حوزہ نیوز ایجنسی | ماہ محرم کا چاند جس طرح اہلبیتؑ کے ماننے والوں کو غمگین اور محزون کردیتا ہے اسی طرح ان کے مخالفین کو بھی پریشانی میں ڈال دیتا ہے۔ ہر سال محرم کی آمد کے ساتھ ہی امام حسینؑ پر گریہ و عزاداری کو لےکر یہ لوگ اعتراضات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے یہ چلن سوشل میڈیا پر رائج ہونے لگا ہے۔ وہی گھسے پٹے شبہات کبھی تصاویر (image) کی صورت میں پیش کیے جاتے ہیں تو کبھی کسی مقرر کی تقریر کا ویڑیو بناکر وائرل کردیا جاتا ہے۔ مقصد بس یہی ہوتا ہے کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ ‘شیعوں کا عزاداری کرنے کا طریقہ غیر اسلامی ہے۔’ لطف کی بات یہ ہے کہ ان اعتراضات کے جوابات بھی اسی طرح انہیں ذرائع (سو شل میڑیا)سے لوگوں میں عام کیے جاتے ہیں۔
ایک اعتراض جو بہت پرانا ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ شہید بنص قرآن زندہ ہوتا ہے اس لیے اس کا سوگ منانا غلط ہے۔ اس سلسے میں آپ قارئین نے یہ مشہور شعر بھی سنا ہوگا: ‘ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے’۔ جو لوگ اس طرح کی بیہودہ بات کرتے ہیں وہ در اصل اپنی کم علمی اور جہالت کا ثبوت دیتے ہیں۔ پھر بھی اس سوال کے کئ جوابات دیے گئے ہیں ان میں سے ایک اہم جواب جو خود قرآن میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ جناب یعقوبؑ کا اپنے باحیات گمشدہ فرزند جناب یوسفؑ پر گریہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ زندہ پر گریہ کرنا کوئ غیر اسلامی عمل نہیں ہے۔ اس ضمن میں اور بھی قرآنی جواب دیے جا سکتے ہیں۔ مگر ہمارا مقصد اس مضمون میں یہ ہے کہ جو لوگ سنّی ہونےکا دعوہ کرتے ہیں وہ جان لیں کہ خود ان کی کتابوں میں یہ روایات موجود ہیں کہ سرور کائنات نے امام حسینؑ کی زندگی میں ان کی شہادت کا غم منایا ہے۔ اہل تسنن کی معتبر کتابوں میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ سرورِؐ کائنات نے خصوصی طور پر امام حسینؑ کی شہادت کی خبر سن کر گریہ کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ تمام واقعات واقعہ کربلا سے کم از کم پچاس سال پہلے کے ہیں جب رسولؐ اللہ کے نواسے امام حسینؑ کا بچپنا تھا اور ان کی شہادت نہیں ہوئ تھی۔ کچھ روایاتبطور استدلال پیش کی جارہی ہیں:
١) اہل تسنن کے بزرگ محقق اور عالم دین حاکم نیشاپوری اپنی کتاب ‘المستدرک علی الصحیحین’ میں لکھتے ہیں:
( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بن علی الجوهری ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهیثم القاضی ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعی عن أبی عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَیْتُ اللَّیْلَةَ حُلْماً مُنْکَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِیدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَیْتُ کَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِکَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِی حَجْرِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) خَیْراً رَأَیْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَیَکُونُ فِی حَجْرِکِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَیْنَ(علیه السلام) فَقَالَتْ وَ کَانَ فِی حَجْرِی کَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ یَوْماً عَلَی النَّبِیِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِی حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَیْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَکَ قَالَ أَتَانِی جَبْرَئِیلُ(علیه السلام) فَأَخْبَرَنِی أَنَّ أُمَّتِی سَتَقْتُلُ ابْنِی هَذَا وَ أَتَانِی بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.
حوالہ جات:
• المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 3، ص 176 – 177
• تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 196 – 197۔
• البدایة والنهایة، ابن کثیر، ج 6، ص 258
ام الفضل بنت حارث ایک دن حضور رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپؐ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپؐ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا۔
رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔
بہت جلد فاطمه(علیها السلام) کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا اور وہ بچہ تمھاری گود میں آئے گا۔ ام الفضل کہتی ہیں کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے ان کو اپنی گود میں اٹھایا۔
ایک دن میں حسین(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی ۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوے اور انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ عنقریب میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد شہید کر دے گی پھر انھوں نے مجھے شھادت والی جگہ دکھائی اور وہاں کی خاک بھی دی ہے۔
٢) اسی کتاب میں دوسری جگہ پر یہ روایت نقل ہوئ ہے :
أخبرناه أبو الحسین علی بن عبد الرحمن الشیبانی بالکوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاری ثنا خالد بن مخلد القطوانی قال حدثنی موسی بن یعقوب الزمعی أخبرنی هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبی وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتنی أم سلمة رضی الله عنها ان رسول الله صلی الله علیه وآله اضطجع ذات لیلة للنوم فاستیقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استیقظ وهو حائر دون ما رأیت به المرة الأولی ثم اضطجع فاستیقظ وفی یده تربة حمراء یقبلها فقلت ما هذه التربة یا رسول الله قال أخبرنی جبریل(علیه الصلاة والسلام) ان هذا یقتل بأرض العراق للحسین فقلت لجبریل أرنی تربة الأرض التی یقتل بها فهذه تربتها۔
هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه.
(المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 4، ص 398).
عبد الله بن زمعه کا کہنا ہے کہ: زوجہ رسولؐ ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہوئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شہید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔
(حاکم نیشابوری کہتے ہیں کہ :یہ حدیث بخاری و مسلم کے طریقوں کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔)
٣) اسی طرح ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ، ابن عساکر نے تاریخ مدینه و دمشق میں، مزّی نے تهذیب الکمال میں اور ابن حجر عسقلانی نے تهذیب التهذیب میں اس روایت کو نقل کیا ہے کہ:
عن أم سلمة قالت کان الحسن والحسین یلعبان بین یدی رسول الله صلی الله علیه وسلم فی بیتی فنزل جبریل فقال یا محمد إن أمتک تقتل ابنک هذا من بعدک وأومأ بیده إلی الحسین فبکی رسول الله صلی الله علیه وسلم وضمه إلی صدره ثم قال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة ودیعة عندک هذه التربة فشمها رسول الله صلی الله علیه وسلم وقال ویح وکرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمی أن ابنی قد قتل قال فجعلتها أم سلمة فی قارورة ثم جعلت تنظر إلیها کل یوم وتقول إن یوما تحولین دما لیوم عظیم.
اہل تسنن حوالے:-
• تهذیب التهذیب، ابن حجر، ج 2، ص 300 – 301
• تهذیب الکمال، المزی، ج 6، ص 408 – 409
• تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 192 – 193
• ترجمة الإمام الحسین(ع)، ابن عساکر، ص 252 – 253
• مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189
ام سلمه سے روایت ہوئی ہے کہ:
امام حسن و امام حسین علیهما السّلام میرے گھر میں رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوے اور بعد درود و سلام کے کہنے لگے اے محمد(ص) آپؐ کی رحلت کے بعد آپؐ کی امت آپ کے اس بیٹے حسین(ع) کو شہید کرے گی۔ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے گریہ کیا اور حسین علیه السلام کو سینے سے لگا لیا۔
پھر رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا(ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین(ع) شہید ہو گیا ہے۔
ام سلمه نے اس خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھیں اور خاک سے کہا کرتی تھیں کہ “اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و حزن والا ہو گا۔”
اس روایت سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسینؑ کی شہادت کی خبر سن کر ان پر گریہ فرمایا بلکہ آپؐ نے یہ بھی چاہا تھا کہ ان کی زوجہ جناب ام سلمہ واقعہ کربلا کے رونما ہونے کے بعد امام حسینؑ کی شہادت پر گریہ فرمائیں۔ اسی لیے آنحضرت نے خاک کربلا کو جناب ام سلمہ کے سپرد کیا تھا۔
۴) ایک اور معتبر اور مستند روایت میں نقل ہوا ہے کہ:
عن أبی أمامة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم لنسائه لا تبکوا هذا الصبی یعنی حسینا قال وکان یوم أم سلمة فنزل جبریل فدخل رسول الله صلی الله علیه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعی أحدا أن یدخل علی فجاء الحسین فلما نظر إلی النبی صلی الله علیه وسلم فی البیت أراد أن یدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغیه وتسکنه فلما اشتد فی البکاء خلت عنه فدخل حتی جلس فی حجر النبی صلی الله علیه وسلم فقال جبریل للنبی صلی الله علیه وسلم إن أمتک ستقتل ابنک هذا فقال النبی صلی الله علیه وسلم یقتلونه وهم مؤمنون بی قال نعم یقتلونه فتناول جبریل تربة فقال بمکان کذا وکذا فخرج رسول الله صلی الله علیه وسلم قد احتضن حسینا کاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبی علیه فقالت یا نبی الله جعلت لک الفداء انک قلت لنا لا تبکوا هذا الصبی وأمرتنی ان لا أدع أحدا یدخل علیک فجاء فخلیت عنه فلم یرد علیها فخرج إلی أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتی یقتلون هذا…..
اہل تسنن حوالہ جات:- •مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189
• المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 8، ص 285 – 286
• تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 190 – 191
• ترجمة الإمام الحسین(ع)، ابن عساکر، ص 245 – 246
ابو امامه سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے اپنی بیویوں سے کہہ رکھا تھا کہ اس بچے یعنی حسین (ع) کو نہ رلایا کرو ۔ ایک دن کے جب رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے، جبرائیل نازل ہوے ۔ حضرت رسول صلّی اللّه علیه و آله نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت نہ دینا۔ کچھ ہی دیر میں حسین علیه السلام آئے اور جوں ہی انھوں نے اپنے نانا کو دیکھا تو چاہا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین(ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین(ع) نے رونا شروع کر دیا ام سلمہ نے بہت کوشش کی لیکن حسین(ع) کا گریہ بڑھتا ہی گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسولؐ خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔
جبرئیل نے رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو خبر دی کہ آپؐ کے بعد آپؐ کی امت آپؐ کے بیٹے کو شہید کردے گی۔ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت مجھ پر ایمان رکھنے کے باوجود میرے بیٹے کو شہید کرے گی؟ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسولؐ کے بیٹے کو بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔
پھر جبرئیل نے زمین کربلاء کی خاک رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو دی اور کہا کہ یہ خاک اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپؐ کے فرزند کو شہید کیا جائے گا۔
رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله غم کی حالت میں حسین علیه السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔
ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپؐ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین(ع) کو رونے نہ دینا اور آپؐ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین(ع) خود ہی کمرے میں داخل ہو گئے۔ پیغمبر اکرم صلّی اللّه علیه و آله نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین(ع) کو شہید کر دے گی۔ پھر آپؐ نے زور زور سے گریہ کرنا شروع کر دیا۔
۵) اس موضوع پر اور روایات بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر اختصار کو مد نظر رکھتے ہوے بات کو یہیں ختم کرتے ہیں۔
آخر میں اس روایت کا ذکر کرنا بھی بہت مناسب ہوگا کہ جس میں ام المومنین جناب ام سلمہ نے خود سنّت رسولؐ پر عمل کرتے ہوئے شہادتِ امام حسینؑ کے بعد ان پر گریہ کیا ہے۔ اس روایت کو بہت سے اہل بیت کے چاہنے والے اہل تسنن ذاکرین محرم کے اپنے وعظ میں بیان کرتے ہیں۔ یہ روایت متعدد اہل تسنن کتابوں میں موجود ہے ۔مگر اپنی بات کو مستحکم کرنے کے لیے اس روایت کو ہم جامع ترمذی سے نقل کر رہے ہیں۔
عن سلمیٰ قالت دخلت علی ام سلمة وھی تبکی فقلت ما تبکیک قالت رأیت رسول اللہ تعنی فی المنام وعلی راسہ ولحیتہ التراب فقلت مالک یا رسول اللہ قال شھدت قتل الحسین انفاً.
ترجمہ۔؛ سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گئی تو ان کو روتے ہوئے دیکھا۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں؟ فرمایا:”میں نے سرورؐ کائنات کو خواب میں دیکھا ہے کہ آپؐ کے سر اور ریش مبارک پر خاک پڑی ہے تو پوچھا یا حضرتۖ آپ خاک آلود کیوں ہیں تو فرمایا: میں ابھی حسینؑ کی شہادت کا منظر دیکھ رہا تھا۔
اہل تسنن حوالے:
• سنن ترمذی جلد٢ ص٢٤١
• مشکوٰة شریف باب مناقب اہل بیت علیہم السلام ج٣،ص٢٧٦
• صواعق محرقہ ص١٩٣ طبع مصر
• ینابیع المودة ص٣٢٠ باب ٦٠
• تاریخ دمشق ابن عساکر ص٢٦٣ حصہ ذکر امام حسین
• تذکرة الخواص ص٢٦٨
• تاریخ الخلفاء سیوطی ص ٢٠٨
• کفایة الطالب علامہ گنجی ص٤٣٣
اس روایت سے اس بات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ شہادت حسینؑ کے بعد بھی امام حسینؑ کی مظلومی پر گریہ کرنا سنّت نبوی ہے۔ اسی طرح کی ایک روایت جناب عبد اللہ ابن عباس سے بھی ملتی ہے کہ جس میں یہ ذکر آیا کہ انھوں نے روزے عاشورہ خواب میں سردار انبیاء کو امام حسینؑ کی شہادت پر گریہ فرمایا۔ دوسرے یہ کہ اس بات کو تو سب قبول کرتے ہیں کہ سنت رسولؐ کی ترویج کو زوجۂ رسولؐ سے زیادہ کوئ امتی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے ام المومنین جناب ام سلمہ کا خواب میں رسولؐ اللہ کو گریہ کرتے دیکھ کر خود بھی ان کی پیروی میں گریہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کا خواب سچّا تھا اور ان کا شہید کربلا علیہ السلام کی شہادت پر گریہ کرنا سنّت نبیؐ پر عمل کرنا تھا۔
نتیجہ:
ان روایات سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ سید الشہداء امام حسینؑ کی شہادت کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو جناب جبرائیل نے بحکم خدا دے دی تھی۔ اس خبر کے ملنے کے بعد آپؑ نے اپنے نواسے حسینؑ کی شہادت پر گریہ فرمایا۔ اتنا ہی نہیں روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ آنحضرتؐ نے جو خاکِ کربلا جناب جبرائیل سے حاصل کیا تھا اسے آپؐ نے اپنی زوجہ جناب ام سلمہ کو دیا تا کہ وہ بھی واقعہ کربلا کے بعد امام حسینؑ کی شہادت کی خبر پاتے ہی ان پر گریہ کریں۔
ان واضح اور روشن حوالوں کے بعد بھی اگر کوئ امام حسینؑ پر گریہ کرنے کو بدعت کہتا ہے تو وہ خود گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی سنّت نبویؐ پر عمل کرنے سے روکنے کا جرم کر رہا ہے۔