حوزہ نیوز ایجنسی ہرمزگان سے نمائندہ کے مطابق، حوزہ علمیہ خواہران بندر عباس کی استاد محترمہ زینب پیوسته نے "به وقت نور به رنگ ظهور" کے عنوان سے صحیفہ سجادیہ کی معارف پر منعقدہ دوسری نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: خداوند متعال چاہتا ہے کہ انسان یہ سمجھ لے کہ وہ روحانی اور مادی طور پر اس کا محتاج ہے اور جب انسان اپنی محتاجی کو تسلیم کر لیتا ہے تو وہ اپنے پروردگار کے سامنے عاجز ہو جاتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: امام سجاد علیہ السلام معاشرتی مشکلات کے باوجود دین کے معارف کو دعا کی شکل میں لوگوں تک پہنچاتے تھے کیونکہ دعا انسان کو اپنی محتاجی اور خدا کی بے پناہ غنا کا شعور دیتی ہے اور وہ اس سے مدد طلب کرتا ہے۔
مدرسہ علمیہ تخصصی الزہرا سلام اللہ علیہا بندر عباس کی اس استاد نے کہا: صحیفہ سجادیہ سے تعلق اور عمومی طور پر دعا انسان میں دو اہم حقیقتوں "انسان کی محتاجی اور خدا کا بے نیاز ہونا" کو راسخ کرتی ہے اور یہی چیز انسان کو خداوند کے حکم کے سامنے تسلیم کر دیتی ہے، جس سے معاشرتی اصلاحات ممکن ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا: دعا، خداوند متعال کے قرب کا حصول اور اس کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کرنا ہے۔ جیسے ایک بچہ اپنے ضروریات کے لیے والدین سے مدد لیتا ہے، اسی طرح انسان کو بھی دعا کے ذریعے اپنی ضرورتیں خداوند کے سامنے پیش کرنی چاہئیں۔
محترمہ زینب پیوسته نے مزید کہا: خداوند دعا کو انسان کی قدر و منزلت کا نشان قرار دیتا ہے۔ اگر انسان دعا نہ کرے تو گویا وہ خداوند سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور خداوند بھی اس کی قدر نہیں کرتا۔
انہوں نے مزید کہا: دعا کو ترک کرنے سے تکبر اور خود پسندی پیدا ہوتی ہے اور سورہ فرقان کی آیت "مَا یَعْبَأُ بِکُمْ رَبِّی لَوْلَا دُعَاؤُکُمْ" اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اگر دعا نہ کی جائے تو خداوند انسان کو اہمیت نہیں دیتا۔









آپ کا تبصرہ