کا کربلا میں اجتماع محض افراد کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک فکری امت کا آئینہ دار ہے، جو رنگ، نسل، قبیلہ یا مقام سے بالاتر ہو کر صرف حق کی بنیاد پر جمع ہوئی۔ جیسے حبیب بن مظاہر، زہیر بن قین، مسلم بن عوسجہ، ہر ایک نے ذاتی وابستگیوں سے نکل کر ایک بلند تر نصب العین کو اپنایا۔ یہ پیغام آج کے دور میں تعصبات، قوم پرستی اور مفاد پرستی کے خلاف سب سے مضبوط فکری و اخلاقی چیلنج ہے۔ اسی طرح بنی ہاشم کی قربانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ رشتہ داری اور خاندان کا احترام اپنی جگہ، مگر حق کا مقام سب سے بالا تر ہے۔ جناب علی اکبرؑ، جناب قاسمؑ اور حضرت عباسؑ جیسے جگر گوشے اسی اصول پر قربان ہوئے کہ جب حق کی بات آئے تو رشتہ نہیں، نظریہ مقدم ہوتا ہے۔

کربلا کی سب سے پیچیدہ اور گہری مثال حضرت علی اصغرؑ کی شہادت ہے، جو ایک ایسا معصوم بچہ تھا جو زبان، شعور اور اختیار سے خالی تھا، لیکن پھر بھی باطل کے دربار میں حق کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ شہادت بتاتی ہے کہ ظلم اتنا بے حس ہو جاتا ہے کہ معصومیت کو بھی نہیں بخشتا، اور حق اتنا باوقار ہو جاتا ہے کہ خاموشی سے بھی صداقت کی گواہی دیتا ہے۔ کربلا کا پیغام ہے کہ ظالم بچوں کو بھی قتل کر سکتا ہے، اس لیے خاموشی کافی نہیں، گواہی دینا فرض ہے چاہے وہ خاموش ہو یا خونی۔

شہادت، فنا نہیں بلکہ بقا کا راستہ ہے۔ کربلا نے موت کی تعریف بدل دی۔ اب موت، ظلم کے سامنے خاموشی کا نام نہیں بلکہ حق کے لیے مرنے کا نام ابدی حیات بن گیا ہے۔ حسینی شہداء نے بتایا کہ زندہ وہی ہے جو حق کے لیے خود کو مٹا دیتا ہے۔ یہی فلسفہ اقبال کے افکار، کیرکیگارڈ کے وجودی فلسفے، اور ہیگل کی روحانی جدوجہد سے ہم آہنگ ہے، مگر امام حسین علیہ السلام نے اسے صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل اور خون سے ثابت کیا۔ کربلا انسانی عظمت کی معراج ہے، ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں ہر شہادت، زندگی کا نیا باب کھولتی ہے۔ یہ رونا صرف آنکھوں کا نہیں بلکہ دل و دماغ کی بیداری کا نام ہے۔ کربلا ہمیں جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے کہ حق کے لیے جینا آسان نہیں، مگر مرنا لازم ہے۔

آخر میں میری دعا ہے۔ اے اللہ! ہمیں کربلا کے فلسفے کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے، اور حق کے راستے پر استقامت کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں ایسا شعور عطا فرما جو ظلم کو پہچان سکے، اور ایسی جرأت دے کہ ہم ہر دور کے یزید کے سامنے حسینی کردار ادا کر سکیں۔ ہمارے دلوں میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کی قربانیوں کا سچا عشق پیدا فرما اور ہمیں ان کے مشن کا سچا پیروکار بنا۔ آمین والحمدللہ رب العالمین۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • ولی حسن IN 21:28 - 2025/07/05
    جزاک اللہِ اچھے طریقے سے شعور شہادت اور فلسفہ شہادت بیان فرمایا ہے