حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی ہندوستان کے اُن علماء میں سے ہیں جو دین کے متعلق سنجیدہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور سامعین و قارئین کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔آپ ایک اچھے مقرر، صاحب قلم اور فہم و بصیرت رکھنے والے عالم دین ہیں۔ مولانا موصوف اپنے مقالات اور بیانات کے ذریعے نوجوانوں میں دینی شعور، درست عقائد اور فکری بیداری پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ امام سجادؑ کی شہادت کی مناسبت سے آپ سے کی گئی گفتگو قارئین کی فکری و روحانی تشنگی کے پیش نظر حاضر خدمت ہے۔
حوزہ: مولانا! امام سجادؑ کو عام طور سے "بیمارِ کربلا" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ کیا یہ لقب ان کی مکمل شخصیت کی عکاسی کرتا ہے؟
مولانا: یہ لقب صرف ایک تاریخی لمحے سے وابستہ ہے، نہ کہ امامؑ کی مکمل شخصیت کا آئینہ۔ امام زین العابدینؑ کی اصل پہچان "زین العابدین" اور "سید الساجدین" جیسے اہم القاب سے ہے، یعنی وہ ہستی جو عبادت کرنے والوں کی زینت اور سجدہ گزاروں کی سردار ہے۔
اگر ہم صرف "بیمار" کے تصور میں الجھ جاتے ہیں تو ہم ان کے سجدوں، دعاؤں، خطبوں اور فکری قیادت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ امامؑ کی زندگی عبادت، صبر، اور شعور کا حسین امتزاج ہے، جسے کسی ایک عنوان میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔
حوزہ: کربلا میں امامؑ کی بیماری جسمانی کمزوری تھی یا ایک الٰہی مصلحت؟
مولانا: یہ بیماری جسمانی کمزوری کی علامت نہیں بلکہ ایک حکمت الٰہی تھی۔ اگر امام سجادؑ صحت مند ہوتے تو ان پر بھی جہاد واجب ہوتا اور وہ بھی شہداء کربلا میں شامل ہو جاتے۔
ان کی شہادت سے سلسلہ امامت منقطع نہ سہی، مگر اس میں رخنہ ضرور پڑتا۔ امام محمد باقرؑ اس وقت بچے تھے، اور امام زین العابدینؑ کی شہادت کی صورت میں امامت کا وہ تسلسل جو رسول اکرمؐ نے "اثنا عشری" کے طور پر بیان فرمایا، اس کی ترتیب میں خلل واقع ہوجاتا۔
اس تناظر میں امامؑ کی بیماری دراصل ایک محفوظ راستہ تھی جس کے ذریعے امامت کا مقدس تسلسل جاری رہ سکا۔
امامؑ کی بیماری، کمزوری نہیں بلکہ امامت کی حفاظت کا الٰہی انتظام تھا
حوزہ: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہماری دینی مجالس میں امام سجادؑ کی علمی و روحانی خدمات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے؟
مولانا: بیشک! امامؑ کی شخصیت کو صرف مرثیہ، آنسو اور بیماری سے جوڑ دینا منبر رسول سے خیانت علمی ہے۔ امام سجادؑ نے "صحیفۂ سجادیہ" جیسی روحانی کتاب دی، جس میں خدا شناسی، خود شناسی، معاشرتی حقوق، اور اجتماعی بیداری کے اصول موجود ہیں۔
صحیفۂ سجادیہ محض دعاؤں کا مجموعہ نہیں، بلکہ فکری بیداری، اجتماعی اصلاح اور معرفتِ الٰہی کا دستور ہے۔
ان کی عبادات، دعائیں، راتوں کے اندھیروں میں سجدہ ریزی اور درباروں میں شعلہ بیانی—یہ سب ان کی حقیقی میراث ہیں، جو آج کی دنیا میں رہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ پہلو مجالس اور نوحوں میں گم ہو چکے ہیں۔
کوفہ و شام میں امام سجادؑ خاموش قیدی نہیں، فکری فاتح تھے
حوزہ: کوفہ و شام کے درباروں میں امام سجادؑ کی موجودگی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا وہ فقط ایک مظلوم قیدی تھے؟
مولانا: کوفہ و شام کے درباروں میں امام سجادؑ صرف ایک مظلوم قیدی نہیں بلکہ ایک باشعور رہنما، الٰہی ترجمان اور حسینی تحریک کے امین تھے۔
ان کے خطبات، ان کا لہجہ، ان کا تحمل، سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ قیدی نہیں بلکہ ایک فاتح تھے۔
یزید کے دربار میں کھڑے ہو کر اپنے نسب اور امام حسینؑ کے مقام کو جس جرات سے بیان کیا، وہ صرف ایک علیم، باشعور اور روحانی عظمت رکھنے والا امام ہی کر سکتا ہے۔
حوزہ: دور حاضر کے نوجوان امام سجادؑ کی زندگی سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
مولانا: آج کا نوجوان اگر امام سجادؑ کو صرف بیماری کے پیکر کے طور پر دیکھے گا تو صرف ماتم کرے گا، لیکن اگر وہ امامؑ کو "زین العابدین" کے طور پر سمجھے گا، تو عمل کرے گا، سجدہ کرے گا، دعا کرے گا، اور معاشرہ بدلے گا۔
نوجوانوں کو امامؑ کی بیماری سے زیادہ ان کی بندگی سے سبق لینا چاہیئے
امام سجادؑ ہمیں سکھاتے ہیں کہ قید میں بھی سر اونچا رکھا جا سکتا ہے، خاموشی کے ساتھ قیادت کی جا سکتی ہے، اور آنسوؤں کو احتجاج میں بدلا جا سکتا ہے۔
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کی دعاؤں اور سجدوں کو صرف تبرک نہ سمجھیں بلکہ مشعلِ راہ بنائیں۔









آپ کا تبصرہ