۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
شهید مطهری

حوزہ / ڈاکٹر فرمان علی سعیدی نے "شہید مرتضی مطہری (رح) کی  جامع علمی شخصیت" کے موضوع پر تحریر لکھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر فرمان علی سعیدی نے "شہید مرتضی مطہری (رح) کی جامع علمی شخصیت" کے موضوع پر تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک ایسےنیک سیرت دانشور کی یاد گفتگو منارہے ہیں۔جس کی روح اور جود سے ایمان اور معنویت کی زلال نہریں جاری تھی۔

شہید مطہری نے ایک مضبوط فکر اور نظریہ اپنے وجود کے اندر پیداکرکے قرب الہی و یقین کی چوٹیوں کو فتح کر لیا۔ جب شہادت کا لباس زیب تن کیا تو ان کے پاک خون نےروح کی پاکیزگی کی تائید کی۔ ان کے آثار، اس مفکر کے قلم وبیان سے نمایاں ہیں۔۔ ایسی معنویت کا خوشبو، تشنگان معرفت و حقیقت کے فکری و ذہنی فضا کو معطر کر دیتی ہے۔ اسی لیے امام خمینی(رح) نے شہید مطہری کی شہادت کی مناسبت سے فرمایا تھا:

" مطہری، طہارت روح، قوت ایمان و بیان میں کم نظیر تھے، جام شہادت نوش کرگئے، اور ملکوت اعلی کی طرف پرواز کرگئے ۔ لیکن بدخواہوں کو معلوم ہونا چاہے کہ ان کی شہادت سے ان کی اسلامی، فلسفی اورعلمی شخصیت ختم نہیں ہوگی"۔

مطہری ایک پرنور ستارہ طلوع ہوا اور دنیا کو اپنے نور سے روشن کرکے رخصت ہوا۔اس صدی میں اسلامی تحریک کے پرچمداروں میں سے ایک جنہوں نے بچپن سے ہی اپنی فکر اور دل کو قرآن ونہج البلاغہ سے مانوس وسیراب کیا۔

نبوت اور امامت میں عمیق فکر و سوچ کے ذریعے، "حکمت اسلامی" کے خرمن سے خوشوں کو اٹھایا، ان تعلیمات کے ذریعے علوم اسلامی اور دینی تعلیمات کے تشنگان کو علوم اسلامی آشنا کیا۔ تشنگان معارف اسلامی کو اپنی فطرت پر غور کرنے اور کامل انسانوں کی پیروی کرنے کی ترغیب د لائی۔

حضرت علی علیہ السلام کی طرح اپنے مخصوض "جاذبہ و دافعہ " کی بناء پر سب سے آگے تھے۔ شہید مرتضی مطہری خاندان وحی و نبوت کے عاشق تھے، اس راہ میں " ولاء ولایت ہا" "سیرت آئمہ اطہار(ع)" "حماسۂ حسینی" "تحریفات عاشورا" کو واضح کیا۔ "قیام اور انقلاب مہدی(عج)" کو دنیا والوں کے لۓ روشن کیا۔ "گفتارہای معنوی"،مقالات فلسفی" کے علاوہ حوزہ و دانشگاہ کے دیگر مو‏ضوعات پر علمی گفتگو کی۔ اور "مقولہ حرکت" اور "شرح منظومہ" کے اساس کو نظریۂ توحید سے اخذ کیا گیا۔ دینی مسائل کی توضيح و تشریح کے لۓ "وقت کے تقاضے " کو مورد توجہ قرار دے دیا۔

وہ مشعل فروزان معرفت، علم اورایمان کو ایک دوسرے سے مانوس کرنے والی شخصیت تھی۔ انسانوں کی زندگی میں " غیبی امداد" کا کردار بیان کیا اور تشنگان حق کے حوالہ کردیا۔دنیا کو آخرت کا مزرعہ قرار دیا اور خود کو سرای جاوید کے لیے آمادہ کیا۔

مطہری کی علمی زندگی

شہید مرتضی مطہری ایک مذہبی اور علمی گھرانے میں پیدا ہوۓ۔ بچپن سے ہی شہید مطہری کو علم کے حصول کا شوق تھا۔ چھ یا سات سال کی عمر میں شہید نے نہایت شوق و ولولہ کے ساتھ فریمان کے مکتب خانہ میں داخلہ لیا تاکہ عربی اور فارسی کے بعض مقدماتی علوم کی تعلیم حاصل کرسکیں۔

ابھی شہید مطہری بارہ سال کے نہیں ہوئے تھے کہ علم کے شوق نے ان کو حوزہ علمیہ مشہد کی طرف کھینچ لیا۔حوزہ علمیۂ مشہد میں چار سال دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، علمی پیاس کو بجھانے کے لیےسولہ سال کی عمر میں حوزہ علمیۂ قم کا رخ کیا۔ اس زمانے میں رضا خان، شاہ ایران ،علما‏ء اور علوم حوزوی کے مراکز کے ساتھ مخالفت کر رہا تھا۔ جو افراد علم و معرفت حاصل کرنا چاہتے تھے اور اہل علم و معرفت کا لباس زیب تن کرنا چاہتے تھے ان سے سختی سے پیش آتے تھے۔ جو افراد مدرس اور اسلامی ثقافت کے مبلغ بننا چاہتے تھے، ان افراد کے لیے سماجی اور سیاسی صعوبتیں برادشت کرناپڑتاتھا، ایک مایوس کن اورتاریک فضا تھی۔

شہید مطہری مدرسۂ فیضيہ قم میں سکونت پذیر ہوۓ ۔ایک سادہ اور بے تکلف لیکن عزت اور قناعت سے سرشار زندگی کا آغاز کیا۔ جب شہید مطہری شادی ہوئی۔ تب بھی ان کی زندگی میں خاص تبدیلی نہیں آئی، صرف آپ کا حجرہ، ایک کرایۂ کے کمرے میں بدل گیا۔

قم میں شہید مرتضي مطہری نے دقت و نظم و نسق، ہمت اور شوق کے ساتھ علوم اسلامی حاصل کرنا شروع کردیا۔

شہید مطہری نے مطول کو آیت اللہ شہید صدوقی کے پاس، شرح لمعہ آیت اللہ مرعشی کے پاس پڑھا، اسی طرح آیت اللہ سید صدر الدین صدر، سید محمد رضا گلپایگانی، سید محمد تقی خوانساری، سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، سید محمد محقق یزدی آپ کے اساتذہ میں سے تھے ان سے آپ نے علوم منقول اور معقول حاصل کیا۔

شہید مطہری نے اصفہان کا مختصر سفر کیا، اس سفر میں شہید کو عالم ربانی حاج میرزا علی آقا سے ملاقات کرنے کی توفیق ہوئی اور آپ نہج البلاغہ سے مانوس ہوگئے۔اس سفر اور ملاقات کے بارے میں شہید مطہری فرماتے ہیں:"

1320ہجری شمسی کو پہلی بار اصفہان گیا میرے محترم ہم مباحث جوکہ اصفہان سےتھا مجھے مشورہ دیا کہ مدرسہ صدر میں ایک بزرگ عالم دین تشریف رکھتے ہیں اور نہج البلاغہ کا تدریس کرتے ہیں ان کے درس میں شرکت کرتے ہیں، آئیں ساتھ اصفہان چلتے ہیں ۔اس کا مشورہ میرے لئے کافی سخت تھا۔ جو طالب علم کفایۃ الاصول پڑھتا ہو ۔اس کے لیے نہج البلاغہ کی کلاس میں شرکت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن چھٹیوں کے ایام تھے، میں نے قبول کرلیا۔۔۔ دیکھا کہایک اہل تقوا و معنویت سے روبرو ہوں کہ طلاب کےبقول ان افراد میں سےتھے جو راہ دور سے ان سے استفادہ کرنے کے لیے سفر کرنا چاہیے ۔انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے نہج البلاغہ کے وادی میں داخل کر لیا۔۔۔ اس کے بعد نہج البلاغہ کے بارے میں میری رائے بدل گئی، نہج البلاغہ میرے لیے مورد پسند قرار پایا اور میرا محبوب ہوا، اس استاد کی ملاقات کو ہمیشہ اپنی عمر کے انمول ذخیروں میں سے قرار دیتا ہوں، کوئی شب و روز نہیں ہے کہ اس کا خاطرہ میرے سامنے مجسم نہ ہوجائے ، ان کی یاد اور ذکر خیر نہ کروں، میں جرات سے کہتاہوں کہ واقعی وہ ایک عالم ربانی تھے"۔

شہید مطہری نے 1323شمسی سے رسمی طور پر علوم فلسفی اور عقلی پڑھنا شروع کیا منظومہ حکیم سبزواری کے حکمت کی بحث پڑھا۔ البتہ آپ اس سے پہلے مرحوم امام خمینی(رح) کے درس اخلاق میں شرکت کرتے تھے۔ چنانچہ شہید مطہری اس درس کے تاثیر کے بارے میں فرماتے ہیں:"

اگرچہ میری قم مہاجرت کی ابتدامیں کہ ابھی مقدمات سے فارغ نہیں ہوا تھا۔ مگر درس اخلاق جو میرے مورد پسند اور میری محبوب شخصیت کے توسط سے ہر جمعرات کو دیا جاتا تھا۔در حقیقت یہ درس اخلاق،معارف اور سیر و سلوک کا درس تھا، اس طرح مجھے اپنی طرف جذب کر لیا دوسرے ہفتے کے بدھ اور منگل دن تک، خود کو اس درس سے شدید متاثر ہوتا تھا۔ میری فکری اور نفسیاتی شخصیت کا بڑا حصہ اسی درس اور دیگر دروس میں، جو میں نے بارہ سال کی مدت میں اس الہی استاد سے حاصل کیا تھا، کامل ہوئی اور ہمیشہ خود کو ان کی مرہون منت سمجھتا ہوں در حقیقت وہ الہی روح قدس تھا "۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .