تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی، مدیر ساغر علم دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی। ہر قوم میں اس کی اپنی کچھ رسومات ہوتی ہیں ، ان میں سے کچھ رسمیں مذہب کے مطابق ہوتی ہیں اور کچھ رسومات ایسی ہوتی ہیں جو من چاہی ہوتی ہیں اور ان کا دور دور تک مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دنیا میں مختلف ممالک ہیں اور ہر ملک کی اپنی کچھ سیاستیں ہوتی ہیں جن کے پیش نظر رسومات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہر ملک میں آئے دن کسی بھی مناسبت سے “ڈے ۔ “Day منایا جاتا ہے۔ فادرس ڈے(یوم پدر ۔ (Father's Day، مدرس ڈے (یوم مادر ۔ (Mother's Day، ڈوٹر ڈے (یوم دختر ۔ (Daughter's Day، ٹیچرس ڈے(یوم معلّم ۔(Teacher's Day، ینگ ڈے (یوم جوان ۔(Young's Day، براردس ڈے (یوم برادر ۔(Brother's Day، حجاب ڈے (یوم حجاب) وغیرہ کے علاوہ اور بھی نہ جانے کتنے ایام ایسے ہیں جو کسی نہ کسی مناسبت سے منائے جاتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کس حد تک صحیح ہے؟ اگر ان چیزوں کو صلۂ رحم کے مدّنظر دیکھا جائے تو ایک حد تک صحیح نظر آتی ہیں کہ چاہے سال میں ایک بار ہی سہی... اس بہانے اپنے اعزاء و اقارب سے قربت کا اظہار ہوجاتا ہے؛ مگر کون سے دن کون سا"ڈے" منایا جائے! اس میں تو اختلاف نظر آنا ہی ہے! اگر مغربی کلچر کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بے شمار ایام ایسے ہیں جن میں مناسبات کا وجود ہے اسی طرح مشرقی کلچر میں بھی مناسبتی ایام کی کوئی کمی نظر نہیں آتی!۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مذہب کو ترجیح دی جائے یا ملکی رسومات کو؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن سے محبت ایمان کا جزو ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کوئی رسم مذہب سے ٹکرا رہی ہے تو اس رسم کو خیرباد کہنا ہی قرین عقل ہے۔
اگر اسلامی و شرعی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو آیت قرآنی یہ کہہ رہی ہے: ''اے صاحبان ایمان! یہود و نصاریٰ کو اپنا ولی مت بناؤ، جو بھی تم میں سے ان کو اپنا ولی قرار دے گا وہ انہی میں سے ہوگا''(سورہ مائدہ٥١) یعنی اگر ایک انسان ایک مذہب پر قائم رہتے ہوئے دوسرے مذہب کی رسومات پر عمل پیرا ہو تو وہ انہی کے ساتھ محشور ہوگا جن کی وہ رسومات ہیں۔ روایات میں کچھ اس طرح نظر آتا ہے: ایک مقام پر مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہے ''ہمارے شیعہ ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور ہمارے غم میں غمگین ہوتے ہیں''۔(میزان الحکمة، ج٥، ص٢٣٣)؛ دوسرے مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ''ہمارے شیعہ ہمارے جزو ہیں، انہیں وہی چیز رنجیدہ کرتی ہے جو ہمیں غمگین کرتی ہے اور انہیں اسی چیز سے مسرت حاصل ہوتی ہے جس سے ہمیں مسرت ہوتی ہے''۔(بحارالانوار، ج٦٨، ص٢٤۔ آمالی، شیخ طوسی، ج١، ص٣٠٥)
اگر آیات و روایات کو جمع کرکے نتیجہ اخذ کرنا چاہیں تو یہ بات آشکار ہوگی کہ ''انسان اپنے مذہب کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان رسومات پر عمل کرسکتا ہے جو مذہب کے منافی نہیں ہیں، اس کے علاوہ مذہب نے ہمیں کچھ نمونۂ عمل دیئے ہیں تو ہماری ذمہ داری یہی ہے کہ ان کی زندگیوں کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں!''۔
اس بحث میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مثلاً عیسائیوں نے فادرس ڈے (Father's Day)منایا، یہودیوں نے مدرس (Mother's Day)ڈے منایا، اہل ہنود نے ڈوٹر ڈے(Daughter Day) منایا؛ اسی طرح دیگر اقوام نے اپنے تمام ایام کی مناسبتیں منائیں ... ان مناسبتوں میں اہل اسلام کا کیا عمل دخل ہے؟ آخر ہم کون سی ڈگر پر چل رہے ہیں؟ عیسائیوں ، یہودیوں، مجوسیوں، اہل ہنود وغیرہ کی رسومات سے ہمیں کیا مطلب ہے؟ ہمیں صرف اپنے ایام کی مناسبتوں پر توجہ دینی چاہئے!۔ اگر انگریز فادرس ڈے(Father's Day) مناتے ہیں تو وہ اپنے باپ کا مناتے ہیں، انکا باپ ہمارا کیا لگا جو ہم بھی فادرس ڈے(Father's Day )منانے لگے؟ انہوں نے کسی مناسبت سے مدرس ڈے(Mother's Day) منایا تو کیا ہم بھی اس دن مدرس ڈے(Mother's Day) منائیں؟ کیا ان کی اور ہماری ماں ایک ہے؟ کیا یہ سوچنے سمجھنے کا مقام نہیں ہے؟ ہمیں کہاں ہونا چاہئے اور کہاں پہنچے ہوئے ہیں!۔آخر دوسروں کی مناسبتوں پر ہمارے اسٹیٹس کیوں بھرے پڑے رہتے ہیں!؟۔ حالانکہ شاید ٩٥فیصدسے زیادہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آخر ہم نے یہ اسٹیٹس کیوں لگایا ہے!۔ اگر اعتراض کردیا جائے تو پھر طرح طرح کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔
اگر ہمیں فادرس ڈے(Father's Day) منانا ہے تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی حدیث دیکھئے: ''میں اور علی اس امت کے باپ ہیں''(بحارالانوار، ج١٦، ص٩٥، باب٦) ، اس حدیث کے مطابق ہمارا فادرس ڈے(Father's Day) یا تو ١٢/وفات ہے، یا ١٧/ربیع الاوّل یا ١٣/رجب؛ ہمیں ان تینوں دنوں کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ ہمارے باپ محمد وعلی علیہماالسلام ہیں۔
اگر ہمیں مدرس ڈے(Mother's Day) منانا ہے تو ولادت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے ٢٠/جمادی الثانی کو منائیں۔ اگر برادرس ڈے(Brother's Day) منانا ہے تو جناب عباس علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے ٤/شعبان میں منائیں۔ اگر ینگ ڈے(Young's Day) منانا ہے تو جناب علی اکبرعلیہ السلام کی ولادت کے موقع پر ١١/شعبان میں منائیں۔ اگر یوم دختر(Daughter Day) منانا ہے تو جناب معصومۂ قم سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے پہلی ذیقعدہ میں منائیں۔ اگر یوم حجاب منانا ہے تو جناب زینب سلام اللہ کی ولادت کے موقع پر منائیں۔ فرینڈشپ ڈے(Freindship Day) منانا ہے تو حبیب ابن مظاہرکو نمونۂ عمل بنائیں۔ ہمیں اس چیزکا لائحۂ عمل ایران کے ذریعہ مل سکتا ہے۔ ان باتوں کے جواب میں یہ کہنا کہ وہ خاص ہیں ہم عام ہیں، یا یہ کہنا کہ وہ ہستیاں تو ہر میدان میں فردفرید رہیں تو پھر انہیں ایک مناسبت سے کیوں مخصوص کیا جائے! اس طرح کی تمام باتیں منھ زوری کے سوا کچھ نہیں۔ دیگر اقوام جو اپنی مناسبتیں قائم کئے ہوئے ہیں ان کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں کوئی الٰہی نمونۂ عمل نہیں مل سکا لہٰذا انہیں جو کردار پسند آیا اسی کی مناسبت سے خوشیاں منانے لگے!۔ ہمیں تو فخر کرنا چاہئے کہ خداوند عالم نے ہمیں کتنے زیادہ نمونۂ عمل(Ideals) عطا فرمائے ہیں!۔ اگر اتنے نمونے ہونے کے باوجود ہم دوسروں کی مناسبتوں میں خوشیاں منائیں تو یہ کام ہماری ذہنی پستی کی دلیل سمجھا جائے گا۔ کچھ رسومات ایسی ہوتی ہیں جو ملکی سطح پر ہوتی ہیں اور ان رسومات سے حبّ الوطنی کا اظہار ہوتا ہے، ایسی رسومات مذہب کے مخالف نہیں ہوتیں لہٰذا ان کو منانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً ہم ہندوستانی ہیں تو ١٥/اگست کو یوم آزادی اور ٢٦/جنوری کو یوم جمہوریت منانا حبّ الوطنی کی نشانی، مذہبی اجازت اور ضمیر کی آواز ہے لیکن ایسی رسومات جوکسی قوم سے مخصوص ہیں اوران سے حبّ الوطنی کا تعلق بھی نہیں ہے تو پھر ہم ان رسموں میں کیوں الجھیں!؟ ۔ یہ بات یاد رہے کہ دورحاضر کا واٹسپ اسٹیٹس(Whatsapp Status) دنیا کے سامنے ہماری اوقات کو اجاگر کرتا ہے۔ واٹسپ کے اسٹیٹس سے انسان کا اصل اسٹیٹس سمجھ میں آتا ہے لہٰذا اپنے اسٹیٹس کو ایسا بنائیں جیسا ہمارے رہبروں نے حکم دیا ہے!۔
بعض رسومات ایسی ہوتی ہیں جن کا ہمارے دین و مذہب سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بلکہ ہمارے مذہب کے منافی ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان رسومات کو مسلمانوں کے درمیان بھی دیکھا جاتا ہے، مثلاً: ١٣/فروری میں ویلین ٹائن ڈے(Valentine Day) منایا جاتا ہے جس میں کوئی بھی لڑکا کسی بھی لڑکی کو پھول یا گلدستہ پیش کرکے اظہار محبت کرتا ہے جب کہ دین اسلام نے اس کی سخت مذمت کی ہے کیونکہ یہ دونوں آپس میں نامحرم ہیں، جس کی طرف شریعت کوآنکھ اٹھاکر دیکھنا بھی گوارا نہ ہو اس کو پھول پیش کرنے کا کیا مطلب ہے!؟۔ اسی طرح پہلی اپریل کو فرسٹ اپریل یا اپریل فول منایا جاتا ہے اس میں ہر قسم کے جھوٹ اور دھوکہ دھڑی کو جائز قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ شریعت اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی ہے، یہ رسم بھی مسلمانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، ان نادانوں کو یہ علم بھی نہیں ہے کہ آخر اپریل فول کا مطلب کیا ہوتا ہے!، اگر اپریل فول کی دردبھری مسلمانوں کی داستان سن لیں تو سمجھ میں آئے گا کہ اس روز کتنے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا! جس کی خوشی میں فرنگی لوگ اپریل فول مناتے ہیں!۔ خداوندعالم ہمیں دین اسلام کے مطابق چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے ''آمین''۔
''والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ''۔