تحریر: سید محمد.ر.موسوی
مقدمہ
حوزہ نیوز ایجنسی । آج دنیا میں ہر انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے کسی نہ کسی کا محتاج نظر آتا ہے ،ایک مریض دوا اور ڈاکٹر کا،ایک کسان کھیتی کے لئے زمین اور بیج وغیرہ کا ،مکان بنوانے کا خواہشمند من پسند نقشہ و کاریگر کا ،ایک دنیوی وزیر و رہبرعوام کے ووٹوں ، ایک طالب علم بہترین استاد، مدرسہ کالج کتابوں وغیرہ کا اسکے علاوہ تمام افراد کو اپنے مقاصد میں کامیابی کے لئے خود محنت کے ساتھ ساتھ راہ کی تمام رکاوٹوں ،مشکلات کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے اور ضروریات و احتیاجات کو پورا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن یہ کامیابی پھر بھی نصیب نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر میدان کو سر کرنے کے لئے پہلے مرحلے میں جامع قوانین و ضوابط کے مجموعہ کا ہونا لازمی ہوتا ہے جس میں ہر طرح کی مصلحتوں کا لحاظ بھی کیا گیا ہو اور منظم پروگرام بھی تیار کرکے پیش کیا گیا ہو۔ اور دوسرے مرحلے میں ایک بہترین نمونہ اور آئیڈیل کا ہونا ضروری ہوتا ہے جس نے ان تمام قوانین و ضوابط پر عمل کرکے دکھایا ہو، یا اس کے اصول اور کلیات کو اپنے کردار و رفتار اور اعمال میں ڈھال کر پیش کیا ہو۔
جامع قوانین اور نمونہ عمل دونوں ہی کے لئے مطلوبیت کے تمام معیارات کا پایا جانا ضروری ہے یعنی قوانین اور نمونہ عمل دونوں ہی کا ہر طرح کے نقص سے مبرہ اور پاک ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلہ کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تونمونہ عمل کے امورصرف دنیاوی حدود تک ہی محدود نہیں ہوتے ہیں بلکہ اسکے کاموں کا تعلق اخروی دنیا سے بھی ہونا ضروری ہے اسی لئے کہ اسلام نے انسان کے لئے جسم وجسمانیت کے ساتھ ساتھ روحانیت کا بھی لحاظ رکھا ہے اور انسان کے تمام اعمال واحکام کے مادی و معنوی پہلووں کو مدنظر رکھ کر ایسے قوانین وضوابط کا مجموعہ پیش کیا ہے جس میں ہر طرح کی کامیابی پائی جاتی ہے ۔اسی قوانین و ضوابط کے مجموعہ کو شریعت کا نام دیا ہے ۔اسی لئے شریعت کی تعریف دوسروں لفظوں میں یوں کی جاسکتی ہے کہ "شریعت: قوانین و احکام الہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا انسانی زندگی کے لئے ایک ایسے معیار کا نام ہے جس میں خواہشات کی دخالت نہیں پائی جاتی ہے" اس لئے کہ خواہشات کی بنیاد جہالت پر ہوتی ہے اور شریعت کی بنیاد امر الہی پر ہے اب بصیرت و عقل کا تقاضایہی ہے کہ عقلی راستہ کو اختیار کیا جائے۔
لیکن قوانین و ضوابط مہیا ہوجانے کے بعد بھی ہم مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں جیسا کہ ایک بچہ پیداہونے کے بعد بغیر ماں باپ یا کسی اور کی تربیت و پرورش کے نیک اور صالح نہیں بن سکتا ہے ، ایک طالب علم کتابوں کے انبار و ڈھیر ہونے کے باوجود اگر استاد نہ ہوتو خود سےپڑھ لکھ کر علمی صلاحیت کا ملکہ حاصل نہیں کرسکتا ہے اسی طرح شریعت کے قوانین و ضوابط کو کتابوں میں سجا سنوارکر رکھنے سے انسان ان پر نہ تو صحیح عمل کرسکتا ہے اور نہ ہی کامیاب زندگی گزار سکتا ہے ۔ یعنی ہمارے لئے دنیا ودینی اعتبار سے ہر میدان میں کسی نمونہ و آئیڈیل کا ہونا ضروری ہے جس کے کردار و گفتار و رفتارشریعت کی ترجمان ہو اوراسکوہم اپنی عملی زندگی میں اپناکر کامیابی کی راہ پر پہونچ سکیں۔
معاصر دنیا میں یوں تو بہت سارے چلینجز کا سامنا ہے لیکن اگر کلی طور پر دیکھا جائے تو دنیا میں تمام مشکلات و پریشانیوں کی بازگشت "جامع قوانین" کے فقدان اور ان قوانین پر مکمل عمل کرکے دکھانے والے کامیاب "نمونہ عمل" کے نہ ہونے کی طرف پلٹتی ہے اور الہی نظام ہدایت کو دیکھا جائے تب بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مالک و خالق جہان نے انہیں دو چیزوں کی ضرورت کی وجہ سے ہمارے لئے ہمیشہ انہیں دو باتوں کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے اور بقیہ تمام امور کو بھی انہیں کی طرف پلٹایا ہے۔ یعنی ہمیشہ سے ایک الہی رہنما کا اہتمام فرمایا ہے اور اسی طرح بشریت کی سطح ارتقا اور مراحل بلوغ کو دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرےقوانین و ضوابط کو پہونچایا یہاں تک یہ سلسلہ حضرت محمد مصطفی [ص] کی ذات با برکت پر آکر اختتام پذیر ہوا اور قرآن کریم کی شکل میں قیامت تک باقی رہنے جامع قوانین و ضوابط کو پہونچا کر اعلان کیا گیا کہ:
"إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللّهِ الْإِسْلامُ وَ مَا اِخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ إِلاّ مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْياً بَيْنَهُمْ وَ مَنْ يَكْفُرْ بِآياتِ اللّهِ فَإِنَّ اللّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ" ؛
"دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو (اس دین سے) اختلاف کیا تو علم ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا اور جو شخص خدا کی آیتوں کو نہ مانے تو خدا جلد حساب لینے والا (اور سزا دینے والا) ہے"۔
یہاں مختصر طور پر معاصر دنیا کی مشکلات اور چلینج کے حوالے سے بہترین اسلام و قرآن کی طرف سے پیش کئے گئے بہترین نمونہ عمل اور جامع قوانین و ضوابط کے مجموعہ کے حوالے سے اختصار کے ساتھ چند باتیں پیش کی جارہی ہیں:
بہترین نمونہ عمل:
اسلامی دنیا میں جو ذات شریعت کی مکمل ترجمان بلکہ شریعت و قوانین الہی کی لانے والی ہے وہی ہمارے لئے دنیا میں کامیاب زندگی گزار کر آخرت میں سعادت حاصل کرنے کے لئے بہترین نمونہ وآئیڈیل ہے ۔آپ کی ذات شریعت و قوانین الہی کے دائرے ہی میں نہیں رہی بلکہ آپ کی زندگی کو سمیٹا گیا تو ہمارے لئے شریعت بن کر سامنے آئی ہے یعنی سید المرسلین ، خاتم النبیین حضرت محمد [ص] کی ذات وہ عظیم ذات ہے جنہوں نے عربستان کے سب سے پسماندہ ماحول میں زندگی کو صراط مستقیم پر چلنا سکھایا اور ایسا دین پھیلایا جو پسندیدہ پروردگار ہے جس نے ارکان باطل کومنہدم کردیا،، ایسی شریعت کا نفاذ فرمایا جس نےراہ ہدایت کے پیاسوں کو سیراب کیا،جس کے بندھن ٹوٹ نہیں سکتے ،جس کی بنیاد منہدم نہیں ہوسکتی، جس کی مدت تمام نہیں ہوسکتی، جس کے آثار مٹ نہیں سکتے ، جسکے راستے تنگ نہیں ہوسکتے۔ جس کی وسعت میں دشوار نہیں ہو سکتی، اس کے میناروں سے راہ گیر ہدایت پاتے رہیں گے۔ غرض کہ ہمارے پیارے نبی محمد مصطفےٰ [ص] ایسی شریعت پیش کی جو زندگی کی ضروریات کے تمام قوانین اور عزت وسربلندی کے تمام احکام کی بیانگر ہے اور ساتھ ساتھ آپ[ ص] نے ہمارے لئے اس شریعت کو ہر دور، ہر وقت ،ہر لمحے ،ہر میدان، ہر شعبہ، اور ہر منزل میں عملی طور پر ثابت فرما دیاکہ بہترین زندگی کے لئےبہترین نمونہ و آئیڈیل آپ ص ہی کی ذات ہے۔آئیے سب سے پہلے ہم اپنے اس آئیڈیل کے صفات کا قرآنی مطالعہ کریں۔ قرآن مجید نے حضرت محمد مصطفےٰ [ص] کے لئے بہترین صفات بیان فرمائے ہیں جن کو ایک اسلامی نمونہ و آئیڈیل میں ہونا چاہئے ۔
۱۔ معصوم ہونا ؛۔ ہمارے اس آئیڈیل کو خداوندعالم نے عصمت وطہارت کی عظیم صفت سے نوازا اور ہر طرح کی خطاو غلطی سے اس طرح پاک رکھا کہ آپ بغیر وحی الہی کے کلام تک نہیں فرماتے تھے۔
۲۔ ہمارا نبی ص نےقوانین الہی کو وحی الہی کے ذریعہ حاصل کیا ہے اوربغیر کمی و زیادتی کے لوگوں تک پہونچایا ہے
۳۔ خدا وندعالم نے آپ کو ہمارے لئے نیک اور اچھا آئیڈیل بنایا ہے اور فرمایا کہ مسلمانو : تم میں سے اسکے لئے رسول ص زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے ۔
۴۔ آپ ص خداوندعالم کے ان منتخب پیامبروں میں سے ہے جنھیں شریعت عطا کی گئی ہے اور لوگوں کے لئےھادی بنایا گیا ہے ۔
۵۔ آپ اخلاقی میدان میں سب سے افضل رہے ہیں چنانچہ خداوندعالم نے فرمایا کہ اے میرے حبیب ص آپ اخلاق کے عظیم درجے پر فائز ہیں ۔
۶۔ آپ ص لوگوں کے لئے کتاب وحکمت کی تعلیم دینے اور انھیں قلوب کو پاک کرنے اور گمراہی سے نکالنے کے لئے تشریف لائے ہیں ۔
۷۔ ان سب کے علاوہ آپ ص کو خداوندعالم نے بہت سی صفات جیسے صاحب معجزہ ہونا، تمام لوگوں سے افضل و اکمل ہونا ،خواہشات سے پاک ہونا وغیرہ بیان فرمائے ہیں جو ایک بہترین اور بے مثال انسان ہونے کی نشانی ہیں۔
خداوندعالم نے اسی آخری نمونہ عمل کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے ابتدائے آفرینش سے اہتمام کیا تھا، تمام پیغمبروں نے اس کےآنے کی بشارت دی تھی چنانچہ اہل کتاب کے حوالے سے قرآن فرماتا ہے:
"اَلَّذِينَ آتَيْناهُمُ اَلْكِتابَ يَعْرِفُونَهُ كَما يَعْرِفُونَ أَبْناءَهُمْ وَ إِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ اَلْحَقَّ وَ هُمْ يَعْلَمُونَ" ۔ "جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ ان (پیغمبر آخرالزماں) کو اس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں، مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے "۔
اسی طرح آنحضرت [ص] کے بہترین نمونہ عمل ہونے کے حوالے سے بیان ہوتا ہے کہ:
"لَقَدْ كٰانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اَللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كٰانَ يَرْجُوا اَللّٰهَ وَ اَلْيَوْمَ اَلْآخِرَ"
بیشک تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ عمل ہے۔ اس شخص کے لئے جسے خدا کی رحمت اور روز قیامت (کے آنے) کی اُمید ہو ۔
جامع قوانین و ضوابط اور نمونہ عمل کی عظمت:
دور حاضر کا اگر ہم غور وفکر اور روشن ضمیری سے جائزہ لیں اور اپنے پیارے نبی ص کی سیرت وشریعت سے اسکو مطابقت کریں تو انصاف کے دائرے میں آپ [ص] کے ذریعہ پیش کیا گیا جامع قوانین و ضوابط کا مجوعہ تمام ادیان سے اکمل ہے۔ دور حاضر کے چلینجز اور مشکلات و نظریات کے مطابق چند نمونے ملاحظہ کریں؛۔
۱۔ آج کا انسان اپنے آپ کو مجموعی طور پر بہترین زمانے والا تصور کرتا ہے اور بہترین مراحل زندگی گزارنے والا تصور کرتا ہے اوراس ذہنیت کی تائید قرآن مجید نے بھی فرمائی ہے اور امت محمدی ص جو آخری امت ہے اسے بہترین امت قرار دیا ہے۔ اور نمونہ عمل کےطور پر بھی بہترین رسول ص کو بھیجا لہذا کہا جا سکتا ہے کہ خداوندعالم نے بہترین ہونے کے تصور رکھنے والے افراد کے راہ عمل وسیرت میں بھی بہترین بننے کے لئے بہترین رسول ص کا انتخاب فرماکر بھیجا ہے ۔
۲۔ معاصر انسان جب تک اپنے ہدف و مقصد کو حاصل نہیں کرلیتااور مکمل طور پر صحیح راہ و روش حاصل نہیں کرلیتا ہے تب تک اپنے طریقوں کو بدلتا رہتا ہے اور جب بہترین روش کو پا لیتا ہے تو تو ہمیشہ کے لئے اسی کو اختیار کر لیتا ہے اس لحاظ سے بھی اگر ہم دیکھیں تو خداوندعالم نے بھی انسانوں کی رشدصلاحیت اورتبدیلی افکار کودیکھ کر ۵/ شریعتیں نازل فرمائی اور جب خدا کے بندوں نے ہمارے نبی ص کے توسط سے آنے والی شریعت کے ذریعہ بہترین راہ و روش زندگی کو پالیا تو آپ کی شریعت کو ہمیشہ کے لئے باقی و قائم رہنے والی بنا دیا اور پچھلی شریعتوں کو ختم کردیا ۔ اس بات کا اشارہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے اور ایک مقام پر واضح طور پر فرمایا ہے کہ اے رسول :جب بھی ہم [اپنے حکم ونشانی] کو ختم کرتے ہیں یا دلوں سے مٹا دلیتے ہیں تو اس کی جگہ اسی جیسی یا اس سے بہتر نشانی لےکر آتے ہیں
۳۔ آج کا انسان زندگی کے لئے کسی ایسے قانونی مجموعہ اور ایسے رہبر و راہنما کے نقش قدم ڈھونڈتا ہے جو سب کے لئے مساوات و برابری کا پیغام دیتا ہو ،جہاں حق و باطل عیاں ہو ،گویا وہ قانونی مجموعہ اور رہبر عالم گیر ہو اب اگرمحمد مصطفی ص کی پیش کردہ شریعت اسلامی کو دیکھا جائے تو جہاں خود یہ شریعت عالمگیر ہے وہیں ہمارا بہترین اسوہ و آئیڈیل بھی پوری عالم انسانیت کے لئے ہے چنانچہ قرآن مجید نے اس سلسلے میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا ہے ۔ مجموعہ قوانین قرآن مجید اپنے بارے میں آواز دیتا ہے کہ پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب فرقان [قرآن] کو اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ عالمین کو ڈرا سکے ۔ دوسری جگہ اپنے حبیب ص سے کہلواتا ہے کہ " میری طرف فرقان [قرآن] کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ میں تمہیں اور جہاں تک میرا پیغام پہونچ سکے ان سب کو ڈرا سکوں ۔
۴۔ آج کا انسان خصوصا نسل نو اپنے آپسی مشکلات و مسائل کا حل لڑائی جھگڑوں کے بجائے پیار محبت ،بحث و گفتگو سے کرنا چاہتے ہیں اب اگر ہم قرآن مجید اور اپنے پیارے حبیب ص کی سیرت کا مطالعہ کریں تو اس حوالے سے بے شمار موارد نظر آئیں گے جہاں آج کی ذہنیت کے بارے میں قرآن نے تاکید بھی فرمائی ہے اور ہمارے نبی ص نے اس کو عملی کرکے بھی دکھایا ہے ، قرآن کا ارشاد ہے کہ اے میرے حبیب ص آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور بہترین طریقہ سے لوگوں سے بات کریں
۵۔ آج کا انسان ہر موڑ پر سوالات کرنے،کھوج و چھان بین،ریسرچ اور کشف حقائق کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے اس میدان میں بھی خداوندعالم نے دور حاضر کو پیاسا نہیں رکھا اور ہمارے رسول ص کی زبانی ایسے ایسے مسائل اور علوم کو بیان فرمادیا کہ آج تک انسانیت اسکو سمجھنے میں لگی ہوئی ہے اور انسانیت کے سوالات کے جواب دینے کے لئے ایسی شریعت کو پیش کیا ہے کہ قیامت تک کے پیش آنے والے سوالات کا جواب اسکے دامن میں موجود ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے جوابات اسکے صحیح اور حقیقی وارث سے حاصل کئے جائیں ،ہر کس وناکس کے بس میں نہیں ہے کہ شریعت محمدی ص کی روشنی میں ہر سوال کا وہ جواب دےسکے قرآن مجید خود فرماتا ہے کہ خداوندعالم نے قرآن میں ہر طرح کی نشانیاں رکھی ہیں ، ان کی تاویل سب نہیں جانتے ہیں اگر تمہیں جاننا ہو تو اللہ اور علم میں رسوخ رکھنے والے افراد کی طرف رجوع کیا جائے ۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اگر تم کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرلو۔
۶۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ دینی معاملات اور احکام میں آج کا انسان یہ چاہتا ہے کہ ہمارے آسان احکام ہوں مشکل مسائل کو ہم سے دور رکھا جائے ، ہم سے زور زبردستی نہ کی جائے ،ہمیں ہر طرح کا اختیار دے دیا جائے تو خداوندعالم نے آج کے انسان کی اس فطرت کو مد نظر رکھا۔سیرت محمد مصطفی ص میں اسکو عملی طور پر دکھایا ہے چنانچہ آپ ص نے اپنی پوری زندگی میں احکام و مسائل دینی میں کبھی زبردستی عمل نہیں کروایا ہے ہمیشہ حدود فطری کا لحاظ کرتے ہوئے ہر ایک کسی بھی مسئلہ کے ماننے اور اس پر عمل کرنے کا اختیار دیا ۔ قرآن مجید نے بھی متعدد جگہوں پر ارشاد فرمایا ہےایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم ہر انسان کو اسکی وسعت سے زیادہ تکلیف و ذمہ داری نہیں دیتے ہیں ۔ دوسری جگہ ارشاد ہواکہ دین کے معاملے میں کوئی حرج و رکاوٹ کو دور کردیا ۔ ساتھ ہی ساتھ بھول چوک کی صورت میں گذشتہ امتوں کے مقابل اس امت کے لئے لطف کرتے ہوئے بھول چوک کو معاف کردیا گیا ہے ۔لیکن خداوند عالم نے اس بات کو واضح کردیا کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم کو ہم نے پیدا کیا ہم ہی تم کو رزق و نعمات سے نوازتے ہیں لہذا ہمارے احکام پر عمل کرو،اور اخلاقی اعتبار سے شکرانے کے لئے الہی احکامات پر عمل کرنا فطرت اور عقل کا تقاضا بھی ہے اس لئے کہ دنیا دراصل ایک دوسرے جہان تک پہونچنے کا وسیلہ ہے یہاں ہمیشہ نہیں رہنا ہے یہاں کا کیا ہوا دوسری دنیا میں ملنا ہے لہذا جوجیسا وہاں پانا چاہتے ہو ویسا ہی اس دنیا میں کرنا ہوگا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص بھی ذرہ برابر نیکی کرے گا اسکا بدلہ اسے مل کر رہے گا اور جو شخص بھی ذرہ برابر برائی کرے گا اسکی سزااسے مل کر رہے گی۔
مومنین جشن عید میلاد النبی کا موقع اور رحمت العالمین کا پاکیزه کردار ہر سال اُمت مسلمہ کو اپنی ذمہ داریوں اور انہی تعلیمات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔