۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید کاظم رضا

حوزہ/ آج مسلمان اسلام سے اتنے ہی دور ہوچکے ہیں کہ ایک سچے مسلمان کیلئے ان کے درمیان زندگی گذارنا اسی طرح دشوار ہوگیا ہے جیسے رسول اسلامؐ کو اپنے گھر میں رہنا دشوار ہوگیا تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسیمندرجہ بالا عنوان کسی تازہ واردات یا نئے واقعہ کی سرخی نہیں ہے ایساکچھ بھی نہیں ہے لفظ غریب بھی یہاں فقیر ومحتاج کے معنی میں نہیں ہے جیسا کہ عام بول چال میں سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ عنوان ایک دینی کراہ ہے جس کو در دین رکھنے والا ہی محسوس کرے گا۔

آج کے عالمی مشاہدہ میں مسلمان غنی اور سب محتاج ہیں دنیا بھر کی للچائی نظریں اسی کے سرمایہ پر ہیں اسلام دشمن عناصر اس کے ہمدرد ودوست بن کر اس وقت پرکہلا بھیجا کھاؤ پر لگے نہیں جیسے کوئی شاطر اچکا بچہ کو مٹھائی اور کھلونے دے کر اس کے گلے ہاتھ پیر سے زیور اتارے اور اس اتارنے میں اگر جان کی ضرورت پڑے تو جان بھی لے لے مسلمان خواب خرگوش میں پڑا ہے۔اسباب راحت جمع ہیں۔ راوی چین لکھتا ہے وطن میں ہر کسی کو سکون میسر ہے لیکن دولت مند مسلمان مزید سکون حاصل کرنے کیلئے وطن سے دور مقامات عیش میں جاکر اپنا دربار لگاتا ہے اور بارگاہ آراستہ کرتا ہے۔

یورپ،امریکہ، فرانس کے عشرت کدے اپنے شکار کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور ہوس کی (ہ)سے لے کرہوس(س) تک سامان کرتے ہیں غنی کا دل ناراض نہ ہو دولت کا انبار لگ جائے۔ جو کبھی پانی کو ترستا تھا سوکھے کھجور سوکھے گوشت پر جن کی زندگی تھی خیموں اور کھجور کے جھونپڑوں میں بسر کرنے والے طبقاتی محلوں میں رہتے ہیں۔ سردابون میں گھسنے والے ایئر کنڈیشنل روم میں برقی پنکھوں کے تلے آرام کرتے ہیں کولر ،ہیٹر سبھی گرمی سردی کی رعایت سے موجود ہے۔

دن عید رات شبرات گذر رہی ہے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تو امراء اور شیوخ اور اعلیٰ حیثیت والوں کے حالات ہیں۔عام مسلمانوں کو یہ آرام اور چین میسر نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عام لوگوں کی حالت اتنی اچھی ضرور ہے کہ ان کو نوکری مزدوری کرکے پیٹ پالنے کی ضرورت نہیں اسی لئے کاریگر، انجینئر، ڈاکٹر، لیبر صنعت وحرفت والے سب دوسروں ملکوں سے بلائے جاتے ہیں یہ عام خوش حالی کی علامت ہے۔ ہر طرح کی آسائش خوش حالی اختیار واقتدار حاصل ہونے کے باوجود دین کا سرمایہ گھٹتے گھٹتے اور ایمان کی پونجی کم ہوتے ہوتے نوبت پیش گوئی کے پورے ہونے کی ـآگئی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے آخر زمانہ کی حالت کیلئے یہ فرمایا کہ اسلام ختم ہوجائے گا صرف نام باقی رہ جائے گا اسی طرح قرآن نہ رہ جائے گا۔ صرف خطوط ونقوش رہ جائیں گے یعنی مسلمان کا عمل بالکل دستور اسلام کے خلاف ہوگا اور قرآن کے ایک حکم پر بھی کاربند نہ رہے گا ایسے مسلمان ہر جگہ مل جائیں گے جن کا نام اس لئے مسلمانوں کا ہے کہ خود انہوں نے نہیں بلکہ ان کے ماں باپ نے رکھ دیا تھا پیدا ہوئے تھے تو ممکن ہے کان میں اذان واقامت کہی گئی ہو اور مرنے پر نماز میت کا امکان ہے باقی شروع سے آخر تک عمل اسلام پر نہیں ہوا ۔ عموماً مسلمانوں کو دین سے اسلام وایمان سے کتنا ربط ہے اس کا اندازہ اس وقت بہت آسان ہے جب دین سے دنیا کے فائدہ کا ٹکراؤ ہوا گرمسلمان دین پر دنیا کے فائدہ کو قربان کردے تو واقعی مسلمان ہے اور اگر مسلمان کے فائدہ کے لئے دین کو پس پشت ڈالا ہے تو نام کا مسلمان ہے آج مذہب سے مسلمان کتنا دور ہے کہ آزادی خود مختاری کے ہوتے ہوئے بھی مسلمان حکومت میں قانون اسلام نافذ کیوں نہیں کیاجاتا صرف اس لئے کہ غیر اسلامی زندگی معمول بن چکی ہے اسلامی قانون سے آج مسلمان کی گنہگار زندگی ڈرتی ہے شوق گناہ اور اصرار گناہ ہمیشہ اسلام سے دوری چاہتی ہے۔

آج کی جس قدر بھی مسلمان حکومتیں ہیں خواہ وہ شخصی ہوں یا جمہوری کہیں بھی صحیح طور سے اسلامی قانون نظر نہیں آتا چاہے ان میں سے کچھ کو یہ دعویٰ ہو کہ ہمارے ملک میں اسلامی قانون پر عمل در آمد ہے اس لئے کہ جو مدعی بھی ہیں ان کے یہاں سوائے تعزیزات کے کسی اسلامی قانون پر عمل نہیں ہے وہ بھی دنیا کے دکھانے کیلئے کبھی ایک آدھ واقعہ پر سزا کا اعلان ہوجاتا ہے سعودی حکومت کو سب سے بڑھ کر دعویٰ ہے کہ ہمارے قانون اسلام پر عمل ہے جہاں حج کے موقع پر اسلامی شان کے اظہار کے طور پر کہیں لکھا ہے کہ’’نہ نقصان پہونچاؤ نہ نقصان اٹھاؤ‘‘کہیں یہ تحریر ہے کہ بہترین عمل حج کے موقع پر راستہ سے اذیت رساں چیزوں کا دور کردینا ہے‘‘مگرخدا کے مہمانوں کی کیا گت کسٹم میں بنتی ہے اس کو آنے والے غریب کا دل ہی جانتا ہے مسافر چور کی طرح حوالات میں بند ہے اس کے اسباب کی مال مسروقہ کی طرح جانچ پڑتال ہورہی ہے دنیا بھر میں کہیں دوائیں نہیں پھینکی جاتیں ہیں خشک غلہ مرچ مصالحہ کتھا ،ڈلی، بیڑی،پان، بسکٹ وغیرہ ضائع نہیں کرتے لیکن نہایت بے دردی سے اللہ کے گھر کے مسافر مہمان کی یہ افزائش ی چیزیں جو حفظان صحت کے لحاظ سے قطعاً صحیح اور بے ضرر ہیں کوڑے کے ٹوکرے میں ڈال دی جاتی ہیں اسلامی قانون کیا اس سلوک کو روا اور جائز سمجھتا ہے کیا حکمران جماعت جو خدام حرم کہلاتے ہیں کیا ان سختیوں سے آگاہ نہیں ہیں۔ کیا یہ راہ کے روڑے نہیں ہیں جن کو ہٹایا جائے کیا حج کیلئے جانے والے مسلمانوں سے مطوف کی فیس جس میں مکہ ومدینہ لے جانے اور پورٹ تک پہنچانے کا کرایہ وغیرہ دشامل رہتا ہے سب کاٹ کر ڈرافٹ واپس ملتا ہے کیا کسی مطوف کا کوئی آدمی اپنے حاجیوں کی کسی قسم کی کوئی رہنمائی ہوتی ہے کسٹم میں بس مطوف کا کوئی آدمی اپنے حاجیوں کو لینے کیلئے ایئرپورٹ پر پہونچتا ہے کیا اسے مفت سواری فراہم ہوتی ہے کیا حاجی کی کسی قسم کی کوئی رہنمائی ہوتی ہے۔

کسٹم میں بس مطوف کے نام کا پرچہ حاجی کو پکڑا دیا گیا اور بس چھٹی مہمان خدا خود اپنے رہنے کا انتظام کرے اور دو فٹ چوڑی پانچ فٹ لمبی جگہ مہینہ پندرہ دن یا ہفتہ بھر کیلئے ہزار ریال دے کرکرایہ پرلے گراں کھانا کھائے گراں سواری پر بیٹھے گراں چیزیں خریدے کا لطیفہ کیا بات ہے کہ ایک ماچس کی ڈبیہ بھی ایک ریال کی اور دس ڈبوں کے پیکٹ کی قیمت بھی ایک ہی ریال ہے میں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں یہ بات نوٹ کی کہ سعودی کا کوئی شخص غیر عرب آنے والوں پر سلام نہیں کرتا اور اگر مسافر سلام کرتے ہیں اس کا منھ سے کیا سر ہلاکر بھی جواب دیدیں تو بڑی بات ہے وہ زیادہ مسلمان اور باہر سے آنے والے کم مسلمان ہیں، کیا آپ سب کے آقا اور آنے والے سب آپ کے غلام ہیں، یہ کچھ بھی نہیں سب اطمینان کے تماشے ہیں آرام میں خدا کو بالکل بھول جاتا ہے حاجی روضہ رسولؐ پر مار کھاتے ہیں ڈھکیلے جاتے ہیں گھسیٹے جاتے ہیں عورتوں کو محافظ کھینچ کر علیٰحدہ کرتے ہیں جبکہ وہ مرد ہیں نامحرم کا ہاتھ۔۔۔کے جسم کی گرفت کرے کیا یہ درست ہے کیا مسجد کا احترام یہی ہے کہ مسلمان مارے پیٹے ڈھکیلے جائیں حرم کی دھلائی سڑک کی صفائی دوا پاشی سے مقدم دل کی صفائی وستھرائی ہے۔

تعلیمات اسلامی کے خلاف سارے اخلاق عادات ہیں عقاب کی جیسی نظریں کہ کیسے اس کے پیسے اپنی جیب میں پہونچ جائیں اور پردیس میں لوٹ لیں ٹیکسی کا کرایہ مقامی کیلئے کم اور مسافر ہے تو پوچھ کر کرایہ بتاتے ہیں کعبہ محترم میں حجر اسود کا بوسہ انھیں مل جاتا ہے جن پر محافظ مہربان ہوگئے ورنہ دوسرے دونوں ہاتھوں سے ڈھکیلے جاتے ہیں لوگوں نے مٹھی گرم کرنے کی بات آنکھ کی دیکھی بیان کی ہے یہ سب وہاں کی باتیں ہیں جہاں سے اسلام پھیلا جو حرم خدا اور حرم رسولؐ ہے پھر اس کے بعد اسلامی معاشرہ اسلامی قانون دوسری مسلمان حکومتوں میں کہاں پایا جائے گا اسلامی قانون حکومتوں کو دل سے قبول نہیں چاہے زبان سے پچاس مرتبہ دن رات دہرایا جائے کچھ تو سرے سے اسلامی قانون ہی کو نہیں چاہتے اور کان پر ہاتھ رکھتے ہیں کوئی ابھی تبھی لگائے ہے کسی کو سیاسی طور پر صرف پکارنا ہے کہ قانون اسلامی نافذ کرکے رہیں گے اور خود کو قانون سے بلند سمجھ کر خلاف ورزی بھی کرتے رہیں گے۔

ایک اسلامی جمہوریہ ایران ایسی حکومت دنیا میں ہے جہاں اسلام کی شان اور اسلام کا قانون نظر آتا ہے آج دنیا کی کافر طاقتیں جسے کٹر اور جنونی کہتے ہیں اس لئے کہ سب نمازیں پڑھتے دعائیں کرتے ہیں اور خدا کا نام لے کر اس کی مدد چاہتے ہوئے آج کفر سے نبرد آزما ہیں۔

افسوس آج پڑوسی اور دور کی مسلمان حکومتیں ایران کی مدد کے بجائے ان کی کمک پر لگی ہیں جو کہ ایران میں اسلامی جمہوریہ کے وجود کو دیکھنا نہیں چاہتے کیا یہ قرآن کی ہدایت کے خلاف بات نہیں ہے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے کہ سوائے مومنین کے کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ کیا قرآن میں ان غافل مسلمانوں کو جو کفار کی رضا جوئی چاہتے ہیں یہ تنبیہ موجود نہیں ہے کہ یہود ونصار اس وقت تک تم سے راضی نہ ہوں گے تا وقتیکہ تم ان کے دین کے پیرو نہ بن جاؤ‘‘ مگر آج خود کو اسلامی حکومت کا نام لے کر ہر حکومت کا جھکاؤ صاف صاف یہود ونصاریٰ کی طرف ہے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایران کے اسلامی جمہوریہ پر مسلط جنگ کو اپنی مدد سے جاری رکھے ہوئے ہے اسی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔دوسری حکومتیں ہیں جو صدام یزید یہودی کو اب تک زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

آج مسلمان اسلام سے اتنے ہی دور ہوچکے ہیں کہ ایک سچے مسلمان کیلئے ان کے درمیان زندگی گذارنا اسی طرح دشوار ہوگیا ہے جیسے رسول اسلامؐ کو اپنے گھر میں رہنا دشوار ہوگیا تھا۔

نوٹ : یہ مضمون پندرہ روزہ میگزین تنظیم المکاتب کے ۲۰ جون ۱۹۸۴ ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .