۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 371923
2 ستمبر 2021 - 23:45
سکندر علی بہشتی

حوزہ/علمی اور مذہبی حلقوں،سوشل میڈیااور پڑھے لکھے جوانوں کے درمیان بعض موضوعات پر شد ومد کے ساتھ گفتگو جاری ہے۔بعض علماء کی جانب سے رائج اور روایتی فہمِ دین سے ہٹ کر مختلف مسائل کے بارے میں نئے انداز میں تجزیہ وتحلیل خصوصاً دین اور مکتب کے بارے میں اصلاحی اور انقلابی نظریات اور قیام امام حسین(ع) اور عزاداری سے متعلق بعض مسائل پر آپس میں بحث اور مباحثہ تیزی سے جاری ہے۔

تحریر: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسی!علمی اور مذہبی حلقوں،سوشل میڈیا اور پڑھے لکھے جوانوں کے درمیان بعض موضوعات پر شد ومد کے ساتھ گفتگو جاری ہے۔بعض علماء کی جانب سے رائج اور روایتی فہمِ دین سے ہٹ کر مختلف مسائل کے بارے میں نئے انداز میں تجزیہ وتحلیل خصوصاً دین اور مکتب کے بارے میں اصلاحی اور انقلابی نظریات اور  قیام امام حسین(ع) اور عزاداری سے متعلق بعض مسائل پر آپس میں بحث اور مباحثہ تیزی سے جاری ہے اور ان گفتگوؤں کے پیش نظر دو قسم کا رد عمل  منظر عام پر آچکا ہے اور یہ ردعمل فطری رد عمل ہے۔اختلافی ابحاث اگر حدود ،احترام اور ادب کے دائرے میں علمی،منطقی اور حقیقت کی تلاش کی خاطر ہو تو مفید ہیں،کیونکہ ان ابحاث سے حقیقت تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔

یہ کشمکش مغرب کی سائنسی ترقی،عقلی اور تجربی علوم کا نتیجہ ہے۔جس نے دنیا کومتاثر کیا ہے۔دنیائے اسلام خصوصاً عرب ممالک اور ایران بہت عرصہ پہلے سے ہی اس سے دوچار ہیں۔پاکستان کی عمومی فضاء پر اس کے اثرات کم تھے۔مگر میڈیا کی آزادی خصوصاً سوشل میڈیا کی سہولت نے یہاں بھی ہرنظریہ اور فکر پر بحث اور گفتگو کی عام حلقوں کو رسائی حاصل ہوئی ہے۔ 

جب کوئی صاحبِ نظر یا عالم نئی بات یا نظریہ پیش کرتاہےتو ایک طرف اس کے احباب،شاگرد اور ان سے وابستہ افراد ہیں جو اس کی شخٰصیت، تقوی،پرہیزگاری،دلسوزی یا اس کی طرف سے پیش کردہ دلائل کی بنا پر ان کا دفاع کرتے ہیں۔ 
اس کے مقابلے میں ایک گروہ ان کے نظریات کو  مکتب کے نظریے سے متصادم،دیگر فرقوں کے لئے  تنقید کا بہانہ فراہم کرنے اور حقائق سے انکار کے نام سے مورد الزام ٹھہرا کر مختلف قسم کے الزامات کے ذریعے حقیقت بیانی کے بجائے نفرت اور دشمنی کی فضاء ایجاد کرتا ہے۔

کسی بھی مسئلے،نظریے اور تاریخی موضوع  میں کونسا مؤقف درست ہے؟

ایسے مواقع میں اہل علم خصوصاً علماء کی ذمہ داری کیا ہے؟
ہمیں اسلامی تعلیمات اور سیرت آئمہ کی روشنی میں اپنے وظائف کا تعین کرکے درست مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے،چونکہ یہ مسائل ذاتی،قومی یا دنیوی نہیں ہیں بلکہ دین اور مکتب سے مربوط ہیں۔اس صورتحال میں دونوں گروہوں کو جذبات اور احساسات سے ہٹ کر ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا۔حمایت یا مخالفت،عقلی اور نقلی دلیل کی روشنی میں  اور محترمانہ انداز میں کرنا قرآن اور اہل بیت(ع) کی سیرت ہے۔

قرآن؛گفتگو کی کتاب ہے جہاں انبیاء کے اپنے زمانے کے حکمرانوں،کفار،مشرکین اور معاندین کے ساتھ جو مکالمے اور گفتگو  ہوئی ان کو ہوبہو نقل کیا گیا ہے۔پیغمبر اور ائمۂ اہل بیت علیہم السلام کے سامنے مختلف ادیان اور مذاہب کے اہل  علم آتے تھے اور توحید کے موضوع سے لیکر دیگر تمام اسلامی نظریات اور موضوعات پر اعتراضات کرتے اور اہل بیت(ع) بغیر کسی ناراضگی کے ان کو قرآن ،سنت اور عقلی دلائل سے مطمئن کرتے تھے۔

دور حاضر میڈیا اور جدید سائنسی،عقلی اور ٹیکنالوجی کا دور ہے جہاں مغرب میں عیسائیت،یہودیت ودیگر الٰہی ادیان کے بعد اسلام کے اوپر بھی سولات اٹھ رہے ہیں،اظہار خیال اور معلومات ہر ایک کے دسترس میں ہیں،افکار پر پابندی بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ سابقہ ادوار میں ذرائع محدود تھے اب جب کہ دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ہر قسم کے نظریات، آراء اور شبہات  پرنٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔کتاب،اخبارات، رسائل، مقالات ،تقاریر اور لیکچرز تک رسائی آسان ہوگئی ہے،جس کی وجہ سے جوانوں اور اہل علم کے ذہنوں میں مختلف شبہات اور اعتراضات اٹھ رہے ہیں،مختلف علاقائی رسومات سمیت بعض سطحی مسائل بھی سوالات اور اعتراض  کی زد میں ہیں۔ ایسے میں طاقت کے زور، برابھلا کہہ کر اور مختلف تہمتوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعے ان اعتراضات اور شبہات کا جواب دینا کسی صورت منطقی طریقۂ کار نہیں ہے،البتہ وقتی طور پر ممکن ہے یہ آواز خاموش ہوجائے لیکن پائیدار راہ  حل نہیں ہے۔

دین اسلام کے اصول اور فروع سے نا واقف افراد کا انتہائی گہرے موضوعات پر سطحی اظہار خیال اور غلط انداز سے دین اور مکتب کا دفاع پڑھے  لکھے طبقے کو مزید مذہب سے دور کرنے کے ساتھ مخالفین کو اعتراض کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے،جو کہ دین اور مکتبِ کے حق میں مفید نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔
اس سلسلے میں کچھ اہم اور کلیدی نکات کی جانب توجہ ضروری ہے:

1۔ایسے سوالات اٹھانے اور گفتگو کرنے والی علمی شخصیات پر فوراً فتوی جاری کرنا،تہمت،الزام تراشی اور شخصیت کشی کسی صورت درست نہیں،اگرچہ ان کا نکتۂ نظر غلط ہی کیوں نہ ہو۔
2۔اس نظریے کی مخالفت میں غلط انداز میں دفاع کرنا،کمزور اور غیر مربوط دلائل کے ذریعے جواب دینا بھی درست طریقۂ کار نہیں ہے،کیونکہ اس سے مسئلے کا علمی اور منطقی حل نہیں نکلتا۔
3۔اس سلسلے میں دوسرے مکاتبِ فکر کو اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ، آج ہر چیز میڈیا پر موجود ہے،کتابیں ہر ایک کے دسترس میں ہیں، ہرقسم کے عقائد،نظریات،خرافات اور رسومات بھی سب کے سامنے عیاں ہیں،کوئی بھی مسلک اور مذہب اعتراض سے خالی نہیں ہے۔ آج تمام اسلامی فرقے اپنے اپنے روشن فکر اور تعلیم یافتہ طبقے کی جانب سے اعتراضات کی زد میں ہیں۔ ہر مسلک میں مختلف قسم کے خرافات اور رسومات موجود ہیں۔
4۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اختلافی موضوعات پر حوزہ ہائے علمیہ اور معاشرے کے ماہرین، اسلامی اصول،تاریخ، قرآن اور حدیث پر مہارت رکھنے والے محققین اور اسکالرز کو قرآن،سنت،اجماع ،عقل اور تاریخی نصوص کی روشنی میں  مستدلل، منطقی اور محکم جواب دینا چاہئے،اگر معاشرے میں ان نظریات اور رسومات کی کوئی تاریخی یا دینی حیثیت نہ ہو تو ان کو بھی واضح کرنا چاہئے۔

سوال یہ ہے کہ:
مذکورہ اعتراضات درست ہیں  یا نہیں؟؟
اگر اعتراضات درست ہیں تو یقیناً اس عمل کا اسلام اور مکتب سے کوئی واسطہ نہیں لہذا، دینی ماہرین کو اس بارے میں اپنا مؤقف بیان کرنا چاہئے۔ 
بصورت دیگر  معترضین کوقرآن،سنت،عقل،اجماع اور تاریخی حقائق کی روشنی میں محکم دلائل سے جواب دے کر اس شبہے یا اعتراض کو بنیاد سے ہی اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے۔ تاکہ ان دلائل کی روشنی میں انحراف اور گمراہی کی جانب جانے والے افراد حق کی جانب پلٹ کر حقیقت کو قبول کرلیں۔
یہی مکتبِ اہل بیت(ع) کا راستہ ہے۔علماء،فقہا اور محققین نے ہمیشہ مکتب کی نظریاتی بنیادوں کا دفاع اسی انداز میں کیا ہے۔ رہبر انقلاب حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای کے فرمان کے مطابق،اگر کوئی نیا نظریہ وجود میں آئے تو غوغا،تہمت اور الزام تراشیوں کے بجائے جید علماء اور محققین ان شبہات کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے  اقدام کریں،کیونکہ کچھ عرصہ شور و غل سے انحرافی نظریات ختم نہیں ہوتے بلکہ مستدلل جواب سے ہی معاشرے سے ان افکار کی روک تھام ممکن ہے۔رہبر انقلاب مزید فرماتے ہیں،سابقہ زمانے میں بہت سے علماء نے اسی انداز سے جواب دیا جیسے جب حدیث ثقلین پر اعتراض ہوا تو میرحامدی ہندی نے عبقات الانوار اورغدیر پر اشکال کیا گیا تو علامہ امینی نے الغدیر جیسی  مدلل کتابیں لکھ کر اپنے دور کے شبہات کو ہر دور کے لئے ختم کرایا۔
دوسرا اہم نکتہ مختلف نظریات کے مقابلے میں علماء اور اہل علم کے اوپر امر بالمعروف،نہی ازمنکر، تبلیغ دین اور حق کے دفاع کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور یہ ذمہ داریاں توہین،تخریب، الزام تراشی اور تہمت سے ادا نہیں  ہوں گی بلکہ ہر ایک کو زبان،بیان،قلم اور عمل کے ذریعے معاشرے میں حق کے پیغام کو دلائل سے مسلح ہو کر عملی طور پر پہنچانے کی ضرورت ہے،مختلف جگہوں پر بیٹھ کر فقط زبانی تنقید کسی صورت مسئلے کا حل نہیں۔ بلکہ ہر کوئی ان سوالات،اعتراضات اور شبہات کے مقابلے کے لئے خود کو علمی اور عملی طور پر تیار کرکے مشکلات اور سختیوں کے لئے آمادہ کرے۔

 اس وقت سوال اٹھانے والے تعلیم یافتہ افراد جن میں سے اکثریت کی نیت خالص ہے اور اکثر دین اور مکتب سے وفادار ہیں لیکن جدید اور مختلف قسم کا تعلیمی اور معاشرتی ماحول  اور دیگر مختلف مکاتب کا مطالعہ، یونیورسٹیوں کی فکری اور علمی آزادی،مختلف افکار اور نظریات سے آشنائی کے پیش نظر ان سوالات کا اٹھنا ایک فطری عمل ہے۔ جس کے لئے اہل علم اور دینی مراکز کو علم،دلیل،منطق اور استدلال سے لیس ہونا ہوگا تاکہ جدید نظریات کامقابلہ علم کے ذریعے کیا جا سکے۔

عصر حاضر میں مکتبِ اہل بیت(ع) کے بہت سے علماء اور فقہاء نے یہی انداز اپنایا ہے۔امام خمینی،شہید باقر صدر،شہید مطہری،رہبر انقلاب آیۃ اللہ خامنہ ای،شہید بہشتی،آیۃ اللہ مصباح یزدی،آیۃ اللہ جوادی آملی، آیۃ اللہ سید فضل اللہ،آیۃ اللہ آصف محسنی سمیت بہت سے علماء اور مفکرین نے اسی انداز میں اسلام کے آفاقی تصور حیات،عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلام کو امت مسلمہ کے درمیان پیش کیا ہے۔جنہوں نے حقیقی اسلام کو پیش کرنے کے ساتھ مختلف قسم کے اعتراضات کا مستدلل اور قانع کنندہ جواب بھی دیا ہے لہٰذا ہمیں بھی اسی راہ اور طریقۂ کار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .