۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
شهید مطهری

حوزہ/اسلامی تاریخ کامطالعہ کریں تو بشریت کی ہدایت کے لئے ایسے درخشاں اور پر افتخار چہرے  گزرے ہیں جنہوں نے اپنی بلند ہمت اور مضبوط اداروں کے  ذریعے مراتب علم و تقوی اور معنویت کے اعلیٰ منازل طے کئے،انہیں میں سے ایک شہید مرتضی مطہری ہیں جو عاشق  اہل بیت تھے اور برجستہ اسلام شناس علماء اور محققین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔

تحریر: عباس صابری

مقدمہ:

حوزہ نیوز ایجنسی اسلامی تاریخ کامطالعہ کریں تو بشریت کی ہدایت کے لئے ایسے درخشاں اور پر افتخار چہرے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی بلند ہمت اور مضبوط اداروں کے ذریعے مراتب علم و تقوی اور معنویت کے اعلیٰ منازل طے کئے ہیں انہیں میں سے ایک شہید مرتضی مطہری ہیں جو عاشق اہل بیت تھے اور برجستہ اسلام شناس علماء اور محققین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ نے اہل بیت کے نقش قدم اور سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی انسانیت کی ہدایت اور مکتب کی خدمت میں گزاری۔

آپ نے کوشش اور مجاہدت کے ذریعے معارف اسلامی کے تمام شعبوں جیسے فلسفہ، فقہ و اصول وغیرہ میں مکمل مہارت حاصل کی۔

شہید مطہری علامہ طباطبائی اور امام خمینی کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔اسلامی انقلاب سے پہلے ایران میں مارکسی فکرکے خلاف شہید مطہری کی فکری جد و جہد نے نوجوانوں کو ان باطل نظریات سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

شہید مطہری نے الہیات اور فلسفہ پر بے شمار کام کیا ۔ اسلام اور تشیع کی تجدید اوردرست تفسیر شہید مطہری کی فکری سرگرمیوں کابنیادی محور تھا۔شہید مطہری نے ( اسلامی تعلیمات کو جو پہلے پیچیدہ اور مشکل زبان میں پیش کی جاتی تھی) آسان اورسلیس زبان میں پیش کیا۔

تعلیم:

شہید مطہری نے اپنے والد کے پاس سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا ۔ دو سال تک آپ مشھد میں دینی علوم حاصل کرتے رہے ۔ اس کے بعد آپ سنہ 1936 ء میں آپ مزید تعلیم کی حصول کے لئے شہر علم و اجتہاد شہر قم کی طرف روانہ ہوئے ۔ قم میں طالب علمی کے دوران آپ نے میرداماد کے نام سے مشہور آیت اللہ سید محقق یزدی کے پاس مکاسب اور کفایہ اور ایک سال آیت اللہ حجت کوہ کمرہ ای ( مؤسس مدرسہ حجتیہ ) کے پاس درس خارج میں شرکت کی ۔ان کے علاوہ آیات عظام سید صدرالدین صدر،محمد تق خوانساری، گلپایگانی، احمد خوانساری اور نجفی مرعشی سے بھی کسب فیض کیا ۔ جب آیت اللہ بروجردی قم میں تشریف لائے۔تو شہید دس سال تک ان کے فقہ و اصول کے درس میں شرکت کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ آپ نے مرحوم امام رحمۃ اللہ اور علامہ طباطبائی کی بھی شاگردی بھی کی۔

تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیاں:

حوزہ علمیہ میں طالب علمی کے آغاز سے ہی ان کی تبلیغی فعالیتوں کا آغاز ہوا۔ آپ کے بھائی کے مطابق شہید مطہری نذر کرتے تھے کہ اگر خدا نے توفیق دی تو بغیر کسی لالچ کے دین کی تبلیغ کریں گے۔ اور تبلیغ کے لئے مختلف دیہاتوں میں چلے جاتے تھے ۔ 5 سال تک ایران کے شہر آراک ،ھمدان،اور نجف آباد میں دین اسلام کی تبلیغی فریضہ انجام دیا۔

شہید مطہری حوزہ میں تحصیل کے دوران تبلیغی فعالیتوں کے علاوہ ادبیات، فلسفہ، منطق، کلام، مکاسب اور کفایة الأصول پڑھاتے تھے۔دوران تحصیل اور تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات جیسے جدلیاتی مادہ پرستی کا مطالعہ فرماتے تھے ۔

3 ۔ثقافتی سرگرمیاں:

قم سے تہران جانے کے بعد آپ ثقافتی کاموں میں مشغول رہتے تھے ۔ یونیورسٹی اور مدرسہ مروی میں تدریس کے علاوہ بعض جرائد جیسے مکتب تشیع اور مکتب اسلام کے ساتھ قلمی تعاون کرتے۔ ۔ 1957 میں مکتب تشیع کی تأسیس کے ذریعے اسی میں کام کرنے والوں کی فکری تربیت کرنا شروع کرتے تھے ۔ اور ساتھ روح کی اصالت، قرآن اور حیات، توحید اور تکامل جیسے موضوعات پر اسی جریدے میں مضامین شائع کرتے ہیں۔ 1953ء میں سے جب مکتب اسلامی نامی جریدہ شائع ہونا شروع ہوا تو اس مجلہ کے بورڈ آف رائٹر کے ساتھ تعاون کیا اور نہج البلاغہ کی سیر ،اسلام اور غرب میں جنسی اخلاق جیسے مضامین آپ کے قلم سے اس مجلے میں شائع ہوئے ہیں۔تقریباً 1959ء میں اسلامی ڈاکٹروں کی انجمن قائم ہوئی جہاں ہر دو ہفتے میں ایک جلسہ ہوا کرتا تھا اور آپ ان جلسات سح خطاب کرتے تھے۔ توحید، نبوت ،معاد، حجاب کا مسئلہ، اسلام میں غلامی، ربا ،بینک اور بیمہ جیسے موضوعات پر ان جلسوں میں بحث کی۔

سیاسی سرگرمیاں:

شہید مطہری تہران میں قیام کے دوران علمی اور ثقافتی فعالیتوں کے ساتھ ساتھ مخفی طور پر سیاسی سرگرمیوں میں بھی مشغول رہتے تھے ۔ شہید اکثر اوقات سیاسی نظریات کو دینی مسائل کے ضمن میں بیان کرتے تھے۔

6 جون 1963ء کی اسلامی تحریک میں جب امام خمینی گرفتار ہوئے تو شاہی کارندوں نے شہید مطہری کو گرفتار کیا اور آپ 40 دن تک جیل میں رہے ۔ جیل سے رہائی کے بعد بھی آپ سیاسی فعالیتوں کو جاری رکھتے تھے ۔ مسجد ہدایت میں آپ اپنی تقریروں میں غیر مستقیم امام خمینی کی تحریک کو روشناس کراتے تھے ۔ حزب مؤتلفه اسلامی ( متحدہ اسلامی کونسل ) نامی تنظیم ایک فقہی اور سیاسی شورای تشکیل دی تھی۔ شہید مطہری ہمیشہ اس شورای کی نظریاتی سرحدوں کےمحافظ تھے۔اور مشورہ دیتے تھے کہ ان کی سمت درست اور منطقی ہونی چاہیے ۔ اور منحرف تحریکوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے ۔ انسان اور سرنوشت نامی کتاب شائع ہونے سے پہلے اس کے مضامین پمفلٹ کی شکل میں منتشر اور اس تحریک کے کارکنوں میں تقسیم ہوتے اور ان کی تدریس ہوتی تھی۔

آثار شہید مطہری:

آئینہ جام، اخلاق جنسی در اسلام، انسان کامل، انسان و ایمان، حماسه حسینی 2 جلدی، حق و باطل، سیری در نهج‌البلاغه، عدل الهی، نظام حقوق زن در اسلام، مسئلہ حجاب وغیرہ آپ کی یادگارکتب ہیں۔ اس کے علاوہ بہت ساری کتابیں مجموعہ اثار اور یاد داشت کی شکل میں موجود ہیں۔جن میں سے ہر کتاب وموضوع معاشرہ کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

منابع :

مصلح بیدار ( محمد حسین واتقی

مجموعه آثار شهید مطهری

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .