تحریر: سوشل ایکٹیوسٹ خواہر حمیرا عنبرین
حوزہ نیوز ایجنسی। تناسب کا کلیہ انسانی زندگی کے ہر پہلو میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان صحت، محنت، رزق ،روزگار گویا کہ ہر شے کو تناسب کے پیمانے سے ماپتا ہے۔
کسی مطلوبہ مقصد کے حصول میں ناکامی کو انسان تناسب کے کلیہ سے تجزیہ و تحلیل کرتا ہے کہ اتنے فیصد کی محنت کی تھی اور مطلوبہ نتائج تو اس کے آدھے فیصد بھی نہیں ملے۔ طالب علم اپنے امتحانات کے نتائج بھی تناسب میں ناپتا ہے ۔ اسی طرح مریض کا مرض اور تندرستی کو بھی فیصد میں ماپہ جاتا ہے کہ مریض کو اتنے فیصد افاقہ ہوا ہے، مریض کے بچنے کے اتنے فیصد چانسز ہیں وغیرہ وغیرہ۔
محرم الحرام 2021 میں عزاداری سے متعلق رائے عامہ کو ایک سوالنامہ کے ذریعے اکھٹا کرنے کا موقعہ ملااور شرکاء کی آراء اور سماجی میڈیا پر نت نئے رسومات کی ویڈیوز کی گردش نے ناچیز کو قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔
ہمارے تحقیقی سوالنامہ کے لیے ملک کے ہر گوشے سے افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ان تمام آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی تجزیہ کے کلیہ کے مطابق اب تک ہم نے فقط ایک فیصد کربلا کو سمجھا ہے اور باقی ۹۹ فیصد کربلا ہماری اپنی من گھڑت کربلا ہے۔ یہ ہمارے اکیسویں صدی کی تلخ حقیقت ہے۔
موجودہ رسومات عزاداری اور دن بدن نت نئے رسموں اور رواجوں کا بڑھتا رحجان دیکھ کر دل خون جگر ہوتا ہے۔ عزاداری کے ساتھ بھی وہی کیا گیا جو کہ اسلام کے ساتھ کیا گیا تھا۔ جب محسوس ہوا کہ بنی نوح انسان اب ماڈرن زم اور پوسٹ ماڈرنزم کے نظام سے تھک چکا ہے اور حقائق کے درپے ہے تو طالبان اور داعش جیسی تنظمیں بنائی گئی ۔ اب جب کربلا سے تہذیب خلق کرنے کا وقت آیا تو جملہ خرافاتی و انحرافی رسومات کو زور و شور سے بڑھایا جارہا ہے۔
عزاداری یعنی کیا!!! عزاداری یعنی rock pattern پر نوحہ خوانی جس میں نہ حرمت اہلبیت ع قائم ہے نہ عظمت اہلبیت ع کی کوئی جگہ؟ اس وقت موضوع نوحہ خوانی نہیں اگر توفیق ملی تو اس پر ضرور کاغذ کو اپنے قلم سے داغدار کرینگے۔
عزاداری یعنی!!! برینڈڈ لباس زیب تن کرنا، سبیل لگا کر شغل لگانا!!
عزاداری یعنی فقط ماتم و گریہ!!
عزاداری یعنی جو شادی کربلا میں نہ ہوسکی اس کا برصغیر کے ثقافت کے مطابق مہندی کی رسمیں ادا کرنا!!! یہ بھی ایک الگ موضوع ہے مگر ہم کلی نکات بیان کر رہے ہیں۔
عزاداریِ سید الشہدا ع ایک پاکیزہ و گرانقدر نعمتِ خدا وندی ہے۔ عزاداری کے نام پر مزید خرافات کو بیان کرنے کی نہ جرت ہے اور نہ برداشت۔
بقول شاعر مشرق کے
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی
ہمارے Respondents میں سے 98% رواں سال عزاداری سے مطمئن نہیں تھے اور یہ خوش آئند بات ہے کہ لگ بگ ۱۵۰ respondents نے تنقید برائے اصلاح اور تعمیری تنقید کی ہے۔ ان کی تفکر و تدبر پر علامہ اقبال کا وہ شعر یاد آرہا ہے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنے کشت ویران
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اللہ رب العزت نے انسان کو عظیم نعمت یعنی عقل سے نوازا ہے جس کے بنیاد پر اس میں فرقان کی صلاحیت ہے۔یہ فرقان کی صلاحیت کربلا کے تناسب کا تعین کرتی ہے کہ ہمارے پاس ایک فیصد کربلا ہے
ہمارے معاشرے میں ہم کربلا کو دیکھ چکے ہیں کہ ایک فیصد کربلا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری اپنی زندگیوں میں کربلا کتنے فیصد ہے؟ آیا یہ تناسب بڑھانا ہے؟ کتنے فیصد پر ہم نے خود کو پہنچانا ہے کہ آنے والی نسل صفر سے شروع نہ کرے ایک سفر ہم ان کا طے کر چکے ہو کہ وہ 100 پر پہنچ جائے اور نظام عدل قائم ہوجائے۔
آخر میں ایک فیصد کربلا کی تعریف و تعارف کرنا لازم ہے
“کربلا کا واقعہ سن ۶۱ ہجری میں عراق میں وقوع پذیر ہوا۔ امام حسین ع نبی آخری زماں کے نواسے تھے۔ سردار جنت تھے۔ اپنے آل اولاد و اصحاب کے ساتھ میدان کربلا میں شہید ہوئے۔ کربلا کے شہدا اور کربلا کے اسیران کی تعداد و قید و بند و شہادت ۔یہ ہے ایک فیصد کربلا”
کربلا کیوں برپا ہوئی؟
کربلا کی ضرورت عصر حاضر میں کیا ہے؟
یہ عزاداری و احتجاج کیوں ہے؟
فلسفہ شہادت کیا ہے؟
دین کی بقا کی حکمت عملی سید الشہدا (ع) ، امام زین العابدین ع اور مدافع ولایت و امامت جناب سیدہ زینب (ع) کیا تھی؟
ہماری کربلا کیا ہے؟
کیا ہم ابھی کربلا کے محاصرہ میں ہیں؟
کلام سید الشہدا (ع)، کلام امام سجاد کلام جناب سیدہ سے ہم کتنے آشنا ہیں؟
ابھی یہ سوال ہنوز باقی ہیں۔۔۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔